کتاب کی تخلیق میں ناشر کی اہمیت

کسی کتاب کو وجود میں لانے کے لیے ناشر ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
اس کا کام تحریری مواد کو کتاب کی شکل دینا ہے گویا علم کو لباس سے آراستہ کرنا ہے۔ کسی کتاب کی مقبولیت کتاب کے مصنف اور عنوان کے ساتھ ساتھ ناشر کی مستند حیثیت کی مرہنون منت ہوتی ہے ۔
ناشر کی تعریف میں شخص، جماعت ،ادارہ ،کمپنی ،حکومتی شعبے شامل ہیں جو کتاب یا دیگر مطالعاتی مواد کو شائع کرنے اور قارئین یا عوام تک پہنچانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ناشربھی کتاب کی شناخت کا ایک اہم ذریعہ ہوتا ہے، و ہ مارکیٹ اور کتب خانوں تک کتاب کی رسائی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے ، کسی خاص موضوع پر خصوصی ناشر ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسے قرآن کریم کی طباعت کے لیے تاج کمپنی ،انگریزی کتب کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، اردو کتب کے لیے فیروز سنز ،مذہبی کتابوں کے لیے حافظ کمپنی، دارالاشاعت ،درسی کتابوں کے لیے صوبائی اور فیڈرل ٹیکسٹ بک بورڈ ،غضنفر اکیڈمی،غیر ملکی کتابوں کے لیے نیشنل بک فاؤنڈیشن ، قانون کی کتابوں کے لیے لاء بک ہاؤس، تھامسن، طب میں ہمدردیونیورسٹی فاؤنڈیشن ،ہومیو کتاب گھریا سنڈرس وغیرہ۔
ناشرین عموماً درج ذیل کام سرانجام دیتے ہیں۔
۱۔ مواد کے ’’ذرائع ‘‘ تلاش کرنا، اس کے لیے کبھی کبھی ادارتی عملے اور دیگر ایجنٹوں کی
خدمات بھی حاصل کرتے ہیں۔
۲۔ کتاب کی طباعت و اشاعت کے لیے ضروری سرمایہ خرچ کرنا اور پیداوار کرنا ۔
۳۔ مواد کو شائع ہونے کے قابل بنانا ،تحریری مواد میں موجودخیالات ،نظریات کی ذمہ داری لینا
۴۔ مصنف سے ضروری مشاورت اور امداد کے علاوہ گہرا قریبی تعلق قائم کرنے کی کوشش کرنا ۔
۵۔ رائلٹی اور دیگر قانونی دستاویز ات تیار کروانا جن کا تعلق کتب کی اشاعت کے سلسلے میں
مصنف ،پرنٹر، ایڈورٹائنزنگ کمپنی وغیرہ سے ہو ۔
۶۔ کتاب کی تیاری کے تمام جزویات، عنوانی صفحہ ، کاغذ ،جلد بندی ،کتابت ،رنگ ،جسامت،
قیمت اور دیگر طباعت کے مراحل کی نگرانی کرنا ۔
۷۔ کاروباری گاہکوں تک مطلوبہ کتب کی تقسیم کرنا اور ترسیل کرنا ۔
۸۔ حقوق اشاعت حاصل کرنے کے لیے ضروری قانونی امور انجام دینا
۹۔ انٹرنیشنل اسٹینڈر بک نمبر حاصل کرنا ۔
بقول ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری ’’لائبریرین ، بک سیلرز اور پبلشرز ایک کتاب برادری کا حصہ ہیں ۔‘‘
عموماً اشاعت اور طباعت کے کام کو ایک ہی سمجھا جاتا ہے مگر یہ اپنی نوعیت اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے دو مختلف کام انجام دیتے ہیں۔
