’’سیرت رسولِ عربیﷺ،‘‘سیرت کی ایک شاہکار کتاب۔اسکے
ہاتھوں میں تھی سچ میں اس کتاب کے مطالعے نے اسکی زندگی بدل دی تھی ان دنوں
وہ اِسی کتاب کہ مطالعے میں مشغول تھی۔ وہ سیرت کی اس شاہکار تخلیق کے
مطالعے میں مکمل طور پر محو ہوچکی تھی رات کہ نصف پہر اسے ایک دم خیال آیا
کہ عشاء کی نماز تو اسنے پڑھی ہی نہیں فوراًاٹھی اور وضو خانے کی جانب بڑھی
کہ نماز تو میرے نبیﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے نہ؟وضو کرکے اب وہ جائے نماز
پر تھی ابھی وہ آخری رکعت مکمل کیے سجدے میں خدا کے حضور اپنے والدین کی
صحت و تندرستی کی دعا ہی مانگ رہی تھی کہ ابا حضور کی لرزتی ہوئی آواز اسکی
سماعتوں سے ٹکرائی جائے نماز سمیٹ کر بابا کی جانب دوڑی ،بھائی دیکھیں بابا
کو کیا ہوا۔بابا کی حالت غیر ہوتی جارہی تھی کچھ ہی لمحوں میں ایمبولینس
میں بابا جان کو ہسپتال پہنچایا گیا انہیں دل کا دورہ پڑا تھا جو انکے لئے
جان لیوا ثابت ہوا لیکن اسے کیا خبر تھی کہ وہ تو گھر میں دعاؤں میں مشغول
اپنے بابا کی واپسی کی منتظر تھی اسے یقین تھا کہ اﷲ اسکی دعا کبھی رد نہ
کرے گا اسکے بابا سہی سلامت گھر واپس لوٹیں گے ابھی وہ دعاوئں میں ہی مشغول
تھی کے بابا کو گھر لایا گیا لیکن اس بار وہ اپنے پیروں پر نہیں بلکہ انکا
مردہ جسم اسٹریچر پر موجود تھا۔ گھر میں تو جیسے کہرام مچ گیا تھا چیخ و
پکار کی آوازیں اسکی سماعتوں سے ٹکراتی رہیں اسکی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے۔
وہ یتیم ہوچکی تھی۔ اسکا باپ مرچکا تھا۔ اسی لمحے جب وہ اپنا ضبط کھونے لگی
تو سیرت کی کتاب کہ چند جملے اسکی سماعتوں میں گونجنے لگے اسے نبی مکرمﷺ کا
وہ دور یاد آنے لگا جب میرے نبی ﷺچھ برس کے تھے اور ان کی والدہ محترمہ اﷲ
کو پیاری ہوگیں باپ کی قربت سے تو محروم تھے ہی کہ ماں بھی جدا ہوگیں ماں
کی وفات کہ بعد دادا نے پرورش کا بیڑا اٹھایا لیکن ٹھیک دو سال بعد جب آپﷺ
آٹھ برس کے ہوئے تو شفیق دادا کی محبت سے بھی محروم ہوگئے دادا کی وفات کہ
بعد آپکے غمگسار چچا ابو طالب نے پرورش کا بیڑا اٹھایا پچیس برس کے ہوئے تو
ایک بیوہ طاہرہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے نکاح فرمایا جنہوں نے
بہترین شریک حیات بن کر آخری دم تک آپﷺ کا ساتھ نبھایا مگر افسوس یہ دو
عظیم ہستیاں بھی دس نبوی کو یکے بعد دیگرے آپ سے جدا ہوگئیں لیکن آپﷺ نے
صبر فرمایا
امتحان یہیں پر ختم نہیں ہوتا ایک باپ کے لئے اسکی اولاد سے بڑھ کر بھی
بھلا کوئی محبوب ہوا ہے؟ لیکن آپ ﷺنے تو ان محبوب ہستیوں کو بھی خود سے جدا
ہوتے دیکھا لیکن صبر کیا ۔
آپ ﷺکی زندگی میں ہی آپﷺ کی تین جوان صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے اﷲ کو پیاری
ہوگیئں جن میں حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا(2 ہجری )حضرت زینب رضی اﷲ عنھا (8
ہجری) اور حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنھا (9ہجری) تھیں آپ سے جدا ہوئیں لیکن آپﷺ
نے صبر کیا امتحان ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کہ یکے بعد دیگرے آپکے تمام
صاحبزارے بھی آپﷺ کی زندگی میں ہی آپﷺ سے رخصت ہوگئے لیکن کمال اس صبر کے
پیکر پر خدا کے حضور گلا تک نہ کیا صبر کی انتہا تو دیکھیے کہ اپنے لختِ
جگر کی وفات پر جب آپﷺ بے حد آبدیدہ تھے اسوقت بھی یہی کلمات زباں پر جاری
رہے آنکھ آنسوں بہاتی ہے اور دل غمگین ہے لیکن ہم زبان سے وہی کہیں گے جس
پر ہمارا رب راضی ہو ۔وہ باپ کی وفات پر شدید رنجیدہ تھی انکی یاد اسے کسی
