پاکستانی وزیر اعظم عمران خان جمعہ 29 مارچ کو گوادر کے
نئے انٹرنیشنل ہوائی اڈے کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔
اس منصوبے کا آغاز ملک کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے 19 اگست 2005 کو
سوِل ایوی ایشن کو احکامات دیتے ہوئے کیا تھا اور عمران خان سے پہلے چھ
وزرائے اعظم اس ایئرپورٹ کی تعمیر، تکمیل کے بارے میں مختلف تاریخیں یا
تکمیل کے دورانیے کے بارے میں دعوے کر چکے ہیں۔
|
|
تاہم اب بالآخر 14 سال، سات مہینے اور کچھ دن کے بعد اس ایئرپورٹ کا سنگ
بنیاد رکھا جا رہا ہے۔ ابھی بھی اگر آپ کسی سے پوچھیں تو حتمی طور پر کوئی
نہیں کہہ سکتا کہ یہ کب تیار ہو کر آپریشنل حالت میں ایئرلائنز کے استعمال
میں آئے گا۔
ہاں آپ کو بہت ساری تاریخیں اور تخمینے ضرور سننے کو ملیں گے جیسا کہ اسلام
آباد کے انٹرنیشنل ہوائی اڈے کا معاملہ ہمارے سامنے ہے۔
کون جیتا ہے تیرے رن وے کے مکمل ہونے تک۔۔۔
اس مضمون میں ہم جائزہ لیں گے کہ اس ایئرپورٹ کے اندر کیا خصوصیات دستیاب
ہیں اور اس کی اب تک کتنی ڈیڈ لائنز دی جا چکی ہیں اور اخراجات کا تخمینہ
کس طرح پہلے دن سے آج تک بدلتا رہا۔ اس سارے معاملے کو سمجھنے کے لیے گذشتہ
14 سال میں اخبارات میں مختلف نوعیت کے بیانات کا جائزہ لیا گیا جن کی مدد
سے یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔ یہ سارے بیانات پبلک ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
چین پاکستان اکنامک کوریڈور سیکرٹریٹ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے
مطابق اس ایئرپورٹ کی تعمیر کا کام اپریل 2019 سے شروع ہوگا۔ پراجیکٹ کا
ڈیزائن اور فیزیبلٹی مکمل کی جا چکی ہے۔ یہ ایئرپورٹ گوادر کے موجودہ ہوائی
اڈے سے 26 کلومیٹر شمال مشرق کی جانب واقع ہے اور اس کی تعمیر کے لیے 3،000
ایکڑ سے زیادہ زمین حاصل کی جا چکی ہے۔
یہ ایئرپورٹ پاکستان کا دوسرا گرین فیلڈ ایئرپورٹ ہو گا یعنی اس کو بالکل
نئے سرے سے تعمیر کیا جائے گا۔ پاکستان کا پہلا گرین فیلڈ ایئرپورٹ اسلام
آباد کا نیا بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔
اس ایئرپورٹ کی منصوبہ بندی کے بارے میں وزیر اعظم شوکت عزیز نے 2005 میں
سوِل ایوی ایشن کو احکامات جاری کئے۔ اس زمانے میں پی آئی اے نے نئے نئے اے
ٹی آر طیارے حاصل کیے تھے تو کراچی سے گوادر کے لیے ان کی پروازوں کے بھی
احکامات جاری کیے گئے۔
|
|
اس منصوبے کے آغاز سے اب تک یہ بات بھی واضح نہیں کہ اس کے لیے کتنی زمین
مختص کی گئی ہے۔ بعض بیانات کے مطابق اس کے لیے 4،300 ایکڑ زمین خریدی گئی
جبکہ بعض کے مطابق یہ 3،000 ایکڑ ہے۔ یاد رہے کہ منصوبے کے آغاز کے فوری
بعد زمین کی خرید میں خرد برد کی اطلاعات بھی تھیں جس پر ایک انکوائری بھی
تشکیل دی گئی تھی لیکن اس کا کیا ہوا یہ کسی کو معلوم نہیں۔
ڈیڈ لائنز
اس منصوبے کی تعمیر میں اب تک کئی ڈیڈ لائنز آئیں اور گئیں مگر جب اس کا
آغاز کیا گیا تھا تو یہ بات کہی گئی تھی کہ اس کو دو سالوں کے اندر اندر
مکمل کیا جائے گا۔
یہ 25 جنوری 2007 کی بات ہے جب سینیٹ میں سوالات کے جواب دیتے ہوئے وزیر
مملکت برائے داخلہ ظفر اقبال وڑائچ نے کہا کہ اس منصوبے کو دو سالوں کے
اندر مکمل کر لیا جائے گا۔ لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ منصوبے پر کام
کب شروع ہو گا۔
اس کے بعد 28 فروری 2008 کو نگران وزیر دفاع سلیم عباس جیلانی نے کہا کہ
گوادر ایئرپورٹ کا منصوبہ اگست 2010 تک مکمل کر لیا جائے گا۔
