تحریر:ام محمد عبداﷲ۔ جہانگیرہ
سلمان کے اسکول میں تقریب شہدا کی یاد میں منعقد کی جارہی تھی۔ حاضرین میں
موجود احمد صاحب بچوں کی تقاریر دلچسپی سے سنتے سلمان کی باری کے منتظر تھے۔
’’جناب والا! یہ آج کی بات نہیں یہ گزرے ہوئے کل کی بات بھی نہیں۔ یہ سال
دو سال کی تاریخ نہیں۔ یہ سلسلہ تو صدیوں پر محیط ہے۔ ایک جانب سے اﷲ اکبر
کی صدا بلند ہوتی ہے تو دوسری جانب لات و منات کی بزرگی کی قسمیں کھائی
جاتی ہیں۔ مجاہدوں کے ہاتھ کٹتے ہیں، بازو تن سے جدا ہوتے ہیں لیکن پرچم
اسلام سر بلند رہتا ہے۔ ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ پاکستان کا مطلب کیا
لا الہ الا اﷲ کی صدا بلند کرنے والوں کا لہو دھرتی کو سیراب کرتا ہے۔
قبرستانوں پر قبرستان آباد ہوتے ہیں مگر دنیائے عالم میں قلعہ اسلام
پاکستان کا وجود ابھرتا ہے۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے نے حاضرین میں جوش سا
بھر دیا تھا‘‘۔
کمپئر نے سلمان کا نام پکارا تو بے اختیار اس کی نگاہیں حاضرین میں موجود
اپنے بابا جانی پر جا ٹھہریں جن کی حوصلہ افزا مسکراہٹ اسے اعتماد بخشنے
لگی تھی۔ مائیک میں اس کی آواز گونجنے لگی۔ ’’یہ معرکہ حق و باطل نیا نہیں،
حق کی شان و جرات بھی ازلی ہے اور باطل کے گھٹیا اور اوچھے ہتھکنڈے بھی
گھسے پٹے۔ گزرے ہوئے کل میں فرعون قتل طفلاں کا ذمے دار تھا اور آج لب پہ
آتی ہے دعا بن کے تمنا کرنے والے معصوم ہاتھ اور اقرا بسم ربک الذی خلق کا
پیغام حفظ کرنے والے ا سکولوں اور مدرسوں کی چاردیواری میں بھی محفوظ نہیں۔
آج مساجد میں مسجود نمازی کے خون میں نہا رہی ہیں۔
لیکن باطل کے خداوں کے لیے اعلان کروا دیجیے۔ باطل پرستی کی ہر تاریخ نے
سرفروشان حق سے مات کھائی ہے۔ ہر فرعون کے لیے موسی علیہ السلام ہے۔ ہر
سومنات کے لیے محمود غزنوی ہے۔ہر دور کے ابوجہل کے لیے معوذ و معاذ (رضی اﷲ
عنھم) ہیں۔ دجال کے خاتمے کے لیے ظہور عیسی علیہ السلام بھی لازم ہے، حق ہے۔
جو شعلے آشیانہ حق کو جلانے کے لیے بھڑکیں گے انہیں ہم اپنے خون سے بجھائیں
گے۔ شہدائے پشاور کا لہو ارزاں نہیں تھا۔ قندوز کے حافظ یتیم نہیں ہیں۔
نیوزی لینڈ کے نمازی شہدا لاوارث نہیں ہیں۔ ہم میں سے ہر بچہ ان کا جانشین
ان کا وارث ہے‘‘۔
حاضرین کی آنکھیں نم اور دل سوگوار تھے۔ تقاریر کے اختتام پر ہال کی تمام
بتیاں گل کر کے شہدا کی یاد میں شمعیں روشن کر دی گئیں جھلملاتی روشنی نے
دلفریب منظر قائم کر دیا تھا۔ اشکبار آنکھیں اور سوگوار دل شہدا کی یاد ایک
منٹ تک کے لیے خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ احمد صاحب نے بے چینی سے پہلو
بدلا۔’’تقریب کے آخر میں موم بتیاں جلا کر شعوری یا غیر شعوری طور پر ہم نے
کیا عمل کیا ہے؟ احمد صاحب سکول پرنسپل سے مخاطب تھے۔ جبکہ دیگر اساتذہ بھی
وہاں موجود تھے۔ مسلمان شہدا کی روحوں کو اس رسم کے ذریعے ہم کیسے سکون
پہنچا رہے ہیں۔ ہم تو مسلمان ہیں اسلام ہمارا مذہب ہے ہمارے ہاں فوت شدگان
اور شہداء کے ایصال ثواب کے لیے طریقے طے شدہ ہیں۔ ہماری رہنمائی چودہ سو
