18فروری2007 کودہلی سے لاہور آنے والی سمجھوتہ ایکسپریس
پر دہلی سے نکل کر پانی پت کے قریب شدت پسند ہندوءں نے بموں سے حملہ کیا جس
کے نتیجے میں 68افراد ہلاک ہوئے جن میں 42پاکستانی شہداء شامل تھے۔حملے کا
ماسٹر مائنڈ سنیل جُوشی کو اور آٹھ دوسرے افراد کو حملے کا ذمہ دار قرار
دیا گیا۔سقہ بھارتی دہشت گرد اور شدت پسند اسیم آنند نے اعترافِ جُرم کیا
اور مانا کہ اُس نے مندروں پر حملوں کا بدلہ لینے کے لیے یہ حملہ کیا ۔اسیم
آنند کا یہ پہلا جُرم نہ تھا بلکہ اس سے پہلے حیدر آباد کی مکی مسجد پر بم
حملوں میں اور مالیگاوءں میں ہونے والے دھماکوں میں بھی یہی شخص ملوث
تھا۔وہ بھارت کا واحد دہشت گرد نہیں اُس کے مدد گار بہت ہیں لیکن اس شخص نے
ان تمام دہشت گردیوں کا اعتراف کیا لیکن حیرت ہے کہ بھارت کی عدالت نے اُسے
بَری کر دیایعنی ایک جمہوری ملک میں یہ جمہوریت بھی موجود ہے کہ اُس کے شدت
پسند جو چاہے کریں۔اُس کے ساتھ اُس کے دیگر تین ساتھی شدت پسندوں کو بھی
بَری کر کے رہا کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ اپنے جرائم کا اقرار کرنے کے بعد
اسیم آنند ملزم نہیں رہا جُرم کا اقرار تو ظاہر ہے کہ جُرم کا ثبوت ہے
لہٰذا یہ لوگ ملزم نہیں مجرم تھے لیکن ہوا یہ کہ بھارت کی عدالت نے اِن
تمام مجرموں کو بَری کر دیا حالانکہ ان لوگوں کو خود انڈین تفتیشی ایجنسی
نے اس جُرم کا مُجرم نامزد کیا اور اس نے 30 دسمبر2010 کو یہ دعویٰ کیا کہ
اُس کے پاس اسیم آنند کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ وہ سمجھوتہ ٹرین
حملے کا ماسٹر مائنڈ ہے ایجنسی نے یہ بھی بتا یا کہ اس نے اپنے دوست سندیپ
دنگا سے مدد لی جو کہ ایک انجینئر ہے اور الیکٹریشن رام جی کا لسنگر نے بھی
اس کی مدد کی اور وہ دھماکہ خیز مواد تیار کرنے میں کامیاب ہوا جس کے ذریعے
سمجھوتہ ٹرین میں دھماکے کیے گئے۔ایجنسی نے یہ تمام شواہد عدالت میں پیش
کئے لیکن اس کے باوجود عدالت نے اسیم آننداور دیگر ملزمان شرما ،راجندر
چوہدری اور کمال چوہان سب کو رہا کر دیا اور کہا گیا کہ حکومتی ایجنسی اپنے
الزامات کو ثابت نہ کر سکی۔اس فیصلے پر پاکستان کی طرف سے سرکاری سطح پر
شدید احتجاج کیا گیا۔ ایک پاکستانی خاتون راحیلہ وکیل نے بھارتی وکیل کے
ذریعے بھارتی عدالت میں درخواست دائر کی کہ پاکستانی عینی شاہدین کو گواہی
کے لیے نہیں بلایاگیا جبکہ جن بھارتی گوہوں کو بلایاگیا انہیں کچھ معلوم
نہیں تھا لیکن عدالت نے اُس کی درخواست خارج کرتے ہوئے اپنا مَن چاہا فیصلہ
سنا دیا۔ایک اور پاکستانی متاثرہ شخص محمد علی نے کہا کہ اُس نے اس حادثے
میں اپنے پانچ بچے کھوئے اور وہ اُن دہ افراد کو بخوبی شناخت کر سکتا ہے جن
سے حادثے سے صرف دس منٹ پہلے جب پولیس نے ان کی منزل کا پوچھا تو انہوں نے
کہا کہ وہ احمد آباد جا رہے ہیں جس پر پولیس نے انہیں یہ کہہ کر اُتار دیا
