"تم مان کیوں نہیں لیتے ؟ کہ مذاہب تشدد پہ اکساتے ہیں،
پتہ نہیں شائد ان کی اصل تعلیمات کچھ اور ہوں ، لیکن ان کے ماننے والے بلا
جھجک ایک دوسرے کے گلے کاٹنے اور خون کی ہولی کھیلنے میں بڑا لطف محسوس
کرتے ہیں ۔نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مسجد کے اندر ہوئے سانحے ہی کو
دیکھ لو ، کس طرح ایک درندے نے مذہبی بہکاوے میں آکر صرف مذہب کی تقسیم پر
پچاس بے گناہوں کو ہلاک کردیاہے"۔ سر ! ہلاک نہیں شہید کہیں"
میں نے انہیں فورا" ٹوکا "
ہاں ہاں ٹھیک ہے ۔ تم کہہ سکتے ہو، لیکن کیا اب بھی تم اس بات سے انکار
کرتے ہو کہ یہ مولوی ، فادر ، ربی ، پنڈت ، گیانی سب اپنے پیروکاروں کو
دوسروں سے نفرت اور ان کے قتل عام کا درس دیتے ہیں ۔ بظاہر ان کی شکلیں اور
عقائد الگ الگ ہیں ۔لیکن جنت بھیجنے کا راستہ سب کے پاس ایک ہی ہے "۔
ہم لوگ لالہ موسی کے قریب ایک گاوں کلیوال سیداں میں لیموں اور امرود کے
باغ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ یہ بزرگ ہمارے پاس آبیٹھے اور باتوں باتوں میں
اب یہ حساس موضوع شروع ہوگیاتھا ۔
میں نے بڑے ادب سے گزارش کہ " بابا جی اس میں کوئی شک نہیں کہ عیسائی ہٹلر
نے عقیدے کی بناء پہ لاکھوں یہودی قتل کئے، امریکی صدر بش نے عقیدے کے
اختلاف کی وجہ سے تیس لاکھ عراقی اور افغانی مسلمان تہس نہس کرکے رکھ دئیے
، آج بھی فلسطین ، کشمیر اور برما میں صرف عقیدے کے فرق کی وجہ سے لاکھوں
مسلمان جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں ۔کیونکہ غیر مسلم
ممالک میں کتے بلیوں کے حقوق تو ہوسکتے ہیں ، لیکن اسلام کے ماننے والوں کے
لئے کوئی جائے پناہ نہیں ۔ آپ مذاہب کو مجرم ٹھہرا رہے ہیں لیکن یہ بھی تو
دیکھیں کہ روس نےبھی کچھ عرصہ قبل افغانستان کو برباد کرنے کا خواب دیکھا
تھا ، وہ تو کسی خدا کو ہی ماننے والے نہیں تھے، پھر کیوں انہوں نے افغانوں
کی لاشوں پہ ٹینک چڑھائے؟"۔
کسی بھی مذہب کی اصل تعلیمات بے گناہ انسانوں کے قتل عام پر نہیں اکساتیں ،
بے شک مسلمان ہر جگہ مارے جارہے ہیں ، آج ہمارا خون پانی سے سستا اور ہماری
عزتیں رسوا ہورہی ہیں۔لیکن ہم پھر بھی سمجھتے ہیں برما میں جو کچھ ہوا وہ
مہاتما بدھ کی تعلیمات نہیں ، فلسطین میں یہودی جو کچھ کررہےہیں وہ موسی
علیہ السلام کا دین نہیں اور امریکی جو فصل بور ہے ہیں اس کا بیج حضرت مسیح
علیہ السلام نےنہیں دیا ، کشمیر میں بہنے والا لہو رام اور کرشن کی منشاء
نہیں ۔
اور رہی بات اسلام کی تو یہ ایسا دین فطرت ہے کہ اس کی مثال ملتی ہی نہیں ۔
سلامتی ، عافیت اور انسانیت کی بقاء صرف اسلام میں ہے ۔ اسلام میں جہاد کا
حکم ہے ، لیکن اس کی سخت شرائط بھی ہیں جہاد ہمیشہ مظلوم کی مدد اور ظالم
کا ہاتھ روکنے کے لئے کیا جاتا ہے ۔ مشہور کہاوت ہے کہ " محبت اور جنگ میں
سب جائز ہے "۔ محبت تو ایک پاکیزہ اور لطیف جذبہ ہے ہی اسلام نے تو حالت
جنگ میں بھی تلوار کو پابند کردیا کہ صرف ظالم کا سر کاٹنا ہے کسی بے گناہ
پہ خراش تک نہ آئے ۔ کائنات کے سب سے بڑے خیر خواہ اور سچے انسان نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جنگ کے ضابطے طے کر دئیے کہ " کسی بزرگ ، عورت،
اور بچے کو قتل نہیں کرنا ، پھلدار درخت نہیں کاٹنے ، اور کسی کو آگ میں
نہیں جلانا"۔اورکیا آج اگر ساری دنیا اسلام کا صرف ایک اصول مان لے تو یہ
ساری دنیا جنت نہیں بن سکتی ؟ کہ "جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے
ساری انسانیت کو بچالیا"۔
اسلام اور مسلمان کا دہشتگردی سے کبھی تعلق تھا نہ ہوگا ، یہ دنیا جس دن
اسلام کے اصل سے آگاہ ہوجائے گی ہر طرف امن ہی امن ہوگا ۔
|