سال پہلے نبی آخر الزماں محمد مصطفے صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کر گئے
ہیں۔دعائے مغفرت، صدقہ و خیرات، تلاوت قرآن، اﷲ تعالیٰ کے حضور حاضری، وعظ
و نصیحت کا اہتمام اور توبہ کی تلقین سے ہی شہدا کی روحوں کو سکون پہنچایا
جا سکتا ہے نہ کہ یہ موم بتیاں جلا کر‘‘۔
نوجوان تقریب انچارج سر ناصر کو اپنے پروگرام پر تنقید کی ایسی توقع نہیں
تھی۔ اس لیے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہنے لگے، ’’دیکھیے جناب ہر معاملے میں
جذباتی اور حساس رویہ رکھنا اور مذہبی تناظر میں جھگڑنامناسب نہیں۔ ساری
دنیا اپنے پیاروں کی یاد میں شمعیں روشن کرتی ہے۔ اگر شہدا کی یاد میں
شمعیں روشن کر لی جائیں تو کیا مضائقہ ہے؟‘‘
’’بیٹے بات صرف شمع روشن کرنے کی نہیں ہے۔ ہر رسم اور عمل کا اپنا ایک
نظریہ اور تاریخ ہے۔ اس لیے کسی بھی رسم کو اپنانے سے پہلے اس کا جائزہ
لینا بھی ضروری ہے۔ دْعا کے بارے میں ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ اس عمل کو
ہمارے دین میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ مرحومین اور شہداء کے لیے دعائے مغفرت
سنت سے ثابت ہے۔اس کا اجر و ثواب اور فضیلت بے پایاں ہے۔ مسلم شریف کی
روایت ہے۔ جبریل علیہ السلام نے آکر رسول اﷲ ﷺسے کہا:’’اﷲ آپ کو حکم دیتا
ہے کہ آپ اہل بقیع کے پاس جائیں اور اْن کے لیے استغفار اور بخشش کی دعا
کریں‘‘۔ پس یہی استغفار اور بخشش کی دعا ہمارے لیے کافی ہونی چاہیے۔‘‘
’’جہاں تک کسی بھی رسم میں بذریعہ موم بتی روشنی یا آگ کا استعمال ہے اس کی
بھی تاریخ بہت پْرانی ہے۔ قرونِ اول میں رسمی طور پر سب سے پہلے موم بتی کا
استعمال مسیح چرچ اور یہودیوں کی عبادت گاہوں میں کیا گیا۔ آگ کی پوچا تو
اب بھی کم سے کم دو مذاہب یعنی پارسیوں اور اہرمزد میں کی جاتی ہے۔ اس کے
علاوہ ہندوں میں بھی آگ کی پوجا کی جاتی ہے بلکہ دیوالی کے تہوار میں روشنی
کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ دئیے جلائے جاتے ہیں اور پوجا پاٹ کا اہتمام
ہوتا ہے۔ اسی دیوالی کے تہوار سے متاثر ہو کر ہم نے بھی شب برات کا محور و
مرکز دئیوں اور آتش بازی کو بنا لیا۔ جو دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے
فائدے کا نہیں نقصان کا سودا ہے۔مہندی کی فضول رسم اور اس رسم میں دئیوں
اور موم بتیوں کا استعمال بھی اسلامی تاریخ سے نہیں ہندو مت کی دیوالی سے
جڑا ہوا ہے‘‘۔احمد صاحب نے لمحہ بھر کو سکول اساتذہ پر نگاہ دوڑائی جن میں
کچھ کے چہروں پر ناگواری اور الجھن کے تاثرات ابھر رہے تھے۔ تاہم کچھ
دلچسبی سے احمد صاحب کا موقف جاننا چاہ رہے تھے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا،’’مذہبی رسومات میں روشنی کو مقدس
نشان کے طور پر یہودیوں کے ہاں بھی استعمال کیا جاتا ہے جہاں پر چھ موم
بتیوں کے ایک چراغ نما کینڈل سٹینڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یونانیوں اور
رومیوں کے ہاں بھی مقدم آگ یا مقدس چراغ کا استعمال کیا جاتا رہاہے۔ یہی
