صہباؔ لکھنؤی۔ شاعر و ادیب

صہباؔ لکھنؤی۔ شاعر و ادیب 57برس ماہنامہ ’افکار ‘ کے مدیر رہے
*
اردو کے معروف شاعر و نثر نگار اور57 برس ماہنامہ ’’افکار ‘‘ کے مدیر ہونے کا اعزاز پانے والے صہبا لکھنوی کو جداہوئے 17برس ہوگئے۔ انہوں نے آج ہی کے دن 30مارچ 2002ء کو دائے اجل کو لبیک کہا تھا۔ صہبا لکھنوی سے ملاقات اور گفتگو کو سالوں بیت گئے لیکن ان کا معصوم سا چہرہ، دبلا بتلا جسم اور لکھنؤی انداز آج تک نظروں کے سامنے ہے۔ صہبا لکھنوی یا ماہنامہ ’افکار‘ کا دفتر کراچی کے مشہور علاقے ’’برنس ‘‘ روڈ پر واقع تھا۔ ویسے تو برنس روڈ کھانے پینے خاص طور پر نہاری، پائے، کباب ، بریانی کے حوالے سے مشہور تھا ۔ اب اس کی وہ بات نہیں رہی اس لیے کہ شہر کراچی نے اپنی جغرافیائی حدود اس قدر وسیع کرلی ہیں کہ دور دراز سے شوقین مزاج لوگوں کا برنس روڈ پہنچنا مشکل ہوگیا ہے اور اب کراچی میں جگہ جگہ فوڈ اسٹریٹ قائم ہوچکی ہیں۔اُس وقت برنس روڈ میری پہنچ میں تھا اس لیے کہ میرا تبادلہ 1974ء میں حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں ہوگیا تھا۔ میری رہائش بھی کالج کے نذدیک ہی تھی اور برنس روڈ بہت دور نہیں تھا۔ باوجود اس کے کہ اس وقت کار تو دور کی بات سائیکل بھی نہیں تھی۔ لیکن آنے جانے میں کبھی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔لکھنے پڑھنے کا آغاز ہوچکا تھا ، میرے لکھنے کا ابتدائی زمانہ تھا۔ پہلی کتاب جو ایک توضیح�ئکتابیات تھی 1975ء میں آچکی تھی ، دوسری کتاب’’کتب خانے تاریخ کی روشنی میں‘ 1977ء میں قمر کتاب گھر نے شائع کی تھی۔ اب ہم مضامین کی اشاعت اور کتابوں پر تبصرے اور مضامین کی اشاعت کے لیے ادھر ادھر جانے لگے۔ کالج کی لائبریری میں افکار پابندی سے آیا کرتا تھا۔ اس کی وجہ جو صہبا لکھنوی صاحب نے از خود مجھ سے کہی کہ میں فیض احمد فیضؔ کی وجہ سے ’افکار‘ کی اعزازی کاپی عبدا للہ ہارون کالج کو بھیجتا ہوں ۔ اس وقت سے جب سے فیضؔ صاحب اس کالج کے پرنسپل ہوگئے تھے۔