ایک طابع جو کتاب چھاپنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اس میں کمپوزنگ اور جلد بندی شامل ہوتی ہے جبکہ ناشر یا طابع کتاب کے مندرجات اس کی مارکیٹنگ ،کاپی رائٹ ،مصنف کی رائلٹی وغیرہ سے متعلق امور کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔
کتاب کی جسامت ،حجم، کتاب کے نسخوں کی تعداد، کاغذ کا معیار ، چھپائی کا ذمہ ، معیار اور معاوضہ وغیرہ ناشر او ر طابع کے درمیان طے ہوتے ہیں ۔ناشر کاکام تحریری مواد کو طباعت کی شکل میں لانا ہوتا ہے جو ایک وسیع کام ہے ۔
کتابیں پہلے ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں اور ان کی نقلیں بھی کی جاتی تھیں ،کتابت اور طباعت وہ فنون تھے جو بادشاہوں سے ربط و ضبط اور رسائی کا ذریعہ ہوتے تھے اس لیے ان علوم کو دوسرے علوم پر برتری حاصل تھی۔
عہد عباسی میں جن ناشرین کو معیاری و مستند ناشرین کی حیثیت حاصل تھی ان کی لکھی اور شائع کی ہوئی کتابیں اعلیٰ درجہ کی اور مستند شمار کی جاتی تھیں ،لوگ ان کی لکھی ہوئی کتابوں پر ٹوٹ پڑتے تھے جو مصنفین اور شارحین اپنی کتابوں کے منفرد اور مستند ناشر تھے اور وہ جو کتابیں املا کرتے تھے یا جو کتابیں ان کی زیر نگرانی نقل کی جاتی تھیں ان پر ان کے دستخط ثبت ہوتے تھے وہ جامع معیاری و مستند کتب اور نسخے سمجھے جاتے تھے ۔اس طرح ایک معیاری ناشر کا نام کسی کتاب کے مستند ہونے کے لیے اہم ہے اور سند کا درجہ رکھتا ہے ۔
کسی کتاب کی مقبولیت اور فروغ میں اہل علم حضرات کی طرح ناشر بھی اہم کردار ادا کرتا ہے اور تحریری مسودوں کو کتاب کی شکل دے کر عوام الناس ،طلبہ اور محققین تک پہنچانے کی بھرپور سعی کرتا ہے ۔ زبان و ادب کے فروغ میں اہل علم حضرات کی طرح ناشرین نے بھی بھرپور حصہ لیا ہے ،ناشرین کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں ان اہل علم او ردانشوروں سے نہایت اہتمام سے مسلسل رابطہ رکھتے ہیں جو مشہور و معروف ہوں اور جن کی سر بلندی علمی دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے ،ان کا مطمع نظر صرف تجارت نہیں ہوتا بلکہ علم و ادب کی اشاعت سے گہرا لگاؤ ہوتا ہے اس بنا پر وہ علم کی ترقی و ترویج کرتے ہیں۔
ایک معیاری ناشر ہر طرح کی کتابیں نہیں چھاپتا ،اس کے کچھ اصول ہوتے ہیں ۔وہ کتاب کے متن کی ذمہ داری قبول کرتا ہے، ایسا مواد شائع نہیں کرتا جس کے لیے حکومت یا عوام کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے ۔
۱۔ وہ موضوع کو دیکھتے ہیں اور معیاری مواد کو ہی شائع کرتے ہیں۔
۲۔ اس بات کا بھی دھیان رکھتے ہیں کہ کتابت اچھی ہو ،ٹائٹل جاذب نظر ہو اور موضوع سے مطابقت رکھتا ہو ۔
۳۔ کتاب کا حجم بھی مناسب ہو ،جلد مضبوط ہو اگر کارڈ کی جلد ہے تو کارڈ لچک دار اور پائیدار ہو۔ گتہ زیادہ وزنی نہ ہو،سلائی کی گئی ہو یا چپکا کر صفحوں کو یکجا کیا گیا ہو ،دونوں حالتوں میں جلد کھلنے نہ پائے ۔