سلسلہ آج بھی ہمیں اولمپیک کھیلوں کے آغاز میں مشعل روشن کرنے کی صورت میں
نظر آتا ہے۔ انجیل ِمقدس کو پڑھتے وقت بھی موم بتیاں روشن رکھنا ایک مقدس
بات سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مسیحی جلوسوں میں راستوں میں بھی موم بتیاں
روشن کرنے کا رواج رہا ہے۔ گریٹ سنیچر (مقدس ہفتہ کے دن) کو بھی روشنی کے
لیے موم بتیاں جلانے کو ایک مذہبی رسم کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔ ایتھوپیا
کے آرتھوڈاکس چرچ میں بھی ٹمکات کے بیان کے موقع پر موم بتیاں یا آگ جلانے
کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ اسی طرح میت کے قریب مقدس موم بتی یا روشنی رکھ کر
دعائیہ کلمات ادا کرنے کی بھی رسم اب تک موجود ہے۔
علاوہ ازیں موم بتیوں کو روشن کرنے کی رسم ہندو ازم، بدھ ازم، سکھ ازم ،
یہودی ازم اور عیسائیت میں پائی جاتی ہے اور تو اور شیطان ازم میں بھی سب
سیاہ موم بتیاں اور ایک دھیمی روشنی والی سفید رنگ کی موم بتی جلا کر سحر
انگیز ماحول قائم کیا جاتا ہے۔ ویکا اور پیگن ازم میں موم بتی خدا اور دیوی
کی موجودگی کی نمائندگی کے لیے جلائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ موم بتی جادو
میں بھی استعمال کی جاتی ہے یہاں تک کہ سبز رنگ کی موبتی امریکی ڈالر یعنی
دولت کی خواہش کے طور پر اور سْرخ رنگ کی موم بتی رومانی خواہشات کے حصول
کے لیے جلائی جاتی ہیں۔ رقصِ شرقی میں میں بھی موم بتیاں ایک مفہوم کو طور
پر جلائی جاتی ہیں کہیں کہیں پر تو رقاص اپنے جسم پر بھی موم بتیاں لگا کر
روشن کرتے ہیں۔ موم بتی جلانے اور بجھانے کی رسم اب جنم دن کا بھی لازمی
عنصر ہے۔ ان تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دینِ
اسلام میں موم بتی جلانے یا بجھانے کا وہ مفہوم نہیں ہے جو مفہوم دوسرے
مذاہب میں رائج ہے۔
عدل کا تقاضا ہے کہ جب بھی ہم اپنی کسی رسم کو چھوڑیں یا کسی رسم کو تبدیل
کریں تو ہمارے پاس اس کے لیے کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے۔ کیونکہ نظریات
قوموں کی زندگیوں میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جو لوگ موم بتیاں جلانے
یا بجھانے کی رسوم ادا کرتے ہیں اْن کا ذکر تفصیل سے آپ کے گوش گزار کر دیا
ہے جس کو دیکھتے ہوئے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے کہ اْن کا یہ عمل معاشرتی
رسم سے پہلے مذہبی ہے‘‘، احمد صاحب نے تفصیلات سب کے سامنے رکھیں۔
’’موم بتیاں روشن کرنے کی رسم دْعائیہ رسم کے مقابلے میں کہیں سے بھی زیادہ
برتر نظر نہیں آ رہی۔ تو ہم خواہ مخواہ اپنی اچھی اقدار کو کیوں تبدیل
کریں۔ اپنا دعائے مغفرت جیسا عمل عظیم چھوڑ کر غیروں کی تقلید میں شمعیں
روشن کرنے لگیں۔ جس ایک منٹ میں ہم اپنے فوت شدگان کے لیے دعائے مغفرت کر
کے اﷲ رب العزت کی رحمت کے حقدار بن سکتے ہیں اس میں دم سادھے خاموشی کیوں
اختیار کریں؟ دکھ یہ ہے کہ آج سے پہلے قوم اپنے شہیدوں کو، بے گناہ مر جانے
والوں کو، یا پھر اپنی کسی محبوب شخصیت کی یاد منانے کے لیے اکٹھا ہوتی تو