بات ہے 1978ء کی میں اپنی کتاب پر تبصرے اور افکار میں مضامین کی اشاعت کی درخواست کے ارادے سے افکار کے دفتر گیا۔ برنس روڈ پر اردو بازار کے ساتھ ہی ایک دکان پر چک پڑی ہوئی ، افکار کا بورڈ آویزاں تھا۔ ڈرتے ڈرتے چک اٹھائی ، جس شخص پر نظر پڑی وہ سوچوں میں گم،میز پر کتابوں کا ڈھیر ، کرسی پر نظر جھکائے بیٹھا تھا۔ کمرے کے چاروں جانب ریک جن میں کتابیں ہی رکھی نظر آرہی تھیں۔ پہلے تو کچھ تجسس ہوا کہ اندر داخل ہوں یا واپس ہولوٹ جاؤں لیکن پھر ہمت کر کے کہا کہ سر! حاضر ہوسکتا ہوں۔ سوچ بچار میں غرق شخص نے کہا ’’آئیے‘‘۔ یہ تھے صہبا لکھنوی صاحب۔ اُس وقت میں 29برس کا نوجوان تھا۔ بیٹھنے کو کہا ۔ میں نے بیٹھتے ہی اپنے کالج سے تعلق بتا یا ۔ انہوں نے بس اتنا ہی، سنا خود بولے جی فیض صاحب والا کالج ، میں نے کہا جی وہی، کہنے لگے میں آج بھی افکار کالج لائبریری کو فیض صاحب کی وجہ سے اعزازی کاپی بھیج رہا ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ جی ہاں میں اس سے استفادہ کرتا ہوں ، آپ کے دفتر کا پتہ مجھے رسالے سے ہی ملا۔ کہنے لگے، چائے پیئے گیں ، میں نے کہا جی نہیں شکریہ، فیض ؔ کا حوالہ میرے کام آیا۔بہت دیر فیضؔ پر گفتگو کرتے رہے۔ کہنے لگے اب فیض اس کالج میں نہیں، میں نے کہا جی 1972 ء میں حکومت نے تعلیمی اداوں کو سرکاری تحویل میں لیا تو فیض صاحب نے سرکاری ملازمت اختیار کرنا گوارہ نہ کیا اور کالج کی پرنسپل شب چھوڑ دی۔ کہنے لگے فیض مختلف سوچ رکھتے ہیں۔بھلا وہ بھٹو کے ملازم کیسے ہوسکتے تھے۔ انہوں نے تو کالج کو خدا حافظ کہنا ہی تھا۔ پھر گویا ہوئے فرمائیں کیسے آئے ۔ میں نے کہا کہ کچھ لکھنے کی جانب راغب ہوں ، کتاب ان کی خدمت میں پیش کی ، خوش ہوئے ، میں نے کہا کہ اس پر تبصرے کا طالب ہوں ، کہنے لگے ہاں ہاں کیوں نہیں ، ہوجائے گا۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ اپنی کوئی تحریر آپ کو افکار کے لیے دے سکتا ہوں ، گویا ہوئے ضرور دیجئے۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور واپس ہوا۔کرسی سے اٹھے اور مجھے کھڑے ہوکر رخصت کی۔

افکار کے توسط سے اردو ادب کے مختلف موضوعات پر نثری مضامین اور شعری تخلیقات جس بڑی تعداد میں سامنے آئیں وہ تاریخ میں محفوظ ہیں۔ بڑے بڑے ادیبوں ، شاعروں کا اس رسالے میں چھپنا اعزز سمجھا جاتا تھا۔ صہبا لکھنوی نے افکار کے کئی خاص نمبر بھی شائع کیے جن میں جوش نمبر، حفیظ نمبر، فیض نمبر، ندیم نمبر، امیر خسرو نمبر، غالب نمبر، نذر اقبال، کرشن چندر ایڈیشن، مجاز ۔ ایک آہنگ، حمید احمد خان ایڈیشن، مصفےٰ زیدی ایڈیشن وغیرہ شامل ہیں۔ میری کتاب ’کتب خانے تاریخ کی روشنی ‘ پر ماہنامہ افکار، کراچی نے تبصرہ کر تے ہوئے لکھا
’’ کتابچہ بڑے ذوق و شوق کے ساتھ تر تیب دیا گیاہے، زبان تحقیقی ہو نے کے علاوہ خاص رواں اور شگفتہ ہے اور قاری کو معلومات بھی بہم پہچاتی ہے اور اس کی دلچسپی بھی قائم رکھتی ہے‘‘۔(افکار ستمبر 1978، سال 34، شمارہ 102)۔ صہبا لکھنوی کی تصانیف میں ماہ پارے، زیر آسماں، میرے خوابوں کی سرزمیں، اقبال اور بھوپال، مجاز ایک آہنگ، ارمغان مجنوں، رئیس مرہوی فن و زشخصیت، منٹو، غالب ایک صدی، برطانیہ میں اردو ، خاکے شامل ہیں۔