۴۔ کتاب کی طبعی حالت ہر صورت دیدہ زیب ہو ،اندرونی طور پر کتاب کی ترتیب درست ہو ،فہرست عنوانات کے مطابق ہو، ہر صفحہ پر عنوان اور مصنف کا نام ہو، ہیڈر اور فٹر بھی درج ہوں ،تحقیقی مقالہ ہے تو کتابیات اور اشاریہ بھی دیا گیا ہو ۔
۵۔ سال اشاعت بھی دیا جاتا ہے اور یہ واضح کیا جاتا ہے کہ جملہ حقوق کس کے نام ہیں ،مصنف یا ناشر کے کاپی رائٹ کی تاریخ بھی درج کی جاتی ہے ، سال اشاعت، بار اشاعت ،نقش ثانی بھی دیا جاتا ہے
۶۔ معیاری ناشرین آئی ایس بی این بھی حاصل کر کے کتاب پر درج کرتے ہیں۔
۷۔ قیمت کا تعین بھی کرتے ہیں کیونکہ اس سے کتاب کی کھپت ہوتی ہے۔
۸۔ کتاب میں صفحہ عنوان کی پشت پر مطبع خانہ اور ملنے کا پتہ درج کرتے ہیں تاکہ قارئین کو کتاب حاصل کرنے میں دقت نہ ہو ۔
۹۔ صفحہ عنوان کی پشت پر کتاب کا کیٹلاگ کارڈ (CIP)بھی چھاپ دیتے ہیں جن سے کیٹلاگر کو درجہ بندی نمبر، موضوعی سرخی اور اندراج کے تعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اے اے سی آر ۔ٹو (AACR-II) کے قواعد کے مطابق ناشر کا نام عنوان ایڈیشن کے بعد مصنف کے نام کے بعد آتا ہے اور اس کے نام کے اگے کامہ (،)لگایا جاتا ہے عموماً ناشر کے نام کا مشہور حصہ درج کیا جاتا ہے ۔مکمل پتہ درج نہیں کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد جگہ اور تاریخ لکھی جاتی ہے ۔اصول کیٹلاگ سازی میں اس حصہ کو تفصیل اشاعت (imprint)کہا جاتا ہے ۔
بڑے کتب خانوں میں حصول کتب کے لیے قائم کردہ شعبے کا زیادہ کام مواد کو منتخب کرنا او ر انھیں خریدنے کا ہوتا ہے۔ اس لیے تجارت کتب اور طباعت کتاب کے کاموں سے واقفیت رکھنا اس شعبے کے اراکین کے لیے بہت اہم ہے ۔ شعبہ حصول کتب کے عملے کے لیے معیاری مواد کا انتخاب زیادہ شرح رعایت اور مواد کا بروقت حصول بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ ان مقاصد کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب کتب کی تجارت و طباعت سے واقفیت ہو اور ناشرین کے بارے میں مکمل آگاہی ہو کہ اس ناشر کا کیا معیار ہے ۔ان کی شائع کردہ کتب کے موضوعات کیا ہوتے ہیں۔کس خاص موضوع پر مثلاً سائنس، ادب، ٹیکنالوجی ،سماجی علوم پر کتب شائع کرنے میں کون سے ناشر مشہور ہیں۔ان کے یہاں سےً شائع ہونے والی مطبوعات کے مصنفین کی شہرت اور معیار کیا ہے، کون سے پبلشر یا ناشر کا م وقت پر انجام دیتے ہیں کون کون سے فروخت کنندگان ہیں، کتاب بھیجنے میں ان کی خدمات کیسی ہیں۔
پاکستان میں اشاعت کاکام زیادہ تر نجی اور پرائیویٹ اداروں کے پاس ہے ۔
ناشرین کی کئی اقسام ہیں:
عمومی تجارتی ناشر :