کہ پھر وہ لاہور والی گاڑی پر کیا کر رہے ہیں لیکن بھارتی عدالت نے کبھی
اُسے بلانے کی زحمت نہیں کی اور یوں ایک بہت بڑا مقدمہ کا اصل گواہوں کے
بیانات کے بغیر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی ایک عدالت نے فیصلہ کر دیا
اور دوسرے ملک کے 42 شہریوں کے قاتلوں کو بَری کر دیا گیا کیونکہ وہ اُس کے
اپنے شہری تھے اگرچہ وہ ثابت شدہ دہشت گرد ہیں اور اس واقعے سے پہلے بھی
کئی وارداتوں کا اعترافِ جُرم کر چکے ہیں لیکن وہی بھارت جو پاکستان کو
دہشت گرد ثابت کرنے کی شش کرتا ہے اپنے دہشت گردوں کو ہیرو سمجھتا ہے بلکہ
ایک کو تو وزاعظم کی کرسی پر بیٹھا دیا گیا ہے۔ وہ پاکستانی شہریوں کو
عالمی دہشت گرد قرار دینے کے لیے اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کرتا ہے
لیکن اپنے دہشت گردوں کوخود سزادینے کا اختیار ہونے کے باوجود بَری کر
دیتاہے یہ دراصل بھارت کا وہ اصل چہرہ ہے جو وہ دنیا سے چھپانے کے لیے
پاکستان پر الزام تراشی کرتا ہے جبکہ خودداس کے حاضر سروس فوجی افسران تک
ایسی کاروائیاں کرتے ہیں جن میں کلبھوشن کو پاکستان میں پکڑا جاتا ہے اور
کرنل سری کانت پروہت کو مالیگاؤں کیس میں خود بھارت میں پکڑا جاتا ہے کشمیر
میں اُس کی فوج کھلم کھلا دہشت گردی کر رہی ہے لیکن اس کے ردعمل کے طور پر
ہونے والے واقعات کو وہ پاکستان سے منسلک کر دیتاہے اور جنگ کے لیے سرحدوں
پر آجاتا ہے۔ جہاز اُس کے پاکستانی سرحد پار کرتے ہیںیہ اور بات ہیں کہ مار
گرائے جاتے ہیں اور پاکستان اُس کے گرفتار شدہ پائلٹ کو رہا بھی کر دیتا ہے
اور عین انہی دنوں میں بھارت ایک ذہنی معذور پاکستانی قیدی کی لاش واپس
کرتا ہے جسے ہندو قیدیوں نے اپنی شدت پسند فطرت کے تحت پتھر مار کر ہلاک
کیا تھا۔یہ تو پاکستان کے بارے میں اُس کے اقدامات ہیں جبکہ دوسری طرف وہ
اپنے مسلمان شہریوں کو شدت پسندوں کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتا اور نہ
اُن کے مذہبی حقوق ان کو دے سکتا ہے۔ مالیگاوٗں میں گائے مر جائے چاہے طبعی
موت مری ہو تو اس کے بدلے مسلمان انسانوں کو قتل کر دیا جاتا ہے لیکن پھر
بھی وہ خود کو دہشت گرد نہیں سمجھتا ۔ گجرات میں ایک ہی دن میں دو ڈھائی
ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ خود کو دہشت گرد
قرار نہیں دیتا۔بھارت کا یہ اصل چہرہ اب دنیا کے سامنے آجانا چاہیے کہ اس
کی حکومتیں باقاعدہ طور پرخود دہشت گردی میں ملوث ہوتی ہیں اور اگر کچھ
واقعات میں ایسا نہ بھی ہو تو دہشت گردوں کو مکمل تحفظ دے دیتی ہے اور ایسا
کرنے میں اُس کی فوج اور اُس کی عدالتیں مکمل طور پر اس کا ساتھ دیتی ہیں
لیکن سمجھوتہ ایکسپریس میں جس طرح زندہ انسانوں کو جلایا گیااس پر دنیا کو
بھی ضرور نوٹس لینا چاہیے اور بھارت سے ضرور پوچھا جا ئے کہ اگر یہ چار
اشخاص مُجرم نہیں تھے تو گیارہ سال میں بھارت مُجرم پکڑ کیوں نہیں سکا۔
|