صہبا لکھنوی سے کئی ملاقاتیں ہوئیں ، کئی ادبی تقریبات میں صہبا لکھنوی ملے جب بھی ملتے کالج اور فیض کا ذکر ضرور کیا کرتے۔ لیکن وہ کم کم مشاعروں اور ادبی تقریبات میں جایا کرتے تھے بس افکار ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ انہوں نے 30مارچ 1919ء میں ریاست بھوپال کے علاقے ’کوریا‘ میں جنم لیا۔ تعلیم کے تمام مراحل لکھنؤ میں انجام پائے۔ لکھنؤ ہی ان کا آبائی وطن تھا۔ صہبا لکھنوی کا اصل نام سید شوکت علی تھا۔ صہبا ؔ تخلص ، صہبا لکھنوی سے مشہور تھے۔ شعر و شاعری تو آبا و اجداد سے ورثہ میں ملا۔بھوپال سے 1945میں ماہنامہ ’’افکار‘‘ جاری کیا۔ پہلا شمارہ اپریل 1946 ء میں شائع ہوا۔ انہوں نے افکار کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔قیام پاکستان کے بعد پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا ور 1951ء میں کراچی سے افکار کا دوبارہ اجراء کیا۔ پہلا شماہ مئی ۔جون 1951ء میں جاری ہوا۔ صہبا لکھنوی نے اپنی زندگی کے57برس افکار پر لگادیے ۔صہبا لکھنوی کے بعد کچھ احباب نے افکار فاؤنڈیشن کے تحت رسالہ جاری کرنے کی کوشش کی چند شمارے شائع بھی ہوئے۔ خدمت کی ایسی مثالیں بہت کم کم ملتی ہیں۔

صہبا لکھنوی بہت ہی دھیمی آواز میں ٹہر ٹہر کے گفتگو کیا کرتے۔ ان کی گفتگو کے انداز سے لکھنؤیت صاف ظاہر تھی۔ یہی نہیں بلکہ ان کی ظاہری شخصیت میں بھی لکھنوی انداز واضح طور پر عیاں تھا۔ کرتا اور بڑے پائینچے کا پاجامہ ان کا مخصو ص لباس تھا، چھوٹا قد، انتہائی دبلے پتلے ،گویا ہڈیوں کا ڈھانچہ، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پھونک مارو تو اڑ جائیں، گندمی رنگ، کتابی چہرہ، گال پچکے ہوئے، غلافی آنکھیں، آنکھوں پر مصنوعی آنکھیں یعنی چشمہ، کشادہ پیشانی، کھڑی ناک،بڑے کان، چہرے پر مسکراہٹ، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک، کلین شیو،سر پر مختصر بال ، سنجیدہ طرز گفتگو، معلومات کا خزانہ،شاعری اور ہر نثری موضوع پر تفصیلی اور حوالائی گفتگو، گفتگو میں بر محل خوبصورت اشعار کا استعمال، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر صورت شکل، وضع قطع،چہرے مہرے سب سے لکھنؤیت ، شرافت، تحمل ، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار ۔یہ تھے وہ صہبا ؔ لکھنوی جنہیں میں نے دیکھا۔ اردو ادب میں صہبا لکھنوی کی خدمات تا دیر یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے افکار کے توسط سے اور ذاتی حیثیت میں جو بھی علمی و ادبی مواد تخلیق کیا وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا، اہل علم اس سے استفادہ کرتے رہیں گے۔اپنی زندگی کے57 قیمتی برس ماہنامہ ’افکار ‘ کو دے کر علم و ادب سے محبت کرنے والا، اردو کی ترقی اور فروغ کے لیے دن رات ایک کردینے والاہمیشہ ہمیشہ کے لیے 30مارچ 2002ء کو کراچی میں آسودۂ خاک ہوگیا۔صہبا لکھنوی کی غزل جو ریڈیو پاکستان سے نشر بھی ہوئی ؂
بے حرف و نوا سخن تو دیکھو
خوابوں کا ادھورا پن تو دیکھو
لفظوں میں سمٹ سکا نہ پیکر
انسان کا عجزِ فن تو دیکھا
چہرے کے نقوش بولتے ہیں
تصویر کا بانکپن تو دیکھو
دامن کو بہار چھوگئی تھی
جلتا ہوا پیرہن تو دیکھو
تنہائی کا کرب سہنے والو
تنہائیِ انجمن تو دیکھو
جنگل کا سکوت کہہ رہا ہے
شہروں میں بسی گھٹن تو دیکھو
صدیوں سے لہو میں ترہے دامن
تاریخ کا پیر ہن تو دیکھو
(شائع شدہ افکار، ستمبر 1978)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280175 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More