یہ عوام کی عام دلچسپی کے موضوعات پرکتابیں شائع کرتے ہیں ،ان کی کتابیں مختلف موضوعات پرہوتی ہیں اور یہ خود ہی تقسیم و فروخت کا کام انجام دیتے ہیںیا ملکی نمائندہ کتب فروشوں کے ذریعے فروخت کرتے ہیں، جیسے طاہر سنز ،فضلی بک ، ویلکم بک پورٹ وغیرہ ۔
خصوصی تجارتی ناشر:
خصوصی پبلشرز مخصوص موضوعات پر کتب شائع کرتے ہیں۔
ان کے پیش نظر ایک دو موضوعات ،پیشہ یا مخصوص قاری ہوتے ہیں۔ان کی طباعت ضرورت کے پیش نظر ہوتی ہے لہٰذا تجارت ، اشتہاری ضرورت اور انتخاب مواد و طباعت کتب کے مراحل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ،ان کی مطبوعات ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی ہیں اور نقصان کا اندیشہ کم ہوتا ہے۔
مثلاً درسی کتب اورغیر ملکی سستی کتابوں کے لیے نیشنل بک فاؤنڈیشن قائم کیا گیا ۔سائنسی کتب کے لیے اردوسائنس بورڈ، پرگامن، پٹ مین، جوں ویلی،پان بک ، پیٹرسن۔
قانون کی کتابوں کے لیے : لاء بک ہاؤس ، تھامسن
درسی کتب کے لیے :علمی کتب خانہ، ٹیکسٹ بک بورڈ، منسٹری آف ایجوکیشن ،فیروز سنز، غضنفر اکیڈمی، طاہر سنز،خواجہ بک ڈپو۔
مذہبی کتب کے لیے: اشاعت اسلام، تاج کمپنی، الہدیٰ،حافظ کمپنی، صدیقی ٹرسٹ، مکتبہ افکار اسلامی
ٹیکنکل مطبوعات کے لیے: پیڑسن ایجوکشن،پرنٹس ہال، میک ملن، وینگارڈ
ادبی کتب کے لیے: انجمن ترقی اردو، ادارۂ ادبیات پاکستان، مقتدرہ قومی زبان، میک ملن، لوگ ورثہ، ترقی اردو بورڈ، ادارۂ ثقافت پاکستان، الفیصل،جنگ پبلشرز، قرطاس ، سنگ میل، شہرزاد، بزم تخلیق ادب پاکستان ، فضلی بک، ویلکم بک پورٹ۔
طب کی کتابوں کے لیے: ہمدرد فاؤنڈیشن ،ہومیوکتاب گھر، تخلیقات ،کامیاب بک ڈپو، مکتبہ القریش۔
بچوں کی کتابوں کے لیے: نیشنل بک کونسل، فیروز سنز، لیڈی برڈ، اکسفورڈ، میک ملن۔
نقشہ جات کے لیے : فیروز سنز ،سروے آف پاکستان ،شعبہ جغرافیہ ۔
یونیورسٹیاں:
یونیورسٹیاں بھی خصوصی ناشرین کے زمرے میں شامل ہیں کیونکہ یہ انتظامی مالی اور دیگر نوع کی دستاویزات کے علاوہ تحقیقی اور خالص موضوعاتی نوعیت کی کتب و رسائل وغیرہ چھاپتی رہتی ہیں ان کی شائع کردہ کتابیں زیادہ تر کتب خانے خریدنے ہیں ۔بڑی جامعات میں شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ قائم ہیں جو طباعت کا کام انجام دیتے ہیں مثلاً کراچی یونیورسٹی ،جامعہ پنجاب اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ،کیمبرج یونیورسٹی پریس ۔
سرکاری ادارے :
سرکاری ادارے بھی ناشرین کا کردار ادا کرتے ہیں اور یہ اپنی کانفرنسوں کی رودادیں او رتحقیقی مقالے وغیرہ شائع کرتے ہیں ۔اس قسم کی مطبوعات معلوماتی ہوتی ہیں اور تحقیق میں مددگار ثابت ہوتی ہیں ،ان کی تعداد محدود ہوتی ہے عموماً حکومت دوسرے اداروں کو مفت بھیجتی ہے ۔ ان مطبوعات کی تشہیر نہیں ہوتی لہٰذا محقق اور لائبریرین کی ان تک رسائی نہیں ہوتی ہے ۔کتب خانے ایسے کلیدی مواد سے محروم رہتے ہیں ۔مثلاً منسٹری آ ف پاکستان کی مطبوعات ،نیشنل لائبریری، نیشنل آرکائیوز ، نیشنل ریسرچ کونسل ۔
