بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ارکانِ اسلام یعنی نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ فرائض کے بعد حلال مال
کمانا فرض ہے۔اور یہ صرف اُس شخص کے ذمہ فرض ہے جو اپنے اور اپنے اہل و
عیال کے ضروری خرچ کے لئے مال کا محتاج ہو۔ باقی وہ شخص جس کے پاس ضرورت کے
بقدر مال موجود ہو مثلاً وہ صاحب جائیداد ہے یاکسی اور طرح سے اُس کو مال
میسر ہے تو اُس کے ذمہ یہ فرض نہیں رہتا۔اِس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نے مال کو
ضرورتوں کے پورا کرنے کے لئے پیدا فرمایا ہے، تاکہ بندہ اپنی ضروری حاجتیں
پوری کرکے اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوجائے کیوں کہ رہنے سہنے، کھانے
پینے اور پہننے اوڑھنے کے بغیر صحیح طرح سے اﷲ تعالیٰ کی عبادت نہیں ہوسکتی۔
گویا اصل مقصود مال کمانا نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں
یک سوئی سے مشغول ہونا مطلوب ہے۔ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ انسانوں پر اپنا
احسان جتلاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’ہم نے دن کمائی کرنے کے لئے
بنایا‘‘(النبا:۱۱) دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’ہم نے زمین میں تم کو جگہ دی اور
اُس میں تمہارے لئے روزیاں مقرر کردین، تم بہت کم شکر کرتے ہو‘‘(الاعراف:۱۰)ایک
اور جگہ ارشاد ہے: ’’کتنے لوگ زمین میں اﷲ تعالیٰ کا فضل (رزق) ڈھونڈنے کے
لئے پھریں گے‘‘ (المزمل:۲۰)ایک جگہ ارشاد ہے: ’’زمین میں پھیل جاؤ اور اﷲ
تعالیٰ کا فضل تلاش کرو‘‘(الجمعہ:۱۰)
شریعتِ اسلام نے کسبِ حلال کو عبادات میں شمار فرمایا ہے اور اس کے بے شمار
فضائل بتلائے ہیں ۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حلال مال کا طلب کرنا ہر مسلمان
پر واجب ہے۔ (معجم الاوسط) حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حلال مال کا طلب کرنادوسرے
فرائض کی ادائیگی کے بعد فرض ہے۔ (حوالہ مذکورہ) حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ
عنہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ
جس آدمی نے بھی حلال مال کماکر خود اپنے کھانے اور پہننے میں خرچ کیا یا
اپنے علاوہ اﷲ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی دوسرے کو کھلایا یا پہنایا تو یہ
بھی اُس کے لئے صدقہ ہوگا۔(صحیح ابن حبان)حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اﷲ
عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ہاتھ
کی کمائی سے بہتر کھانا کسی نے نہیں کھایا۔ اور اﷲ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد
علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔(صحیح بخاری)
اِس کے بالمقابل حرام اور ناجائز طریقے سے مال کمانے کی بھی بے شمار وعیدیں
قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہیں۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ حرام چنانچہ حضرت
ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ بے شک اﷲ تعالیٰ پاک ہے، پاک ہی قبول کرتا ہے، اور بے شک اﷲ
تعالیٰ نے جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے کہ اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ
اور نیک عمل کرو! وہی حکم اُس نے پیغمبروں کے علاوہ اپنے مؤمن بندوں دیا ہے
کہ اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اُس میں سے پاکیزہ چیزیں
کھاؤ! اس کے بعد حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبے
سفر میں ہو، بال بکھرے ہوئے ہوں، بدن پر غبار لگا ہوا ہو، آسمان کی طرف
ہاتھ اُٹھا کر یارب یارب کہتا ہو، اُس کا کھانا حرام ہو، اُس کا پینا حرام
ہو، اُس کا پہننا حرام ہو، تو ان سب چیزوں کے باوجود اُس کی دعاء کیسے قبول
ہوسکتی ہے؟ (صحیح مسلم)
چنانچہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ کوفہ میں ’’مستجاب الدعاء‘‘ لوگوں کی ایک
جماعت تھی۔جب کوئی حاکم اُن پر مسلط ہوتا، اُس کے لئے بد دعاء کرتے، وہ
ہلاک ہوجاتا۔حجاج ظاہم کا جب وہاں تسلط ہوا تو اُس نے ایک دعوت کی، جس میں
ان حضرات کو خاص طور سے شریک کیا۔ اور جب کھانے سے فارغ ہوچکے تو اُس نے
کہا کہ میں ان لوگوں کی بد دعاء سے محفوظ ہوگیا کہ حرام کی روزی ان کے پیٹ
میں داخل ہوگئی۔(فضائل رمضان)
کسبِ حلال اور کسبِ حرام کے درمیان تیسرا ذریعہ کسبِ مشتبہ کا ہے۔ یعنی
ایسے طریقے سے مال کمانا کہ جس کے حلال اور حرام ہونے میں شک و شبہ ہوکہ
بعض اعتبار سے اُس کا حلال ہونا معلوم ہورہا ہو اور بعض اعتبار سے اُس کا
حرام ہونا معلوم ہورہا ہو۔ تو ایسے مال کا کمانا بھی حرام ہے۔چنانچہ حضرت
نعمان بن بشیر رضی اﷲ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان
شبہ کی چیزیں ہیں، جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔سو جو شخص شبہات سے بچا اُس
نے اپنے دین اور آبرو کو محفوظ کرلیا۔ اور جو شخص شبہات میں پڑگیاوہ حرام
میں پڑجائے گا۔(بخاری و مسلم)حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ
میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک بات یاد رکھی ہوئی ہے کہ جو چیز شک
میں ڈالے اُس کو چھوڑ دیا جائے اور اُس چیز کی طرف بڑھا جائے جو شک میں نہ
ڈالے۔اِس لئے کہ صحیح چیز میں اطمینان ہوتا ہے اور غلط چیز میں شک ہوتا ہے۔
(مشکوٰۃ شریف)
چنانچہ حافظ ابو قاسم طبرانی رحمہ اﷲ نے اپنی سند سے مشہور صحابی حضرت جریر
بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ کاایک واقعہ نقل کیا ہے کہ’’ ایک مرتبہ آپؓ نے اپنے
غلام کو ایک گھوڑا خرید لانے کا حکم دیا ، وہ تین سو درہم میں گھوڑا خرید
لایا اور گھوڑے کے مالک کو رقم دلوانے کے لئے ساتھ لے آیا ، آپؓ کو طے شدہ
دام بھی بتلائے گئے ، اور گھوڑا بھی پیش کردیا گیا ، آپؓ نے اندازہ لگایا
کہ گھوڑے کی قیمت تین سو درہم سے کہیں زیادہ ہے ، چنانچہ آپؓ نے گھوڑے کے
مالک سے فرمایاکہ : ’’آپ کا یہ گھوڑا تین سو درہم سے زائد قیمت کا ہے، کیا
آپ چار سو درہم میں فروخت کریں گے ؟ ۔‘‘ اس نے جواب دیا : ’’ جیسے آپ کی
مرضی ؟۔‘‘ پھر فرمایا : ’’ آپ کے گھوڑے کی قیمت چار سو درہم سے بھی زائد ہے
۔ کیا آپ پانچ سو درہم میں بیچیں گے ؟۔ ‘‘ اس نے کہا کہ : ’’میں راضی ہوں۔
‘‘ اسی طرح آپؓ گھوڑے کی قیمت میں سو سو درہم کی زیادتی کرتے چلے گئے ۔
بالآخر آٹھ سو درہم میں اس سے گھوڑا خرید لیا اور رقم مالک کے حوالے کردی
۔آپؓ سے سوال کیا گیا کہ : ’’ جب مالک تین سو درہم پر راضی تھا ، تو آپ نے
اسے آٹھ سو درہم دے کر اپنا نقصان کیوں مول لیا ؟ ۔‘‘ آپؓ نے فرمایا : ’’
گھوڑے کے مالک کو اس کی اصلی قیمت کا صحیح اندازہ نہیں تھا ، میں نے خیر
خواہی کرتے ہوئے اس کو پوری قیمت ادا کی ہے ، کیوں کہ میں نے نبی کریم صلی
اﷲ علیہ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ: ’’ ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی
والامعاملہ کیا کروں گا ۔ میں نے اپنے اس وعدے کا ایفاء کیا ہے۔ ‘‘
پس معلوم ہوا کہ مطلق مال کمانا فرض اور واجب عبادت نہیں، بلکہ حلال اور
جائز طریقے سے مال کمانا عبادت ہے۔حرام یا مشتبہ مال کمانا عبادت تو کجا
اُلٹا سخت گناہ اور اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کل لوگ مال
کمانے کی حرص میں اِس بات کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتے کہ حلال طریقے
سے کما رہے ہیں یا حرام طریقے سے۔بلکہ آج کل تو لوگ جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی
اوردو نمبری کے ذریعہ مال کمانے کو کمالِ ہنر سمجھتے ہیں اور اسے اپنی
ہوشیاری و چالاکی خیال کرتے ہیں، حالاں کہ حقیقت میں یہ دوسروں کے ساتھ
نہیں بلکہ اپنے ساتھ ہی دھوکہ فریب ہے اور ’’نیکی برباد گناہ لازم‘‘ کا
مصداق ہے۔
|