افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ووٹ امانت ہے اور اس کا صحیح استعمال اسلامی فریضہ ہے۔ہمارے ملک ہندوستان
میں حالات دن بدن بدتر ہوتے جارہے ہیں۔انتخابات میں ووٹ استعمال کرتے وقت
اس کو خالص دنیاوی معاملہ سمجھا جاتا ہے،حالانکہ ووٹ امانت ہے اور اس کا
صحیح استعمال دینی فریضہ ہے۔اﷲ رب العزت کا حکم ہے کہ امانتیں ان کے
مستحقین کو پہنچایا کرو(اسی طرح ووٹ بھی ایک شہادت اور امانت ہے)جس کے ہاتھ
میں کوئی امانت ہے،اس پر لازم ہے کہ یہ امانت اس کے اہل و مستحق کو
پہنچادے۔اگر اہلِ وطن اس دینی امانت اور اسلامی فریضہ کی ادائیگی میں ہمیشہ
کی طرح سُستی اور کاہلی برتیں گے تو نہ ملک کا کوئی طبقہ محفوظ رہے گا اور
نہ ہی کوئی مقام۔الیکشن کمیشن سے زیادہ ذمہ داری عوام ووٹروں کی ہے کہ وہ
ووٹ کو امانت اور اسلامی ذمہ داری کے طور پر استعمال کریں۔ووٹ استعمال کرنے
کا مقصد ایسے باکردار لوگوں کو منتخب کرنا ہوتا ہے جو ملک کی بقاء اور
استحکام کا درد رکھنے والے ہوں اور نفاذِ شریعت ان کی اولین ترجیح ہو،نہ کہ
ایسے آدمی کو منتخب کریں کہ جن کا نظریہ اور مشن صرف اور صرف اپنی تجوریا ں
بھرنا ہو۔انتخابات کا مرحلہ پوری قوم کے لئے ایک آزمائش ہے۔ووٹ شرعی اعتبار
سے اہم فریضہ ہے۔ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے۔پہلی شہادت،دوسری سفارش اور
تیسری وکالت۔ان تینوں حیثیتوں کو سامنے رکھ کرعوام امیدوار کے بارے میں جس
حد تک تحقیق کرسکتے ہیں کرکے امانت دار،باصلاحیت اور محب وطن امیدوار کو
ووٹ دیں اور اپنے ووٹ کا حق ضرور استعمال کریں۔جس طرح سچی شہادت کو چھپانا
ازروئے قرآن حرام ہے،اسی طرح بددیانت اور نااہل امیدوار کوووٹ دینا جھوٹی
شہادت،بری سفارش اورناجائز وکالت بھی بدترین گناہ اور جرم ہے۔مولانا
ابوالکلام آزادؒ نے کہا تھا کہ دیندار شخص کے لئے ووٹ مانگنا ’’امر
بالمعروف‘‘ اور فاسق امیدوار کو ووٹ دینے سے منع کرنا ’’نھی عن المنکر‘‘
ہے۔(اسلام اور سیاست:ص88)
تم ایسے رہبر کوووٹ دینا
وطن کو جوماہتاب کردے
اُداس چہرے گلاب کردے
جو ظلمتوں کا نظام بدلے
جو روشنی بے حساب کردے
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا۔
|