گلشن اسلام کو شاداب رکھنے کے لئےمدارس دینیہ انسانیت کی
تعمیر اور علماءکی سیرت بینی میں ہمہ تن مشغول ہیں.
علامہ اقبال مرحوم نے فرمایاتھا
"اگر یہ مدارس اور ان کی ٹوٹی ہوئی چٹا ئیوں پربیٹھ کر پڑھنے والے یہ درویش
نہ رہے تو یاد رکھنا تمھارا بھی وہی حال ہوگاجو میں اندلس اور غرناطہ میں
مسلمانوں کا دیکھ کر آیا ہوں.
اور سچ یہی ہےکہ چاہے باد مغرب کی تند و تیز آندھی ہو یا طاغوت کی
اندھیرنگری چاہے اغیار کا تسلط ہو یا لبرل طاقتوں کے وار مدارس ہمیشہ سیسہ
پلائی ہوئی دیوار کی طرح ان سے نبرد آزما رہے-
مدارس اقداروکردار کی ایسی بناوٹ وسجاوٹ کر رہے ہیں کہ علمی، دینی اور فکری
تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کا بھی بیڑا اٹھائے ہوئی ہیں-
مدارس ایسے گلستان ہے جہاں چھوٹے طلبا و طالبات کی تعمیری صلاحیتوں کو
نکھاراجاتا ہے-معصوم کلیوں کی پلک نوک نرمی سے درست کی جاتی ہے کہ جو بھی
کانٹے اگنا چاہیں انھیں نرمی سے دور کیا جاسکے-تاکہ یہی کلیاں ایسے سیرت و
کردار کو لے کر گلاب بنیں جس کی خوشبوں سے پورا گلشن مہکے-
مدارس کی ملت اسلامیہ کے لئے قربانیاں اور خدمات کا ادراک کرتے ہوئے ہمیں
تصویر کے دوسرے رخ سےآنکھیں نہیں موڑنی چاہئے جی ہاں!!!
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مدارس شدید معاشی بد حالی کا شکار ہیں% 88 مدارس مخیر
حضرات کے تعاون سے چل رہے ہیں اور اکثر کے زرائع آمدن اور اخراجات کا کوئی
تسلی بخش ثبوت نہیں.سرکاری سرپرستی اور حکومتی نگہداشت کے بغیر یہ مدارس
اندھیری رات کے مسافر سے کچھ مختلف نہیں- آخر کب تک مدارس امداد اور تعاون
سے چلتے رہینگےان کے لئے کوئی مستقل اور متبادل موثر نظام کیوں متعارف نہیں
کروایا جاتا؟؟
گزشتہ دور حکومت میں" مدارس ریفارمز" کی آوازیں بلند ہوئیں جو نیشنل ایکشن
پلان کے سلسلے کی ایک کڑی تھی.تمام مدارس کو رضاکارانہ طور پر رجسٹریشن
کروانے اپنے زرائع آمدن اور طلباء و طالبات کا ریکارڈ جمع کروانے کا عندیہ
دیا گیا-
لیکن مدارس کا رضاکارانہ رجسٹریشن کروانا اور data collectionمیں معلومات
کرنا اتنا موئثر ثابت نہ ہو سکا. ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر ہنگامی
بنیادوں پر دن رات کام کیا جائے. ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ہاں25000 مدارس
کی رجسٹریشن ہو چکی اور 9000 کے لگ بھگ مدارس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں-
اسی طرح مدارس اور عصری تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو ہوش ربا نتائج سامنے
آتے ہیں کہ صرف %5مدارس ایسے ہیں جو عصری تعلیم سےاپنے تلامیز کو ہم کنار
کروارہے ہیں-
آج مدارس میں شاہ ولی اللہ اور ملا نظام الدین کے نصاب سے استفادہ کیا
جارہا ہے جسے"درس نظامی"کہتے ہیں-اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات عیاں
ہوتی ہے کہ ہر دور میں علماءنے اپنے زمانے کی ضرورت کے مطابق نصاب میں
تبدیلی کی ہے-اور آج بھی مروجہ مدرسہ نصاب کو دینی اور عصری مقاصد کے
لئےزیادہ موءثر بنانا وقت کی ضرورت ہے-معاون اسلامی مضامین اصول سیاست اور
جدید سائنسی مضامین کو مجوزہ نصاب کا حصہ بنایا جائےتاکہ دینی اور عصری
تعلیم کےطلباء میں ہم آہنگی پیدا ہو-
اسی طرح معلمین اور مدرسین کے لئے بھی ایک معیار مقرر کیا جائےاور ان کے
لئے سرکاری خرچ سےتنخواہیں مقرر کی جائیں- اس امر میں خیبر پختونخواہ کی
حکومت نے گزشتہ تین برسوں میں کوششیں کی جو قابل ستائش ہیں مگر انھیں تندئ
باد مخالف دیکھنا پڑھی اور معترضین نے اسے سیاسی رنگ دیا-علماءنے اسےانھیں
خریدے جانےسے تعبیر کیا اور اپنی خود مختاری اور خودی کے لئے زہر قاتل
سمجھاجو کہ یقیناگمراہ کن ہے-اسی طرح مدارس کو سرکاری تعلیمی بورڈ سےمنسلک
کرنے کی تجویز کے خلاف شدید تحفظات سامنے آئے.
راقم الحروف کی رائے کے مطابق مدارس کی خود مختاری اور شناخت کو برقرار
رکھتے ہوئےان کی نگرانی اور آبیاری کے لئے سرپرستی کے نظام کو موثر بنایا
جائے-مدارس کے قائم شدہ بورڈ جیسا کہ وفاق المدارس کو اپنے اعتماد میں لے
کر مروجہ نصاب میں موثر تبدیلی لائی جائے تا کہ مدرسےکے غریب بچے کی سند کو
بھی وہی توقیر ملے جو کہ گرائمر سکول کے بچےکو ملتی ہے،وہ بھی بڑا ہو کر
ڈاکٹر، انجنیئر،وکیل اور افسر بن سکے-حکومتی مراعات اور سہولیات جیسے
سرکاری سکولوں کو دی جاتی ہیں مدارس کو بھی بہم پہنچائی جائیں-کیونکہ آج
بھی ٹوٹی ہوئی چٹائی پر بیٹھ کر پڑھنے والا مدرسے کا بچہ لوگوں کی خیرات،
صدقات اورذکات پر پڑھ لکھ کر خود اعتمادی اور خوداری سے محروم ہے
کبھی مایوس مت ہونا
اندھیرا کتنا گہرا ہو
کبھی بھی ہو نہیں سکتا
سویرا ہو کہ رہتا ہے. |