ثقافتی تہوار کھیل اور میلے صحت مند سماج کیلئے ضروری ہیں

کبھی ہم نے سوچا ہے کہ قومیں اولمپک ثقافتی تہواروں ،میلوں اور ورلڈ کپ کروانے کیلئے اتنی رقوم کیوں خرچ کرتی ہیں آخر ان کے انعقاد کی کیا ضرورت ہے کیا یہ فضول خرچی نہیں ہے ہم ٹیلی ویژن سکرینوں پر ہونے والے دنیا کے کھیلوں کے میچوں کو براہ راست دیکھتے ہیں جہاں پر اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں ، لوگ دیوانہ وار کھلاڑیوں کو داد دے رہے ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ثقافتی سر گرمیاں میلے ٹھیلے اور کھیل زوال پذیر ہیں کرکٹ ہم سے روٹھ چکی ہے ثقافتی تہواروں میلے ٹھیلوں اور چار دیواری کے اندر منعقد ہونے والی سر گرمیوں کو بھی قدامت اور انتہا پسند مکتبہ فکر کی طرف سے دہشت گردی کی دھمکیوں کا سامنا ہے جنہوں نے مجموعی طور پر خوف اور سرا سمیگی کی فضاء قائم کر رکھی ہے کھیلوں کے میدان تقریبا ویران ہو چکے ہیں جس کی وجہ لوگوں کا صرف ٹیلی ویژن پروگراموں اور انٹر نیٹ پر مصروف ہو جانا بھی ہو سکتا ہے ،اس خوف و ہراس کی فضا میں پی ایس ایل کا فائنل میچ کروانا خاصا جرات کا کام تھا اس کے لئے ہمیں سیکیورٹی کی خاطر خواہ اخراجات اور انتظامات کرنے پڑے ہیں جو کہ بلا تبصرہ ہیں جہاں تک خرچ کا تعلق ہے اس کے ان تہواروں اور میلوں کے انعقاد کیلئے اہمیت ثانوی ہوتی ہے جب بھی کسی شہر میں میلہ ہوتا ہے علاقے کے ارد گر د بلکہ دور دراز سے لوگ اس میں شرکت کیلئے آتے ہیں لاہور میں ماضی قریب میں بسنت کا تہوار ہوتا تھاجس میں پورے شہر کی چھتوں سے بو کاٹا کے نعرے بلند ہوتے تھے ڈھول بجائے اور گانے گائے جاتے تھے لوگ بسنتی رنگ کے لباس پہنتے تھے اس تہوار کو دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے لوگ آتے تھے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں دعوتیں ہوتی تھیں ہوٹلوں میں کرائے کے کمرے کم پڑ جاتے تھے پتنگ بازی سے ایک انڈسٹری قائم تھی لوگ تحفے تحائف خریدتے جس سے کاروباری اور تجارتی لین دین میں اضافہ ہوتا تھا یہی صورتحال لاہور میں منعقد ہونے والے داتا گنج بخش کے عرس اور چراغاں کے میلے کی تھی یہاں پر عارضی بازار قائم ہو جاتے تھے کہیں پر لوگ جلیبیاں ، اندرسے اور مٹھائیاں کھا رہے ہوتے تھے ، تفریح کیلئے سرکس ، تھیٹر ، میجک شو جھولے اور دیگر کھیل تماشے موجود ہوتے تھے کہیں پر قوالیاں ہوتیں کہیں پر لوک فنکار سڑکوں پر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہوتے تھے مگر کھلی جگہ کی قلت کی وجہ سے یہ سر گرمیاں سکڑ تی رہیں مگر اس پر زیادہ اثرات دہشت گردی کی وجہ سے مرتب ہوئے کیوں کہ کھلے عام ان ثقافتی سر گرمیوں کو جاری رکھنا ممکن نہیں رہا اور اب ان کو سخت حفاظتی انظامات کے تحت چار دیواری میں محدود کر دیا گیا ہے جس سے یقینا شمولیت کرنے والوں کی تعداد میں خوف کی وجہ سے کمی واقع ہوئی ہے گزشتہ سال داتا گنج بخش کے عرس کے موقع پر میں رش اور سخت سیکیورٹی انتظامات کی وجہ سے مزار پر حاضری نہ دے سکا یہی صورتحال دوسرے مقامات پر ہے یہاں پر زائرین کو طویل قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے حالانکہ ان ثقافتی تہواروں اور میلوں کی وجہ سے مقامی معیشت میں اچھا خاصہ کاروبار ہوتا ہے جس سے امیر طبقات کی رقم غریبوں کی جیب میں منتقل ہو جاتی ہے ، بسنت کے تہوار کو پرویز مشرف کے عہد میں سرکاری سر پرستی حاصل ہوئی تو کار پوریٹ سیکٹر کی توجہ حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی جس نے اشتہاری مہم کے ذریعے اپنی مصنوعات کی سیل میں اضافہ کیلئے حاصی گنجائش پیدا کر لی جس سے لاہور میں سیاحت کے شعبے میں حاصی رقم آنے لگی اگر آپ عالمی سطح پر ہونے والی سر گرمیوں کو دیکھیں جس کو دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے لاکھوں لوگ کھچے چلے آتے ہیں کہیں پر ثقافتی فیسٹیول منعقد ہو رہے ہیں ثقافتی میلے اور تہوار منائے جا رہے ہیں اکیڈمی ایوارڈ کی تقریب منعقد ہو رہی ہے ہندوستان تو ویسے ہی میلوں اور مذہبی تہواروں کی سر زمین ہیں وہاں پر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے آزادی کے ساتھ مذہبی موسمی اور ثقافتی تہوار مناتے ہیں جن کی پروجیکشن الیکٹرونک میڈیا بھرپور طور پر کرتا ہے جبکہ ایسا کرنا ہمارے ملک میں اب بعض حوالوں سے ممنوع اور خلاف مذہب قرار دیا جاتا ہے غیر مسلموں کی تقریبات میں ہمارے سیاسی اور حکومتی قائدین محض اپنی ترقی پسندانہ سوچ کو عالمی میڈیا کو دیکھانے کیلئے علامتی طور پر شرکت کرتے ہیں کچھ عرصہ قبل بعض اضلاع میں حکومتی سطح پر سالانہ میلہ مویشیاں اور جشن بہاراں منعقد کیے جاتے تھے جس میں نیزہ بازی ، گھوڑا دوڑ ، کبڈی اور والی بال کے میچ، موسیقی کے پروگرام اور مشاعرہ منعقد ہوتے تھے مقامی صنعتوں اور اداروں کی طر ف سے اسٹال لگائے جاتے تھے جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے تھے اس سے حکومت اور عوام کے دوران ہم آہنگی اور رفاقت کا احساس ہوتا تھا یہ معاشرے کے مختلف طبقات کو جوڑنے کا عمل تھا جو کہ ترقی اور خوشحالی کیلئے اہم ہوتا ہے اس کا سب سے اہم پہلو معاشی نہیں بلکہ معاشرتی ہوتی ہے جو کہ شہروں میں ایک کمیونٹی ہونے کا احساس اجاگر کرتا ہے بسنت لاہور کی شناخت ہے میلے ٹھیلے ہماری ثقافتی صوفیانہ روایات کا حصہ ہیں لوک گیت ، دھمال بھنگڑے اور ناچ ہماری ثقافت کی اصل رو ح ہے لاہور کی نقل میں اب امرتسر اور بھارت کے دوسرے شہروں میں بھی بسنت منائی جاتی ہے وہ تو برا ہوا دھاتی تار کے استعمال کا اور کچھ دینی حلقوں کی مخالفت کا جس کے باعث بسنت پابندی سے دو چار ہو گئی پاکستان میں کرکٹ مقبول ترین کھیل ہے مگر سری لنکن ٹیم پر حملہ کے بعد عالمی سطح کی کوئی ٹیم دہشت گردی کے خوف سے پاکستان نہیں آتی ہے اب ان میچوں کا اہتمام بیرون ممالک کیا جاتا ہے اگر ان کا انعقاد پاکستان میں ممکن ہو جائے تو اس سے مقامی انڈسٹری کی مصنوعات کی کھپت اور کاروباری سر گرمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے ،کرکٹ میچوں کے مقابلوں میں پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند ہوتے تھے قومی یکجہتی کا تصور مزید اجاگر ہوتا تھا اور ہم نے بد قسمتی سے کھیلوں کو بھی مذہب کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے ہم بطور قوم ایک دن چاند دیکھنے پر متفق نہیں ہیں اس وقت پاکستان شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے دہشت گردوں کا مقصد مورال کو تباہ کرنا ہے تا کہ قوم کو شکست و ریخ اور مایوسی سے دو چار کر دیا جائے مگر لاہور میں پی ایس ایل کا فائنل کروانے سے دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوئے ہیں حکومت کا اس میچ کو کروانے کا دلیرانہ فیصلہ تھا جو کہ قابل تعریف ہے امید ہے قومی یکجہتی اور حکومتی اداروں کے اقدامات سے دہشت گردی کی فضا جلد جھٹ جائے گی اور لوگ آزادانہ طور پر ثقافتی سماجی تہواروں ،میلے ٹھیلوں اور میچوں میں بلا خطر و خوف شرکت کر سکیں گے جس سے پاکستان میں سیاحت کے شعبے کو فائدہ ہوگا اور پاکستان کا سافٹ امیج ابھرے گا۔پاکستان میں پی ایس ایل کے چار سال سے تسلسل کے ساتھ انعقاد سے کھیلوں کیلئے دروازہ کھلا ہے ان میں غیر ملکی کھلاڑیوں کی شرکت خاصی حوصلہ افزا ء ہے ۔آئندہ سال حکومت کا تمام میچ پاکستان میں منعقد کرنے کا اعلان خاصہ تسلی بخش اقدام ہے۔

Iftikhar Bhutta
About the Author: Iftikhar Bhutta Read More Articles by Iftikhar Bhutta: 7 Articles with 7095 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.