تحقیقی سرکاری و نیم سرکاری ادارے:
یہ عام طور پر تحقیقی مطبوعات شائع کرتے ہیں جسے PCSIR، پاکستان ریسرچ کونسل، ایجوکیشنل ریسرچ ، I.B.A، ان کی مطبوعات کی بھی تشہیر نہیں ہوتی اور عام مارکیٹ میں نہیں ملتی ہیں صرف ادارے اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے شائع کرتے ہیں پھر ان کے حصول میں ٹیکنیکی دشواریاں بھی حائل ہوجاتی ہیں۔ یہ صرف متعلقہ اداروں سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔عام طور پر کتب خانے ان مطبوعات سے بے خبر رہتے ہیں۔
مصنف ناشرین:
مصنف چاہتا ہے کہ اسے معقول معاوضہ تصنیف سے ملے اور کتاب بھی معیاری چھپے جبکہ اکثر ناشرین کتابیں تو چھاپنے پر راضی ہو جاتے ہیں معاوضہ یا رائلٹی دینے کو تیار نہیں ہوتے اور کتاب میں لاگت کم لگا کر منافع زیادہ کمانا چاہتے ہیں لہٰذا بعض مصنف کسی ناشر کو اپنی تصنیف دینے کے بجائے خود شائع کر کے بیچتے ہیں یاوہ کسی کتب فروش کے ذریعے فروخت کرتے ہیں لیکن اس کی تشہیر نہیں ہو پاتی ۔بعض اداروں میں کسی فرد سے کتاب خریدنے پربھی پابندی ہوتی ہے ۔نتیجتاً کتب خانوں کو اس طرح کی کتابوں سے محروم رہنا پڑتا ہے۔
نجی ادارے:
یہ ادارے نشر و اشاعت کا کام جزوی طور پر کرتے ہیں اور اپنی مطبوعات کی تشہیر بھی نہیں کرتے ہیں، نہ ہی اپنی کتابوں کو کتب خانوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
رجسٹرڈ کاروباری ادارے:
ان کا مقصد کم سے کم لاگت کے بعد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے اس لیے یہ مقبول عام کتابیں طبع کرتے ہیں مثلاً ناول، گائیڈ بک، گھریلو مسائل، دستکاری ،خلاصے ، ڈرائنگ بک وغیرہ ۔
کسی کتاب کو شائع کرنے سے پہلے اس سے حاصل ہونے والے منافع کا اندازہ پہلے ہی لگا لیتے ہیں ،عموماً کاغذ ،کتابت، کمپوزنگ ، چھپائی ،جلد بندی ایسی کی جاتی ہے جس پر لاگت کم آئے ،کتب خانوں کی ضروریات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا ۔ناشرین میں اکثر کتب فروش بھی ہوتے ہیں جو اپنی دکانوں سے زیادہ سے زیادہ کتب بیچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کمیشن دینے سے بچ جائیں اور زیادہ سے زیادہ فائدہ خود حاصل کریں ۔ چونکہ سبھی کی کتب خانوں تک رسائی نہیں ہوتی اور مواد بھی انفرادی دلچسپی کا ہوتا ہے لہٰذا کتب خانے اکثر ان کی مطبوعات سے محروم رہتے ہیں۔
غیر رجسٹرڈ کاروبار ی ادارے :
ناشرین کا یہ ایک نیا طبقہ ابھرا ہے ۔ یہ کتب خانوں کو سامنے رکھ کر کتابیں چھاپتے ہیں۔یہ نئی تصنیفات کے مقابلے میں پرانی کتابوں کو زیادہ چھاپتے ہیں ،یہ اپنے کاروبار کو محدود رکھتے ہیں کتابوں کی محدود تعداد چھاپتے ہیں اس طرح جہاں کتاب مہنگی ہو جاتی ہے وہاں اسٹاک بھی جلد ختم ہو جاتا ہے ۔