اپنے پروردگار سے دست بددعا ہوا کرتی تھی کہ ہم میں سے ہر کسی کا یہ ایمان
تھا کہ مرحوم جس دنیا میں چلا گیا ہے وہاں اسے ہماری نعرہ بازی، جلسوں اور
پوسٹر بازی سے زیادہ ہماری دعاؤں کی ضرورت ہے۔ کوئی مظلوم کسی ظالم کے
ہاتھوں قتل ہوتا، کوئی وطن کی حفاظت میں جان دیتا، یا چوروں ڈاکوؤں سے لڑتا
زندگی کی بازی ہارتا، ہم ایسے شہیدوں کے لیے دعائیہ تقریبات منعقد کرتے کہ
ہمارا ایمان تھا کہ یہ لوگ تو اﷲ کے ہاں بخشے جا چکے ہیں لیکن ان کے لیے
دعائے مغفرت کرنے سے ہمارے اپنے گناہ کم ہوں گے اور ہماری بھی بخشش کا
سامان مہیا ہوگا۔
یہ وہ زادراہ تھی جو ہم اپنے پیاروں کو دیا کرتے تھے۔ کسی کی یاد میں قرآن
پڑھ کر اور کسی پر دعاؤں کے نذرانے نچھاور کر کے۔ کیا شمعیں جلانا یا گھڑی
بھر کی خاموشی اختیار کرنا دعائے مغفرت کا بدل ہو سکتا ہے؟ مانا کہ
جھلملاتی شمعیں ایک خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں لیکن شمعیں صرف اس لیے بھی
تو روشن نہیں کی جاتیں کہ ماحول دلکش نظر آنے لگتا ہے لیکن ان کو روشن کر
نے کا اپنا ایک پس منظر ہے۔ کل اگر ہمارے بچے صلیب کا لاکٹ صرف اس شوق میں
گلے میں لٹکانے کی کوشش کریں کہ یہ تو جمع کی طرح کا ہی ایک خوبصورت نشان
ہے تو کیا اس کی اجازت دے دینی چاہیے جبکہ یہ نشان ایک شرکیہ مذہبی اساس
رکھتا ہے‘‘، احمد صاحب نے اذہان کو جھنجھوڑنے کے لیے سوال کیا۔
’’یقینا نہیں‘‘، سر ناصر ایک لمحے کے بعد گویا ہوئے۔ ’’جناب میں اعتراف
کرتا ہوں کہ یہ سب میرے علم میں نہیں تھا اور میں آئندہ ایسے معاملات میں
محتاط رہوں گا‘‘، سر ناصر نے غلط بات پر اڑنے کے بجائے اپنی کم علمی کا
اعتراف کیا۔ پرنسپل صاحب جو خاموشی سے ساری باتیں سن رہے تھے گویا ہوئے
’’احمد صاحب! آپ کا بہت شکریہ آپ نے ایک حساس معاملے کی جانب ہماری توجہ
دلائی‘‘۔ میں سوچ رہا ہوں۔ ہم ترقی نہیں کر پا رہے اور اس کا قصور وار ہم
اپنے دین اوراپنے وطن کو سمجھنے لگتے ہیں۔ جبکہ قصور وار ہم خود اور ہمارے
رویے ہیں۔ ہم کسی بھی شعبے میں محنت و اخلاص کی اس ضروری مقدار کو نہیں
پہنچ رہے جو ترقی کے لیے ضروری ہے۔ موم بتیاں جلانا اگر صرف موم بتیاں
جلانا ہے تو بھی اس میں اسراف کی قباحت ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی بخوبی
اندازہ ہونا چاہیے کہ یہ دراصل ہے کیا اور اس انداز کو اپنانے کے پیچھے اصل
مقاصد کیا ہیں؟ جو لوگ اس طرز کو اپنا رہے ہیں اْن کا مقصد صرف کم علمی، تن
آسانی اور جدیدیت کا پہلو ہے یا وہ اپنے معاشرے کو کسی دوسرے راستے پر
ڈالنا چاہتے ہیں‘‘۔
’’جی بالکل‘‘، احمد صاحب پرنسپل صاحب کی تائید کرتے ہوئے کہنے لگے۔ ’’بہر
طور ان دونوں ہی وجوہات کے سامنے بند باندھنا ہو گا اور خالص اسلامی روایات
کو اپنا کر ہی ہم اپنے تشخص اور بقا کی جنگ لڑ سکتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ
ہے کہ یہود و ہنود ہم کہلوانا نہیں چاہتے لیکن مسلمان ہم بنتے بھی نہیں اور
ملاوٹ زدہ کوئی تیسری جنس نہ آسماں کے لیے ہے نہ زمیں کے لیے۔
|