لمحے سکون نہ دیتی۔ لیکن جونہی وہ سیرت کی کتب کے صفحات کھولتی اسے اپنی
تکالیف ہیچ محسوس ہونے لگتیں ،اور اﷲ کہ راہ میں جتنی تکالیف اﷲ کے نبیﷺ نے
اٹھائیں اور جتنا اﷲ کی راہ میں انہیں ستایا گیا کسی کو نہ ستایا گیاوہ ان
جملوں کو پڑھتی تو اپنے تمام غم بھول جاتی اسے گویا صبر آجاتا تھا سیرتِ
نبویﷺ درس ہی صبر واستقامت کا ہے اس کتاب نے اسکی زندگی یکسر بدل دی تھی وہ
جب غمزدہ ہوتی سیرت کی اسی کتاب کا سہارا لیتی وہ درس نظامی کی طالبہ تھی
دین کی خدمت اسکا دینی فریضہ تھا وہ کیونکر اس سے غفلت برتتی؟چنانچہ ایک
بار پھر جامعہ کی لڑکیوں کو اسلام کا درس دیتے ہوئے انہیں پردہ کرنے کی
تلقین کرنے لگی مقصد اصلاح ہی تو تھی ،لیکن لڑکیوں کی ایک مخصوص تعداد اسکی
باتوں کو قہقہو ں میں اڑادیا کرتی تم لوگ خود کو اسلام کا ٹھیکیدار سمجھتے
ہو کیا؟ دین کی چند کتابیں کیا پڑھ لیں آگئیں درس دینے۔یہ وہ طنزیہ فقرے
تھے جو اسکے حوصلوں کو پست کرنے لگے وہ آنکھوں سے بہتے آنسوں پوچھنے ہی لگی
کہ یکدم اسے طائف کا وہ سفر یاد آگیا جب اﷲ کہ رسولﷺ اﷲ کی راہ میں ستائے
گئے تھے شریر بچوں کو آپکے پیچھے لگایا گیا جو آپﷺ پر پتھر برساتے یہاں تک
کہ آپﷺ کہ نعلین مبارک خون سے تر ہوگئیں لیکن درس حق کو نہ روکا کیا میرے
نبیﷺ سے بڑھ کر بھی کوئی اﷲ کی راہ میں ستایا گیا ہے؟
آج جامعہ میں ایک پر رونق تقریب منعقد ہوئی جہاں مختلف طلبہ و طالبات کو
اپنے فن کہ اظہار کا موقع دیا گیا وہ بھی منتظر تھی اپنے فن کوآزمانے کے
لئے۔ اس تقریب میں لڑکیاں خوب زرق وبرق لباس میں ملبوس بال کھولے نام نہاد
آزادی کا مکمل نقشہ پیش کررہی تھیں ان تمام کہ درمیان وہ سب سے الگ سیاہ
بُرقعے میں ملبوس نقاب پوش لڑکی جونہی اسٹیج پر پہنچی حال میں چند مخصوص
لڑکے اور لڑکیوں کی جانب سے چند مضحکہ خیز جملے اسکی سماعتوں سے ٹکرائے
آگئی محترمہ اصلاحِ اسلام کا درس دینے اسنے ان تمام باتوں کو نظرانداز کیا
ایک لمحے گہری سانس لی اور پھر اپنی تقریر کا آغاز کیا اسکے دھیمے اور
شائستہ لہجے میں پڑھے جانے والے اس شعر نے محفل میں خاموشی طاری کردی
دستگیری میری تنہائی کی تونے کی ہے
میں تو مرجاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا ﷺ
اسنے شعر مکمل ہی کیا تھا کہ حال مں سناٹا چھا گیا خوبصورت شعر کہ کلمات نے
سب کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا اور پھر اس شعر کی نسبت بھی تو کس عظیم
ہستی سے جڑی تھی؟اسکی تقریر مکمل ہوئی تو پورا حال تالیوں سے گونج اٹھا
اسکے ناقدین کی زبانیں اب خاموش ہوچکی تھیں لیکن سیرت کا درس ابھی باقی تھا۔
وہ گھر لوٹی کاموں سے فراغت کے بعد ایک بار پھر سیرت کہ مطالعے میں مشغول
ہوگئی یہ سیرت کی کتاب تو گویا اسکا حوصلہ تھی وہ جب گرنے لگتی وہ ہی تو
تھے جو اسے تھام لیتے وہ نبی مکرم و محتشم ﷺجسکے در سے کوئی سائل خالی ہاتھ
نہ لوٹا۔وہ نبی مکرم ومحتشمﷺ جو غریبوں کے والی بے سہاروں کا سہارا تھے یہ
کیسے ممکن ہے کے ایک امتی فریاد کرے اور وہ اسکی امداد نہ فرمائیں؟
آپ جانتے ہیں میرے نبیﷺ کا ایک نام خلیل بھی ہے جسکے معنی ہی معاون ہمدرد
اور دوست کہ ہیں تو اے ابن آدم جب بھی تم مشکل میں ہو میرے نبی ﷺ کہ اس اسم
مبارک کا ورد کرلیا کرو بھلا اﷲ اور اسکے حبیب ﷺ سے بڑھ کر بھی کوئی معاون
و مددگار ہوسکتا ہے؟ یہی تووہ بزرگ و برتر ہستی ہیں جنہوں نے حق و صبر کے
چراغ سے کفر و جبر کی ظلمتوں کو دورکیا ۔ بھلا وہ غفلت میں ڈوبے میرے اس دل
کی وحشتوں کو کیونکر دور نہ کرتے؟
|