اس طبقے کے وسائل بھی قدرے کم ہوتے ہیں اس طرح یہ بھی باقاعدہ تشہیر نہیں کر سکتے پرانی کتابیں چھاپنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اخراجات کم آتے ہیں ۔منافع کا امکان زیادہ ہوتا ہے اکثر یہ اپنا نام پتہ مکمل نہیں دیتے ہیں جس کا وجہ سے ان سے رابطہ کرنا مشکل ہوتا ہے اور کتب خانے ان کی مطبوعات سے محروم رہتے ہیں۔
نتیجہ :
ان تمام ناشرین کے رویہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں ناشرین کے لیے طباعت کا کام مشکل ہے ،سب سے پہلی وجہ سرمایہ کی کمی ہے دوسری وجہ علمی استعدادکی کمی ہے کتابوں کی کھپت کے لیے مارکیٹ محدود ہے ،ناشرین اور کتب خانوں میں رابطہ کا فقدان ہے ۔سرکاری سرپرستی سے محرومی بھی اس کی ایک وجہ ہے نصابی کتب سرکاری ادارے شائع کرتے ہیں لہٰذا پرائیویٹ ناشر ین کے لیے میدان کم رہ جاتا ہے۔ نئی کتابوں کی تشہیر پر رقم خرچ نہیں کی جاتی کیونکہ کتاب بکنے کی امید کم ہوتی ہے ۔اکثر کتابیں مصنفین تحفے میں دے دیتے ہیں نہ انھیں رائلٹی ملتی ہے نہ حکومت اور دوسرے اداروں کی طرف سے پذیرائی کی جاتی ہے ،عموماً غیر ملکی کتابوں کواہمیت دی جاتی ہے اور ملکی مصنفین اور ناشرین کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اس کے باوجود ناشر کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔تحقیق میں اس کا درجہ مصنف کے بعد دوسرے نمبر پر ہے ۔
تجاویز:
l ناشرین کو جدید ٹکنالوجی کی خریداری کے لیے حکومت مراعات دے ۔
l سرکاری سرپرستی میں ناشرین کو ترقیاتی تجرباتی کورس کروائے جائیں
l کتب خانے قائم کیے جائیں اور ان کے بجٹ میں اتنی گنجائش رکھی جائے کہ وہ اعلیٰ معیاری
کتب خرید سکیں جب طلب ہو گی تو تجارت کو فروغ ہو گا ۔
l مصنفین کو رائلٹی پابندی سے ادا کی جائے تاکہ محققین کتابیں لکھنے کی طرف راغب ہوں
l غیر ملکی کتابوں کی خریداری کے ساتھ ساتھ ملکی کتابوں کی تشہیر کا مناسب بندوبست کیا جائے ۔
l پاکستان میں کتابی تجارت کے فروغ کے لیے کاپی رائٹ کا صحیح معنوں میں نفاذ ،ذوق مطالعہ
میں فروغ کی ضرورت ہے ۔
کتابیات:
۱۔شیخ اقرار حسین ۔اردو انسائیکلوپیڈا لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس ،راولپنڈی ، دی بکس، ۲۰۱۷ء
۲۔ اکرام الحق ، پاکستان لائبریرین شپ کی تاریخ، راولپنڈی ، رومیل بک ہاؤس ، ۲۰۱۷ء
۳۔ وسائل کتب خانہ ترتیب و تنظیم ، یونٹ ۱۔۱۸، اسلام آباد، علامہ اقبال یونیورسٹی ، ۲۰۰۸ء

Amna khatoon
About the Author: Amna khatoon Read More Articles by Amna khatoon: 17 Articles with 39269 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.