اس کے بعد اکتوبر 2009 کو وفاقی وزیر دفاع چوہدری احمد مختار نے قومی
اسمبلی میں یہ بات کی کہ اس ایئرپورٹ کو جون 2012 میں اور ایک اور اخباری
رپورٹ کے مطابق دسمبر 2011 میں مکمل کر لیا جائے گا۔
جنوری 2010 اور تاریخ 13 تھی جب اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے
سوِل ایوی ایشن کو احکامات جاری کیے کہ وہ تین سال کے اندر اندر اس ایئر
پورٹ کو مکمل کریں۔ اس میٹنگ کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 2020 تک
اس ایئرپورٹ پر 350،000 مسافروں کی گنجائش ہو گی۔
اس کے بعد 22 نومبر 2011 کو اے پی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق زیرِتعمیر
گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ جسے 2013 کے آخر میں مکمل ہونا تھا اب دسمبر 2014
کے آخر میں مکمل ہو گا۔
|
|
اور پھر باری آتی ہے 230 ملین ڈالر کے قرض کی جو چین نے اس منصوبے کے لیے
پاکستانی حکومت کو دیا تھا جسے بعد میں تبدیل کردیا گیا اور ستمبر 2015 میں
اس منصوبے کی تکمیل کے لیے نئی ڈیڈلائن دسمبر 2017 دی گئی۔
22 نومبر 2017 کو یہ بیان سامنے آیا کہ یہ منصوبہ 2019 کے آخر یا 2020 کے
شروع میں مکمل کر لیا جائے گا۔
یہ تو تھی تعمیر کی ڈیڈ لائن، لیکن اسی طرح اس منصوبے کے سنگ بنیاد رکھنے
کی بھی مختلف تاریخیں مختلف ادوار میں دی جاتی رہی ہیں۔
6 مارچ 2017 کو وفاقی وزیر برائے پلاننگ احسن اقبال نے ایک سیمینار کے
دوران کہا کہ سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب جلد رکھی جائے گی۔
15 جون 2017 کو یہ بیان سامنے آیا کہ ستمبر میں تعمیر کا آغاز کر دیا جائے
گا، پھر یہ بات 22 نومبر 2017 کو سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے گوادر
کے دورے کے دوران کہی کہ جلد ہی اس منصوبے کی تعمیر کا کام شروع کر دیا
جائے گا۔
اور اس سلسلے کی آخری کڑی میں دسمبر 2017 کو یہ بات سامنے آئی کہ مارچ 2018
کو اس منصوبے پر کام شروع کر دیا جائے گا اور ہوتے ہوتے بات مارچ 2019 تک آ
ہی گئی۔
لاگت
سات نومبر 2006 کو وفاقی حکومت نے اس ہوائی اڈے کی تعمیر کا ٹھیکہ چائنیز
کمپنی چائنا ہاربر انجینئرنگ کمپنی کو دیا۔ لیکن سوِل ایوی ایشن کو اس
منصوبے کے ڈیزائن اور نگرانی کے لیے مقرر کیا گیا تاکہ اس ہوائی اڈے کو بین
الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر کیا جائے۔
|
|
اس وقت اس ائیرپورٹ کی تکمیل پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ 70 ملین ڈالر
کے قریب لگایا گیا تھا اور اسے بنیادی طور پر کارگو کے استعمال کے لیے
تعمیر کیا جانا تھا۔
اس منصوبے کی تکمیل کے لیے شروع دن سے جو رقم کی بات کی جا رہی ہے وہ ساڑھے
چھ ارب روپے بنتی ہے جس کے بارے میں مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں کی جانب
سے فنڈز کا اجرا کیا گیا۔
امریکی ڈالروں میں رقم کا تخمینہ 200 سے 250 ملین بتایا گیا، جس میں دسمبر
2009 کو بتایا گیا کہ اومان کی حکومت سترہ اعشاریہ پانچ ملین ڈالر کی گرانٹ
اس منصوبے کے لیے فراہم کرے گی۔
اکتوبر 2014 کو اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے اس منصوبے پر 803 ملین
روپے خرچ کیے جبکہ اس کی لاگت 7.7 ارب روپے تک جا پہنچی تھی۔
اسی سال حکومت نے ایوی ایشن ڈویژن کو احکامات جاری کیے کہ وہ ایئرپورٹ کے
ڈیزائن میں تبدیلی کریں تاکہ بوئنگ 777 طیارے بھی اس ہوائی اڈے پر اتر سکیں۔
اور اسی سال سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ چین کے دوران چین کی حکومت
نے 230 ملین ڈالر کے قرضے کو امداد میں بدل دیا تھا۔
|