ہاں جیساکہ حضرت صاحب نے فرمایا : اگر ہم قرآن وسنت کی
تمام کیفیات (باطنی ، ظاہری خواص) کو سمجھتے ہوئے اوران پر عمل پیراہونے کے
بعد ان کی طرف رجوع کرتے ہیں تو کچھ شک نہیں کہ ہم بھی ماضی کی گمشدہ شان و
شوکت ،جاہ وجلال، حشمت و عظمت حاصل کرلیں گے۔ آپ علیہ الرحمہ نے شاندارماضی
کی اس حشمت وعظمت کو اپنی سیرت طیبہ پر لکھی جانے والی کتاب Muhammad: The
Glory of the Ages میں مندرج فرمایا ہے۔
آپ نے اپنی کتاب میں عربوں کی قبل از اسلام حالت سے لے کر اسلام قبول کرنے
کے بعد ان کی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کوبہت تفصیل سے بیان فرمایا ہے ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آپ ﷺ سے قبل عرب ظلم و ستم کے عادی جاہل ، وحشی
اورخانہ بدوش تھے، ان میں درندگی، سفاکی، بہیمیت ،چنگیزیت اورفرنگیت کی
علامات تھیں ۔
قابل غور نکتہ: عام طورپر اردوزبان میں ظلم کے اظہار کے لئے"بربریت" کالفظ
استعمال کیا جاتا ہے۔جو کہ نامناسب ہے اس لئے کہ بربر ایک افریقی قوم ہے۔
جس کا افریقہ اوریورپ میں اسلام کی اشاعت میں ایک بہت بڑا حصہ تھا۔ طارق بن
زیاد علیہ الرحمہ اسی قوم کا ایک روشن چشم وچراغ تھا جس سے مغربی اقوام آج
بھی خوفزدہ ہیں۔ شاید مغربی اقوام طارق بن زیاد اوربربراقوام کے ہاتھوں
ملنے والی شکست کی ذلت ورسوائی آج تک نہ بھلاسکیں۔ اسی لئے انہوں نے
Barbarism یعنی بربریت کی اصطلاح کو استعمال کیا۔لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں
چاہئے کہ فرنگیوں اور چنگیزیوں کے مظالم کے روح فرساں مظالم کے اظہار کے
لئے " بربریت" کے بجائے "فرنگیت وچنگیزیت" کی اصطلاح استعمال کریں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آپ ﷺ سے قبل عرب ظلم و ستم کے عادی جاہل ، وحشی
اورخانہ بدوش تھے، ان میں درندگی، سفاکی، بہیمیت ،چنگیزیت اورفرنگیت کی
علامات تھیں ۔ وہ رہزنی کے پیشہ سے وابستہ تھے اور دوسروں کا مال ناحق غصب
کرتے تھے۔وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے ۔ لیکن آپ ﷺ کے اعجاز
اور آپ ﷺکی سیرت پر عمل کرنے سے عرب کی زمین کے تمام گلشن وصحراء حق کے
پیغام سے گونج اٹھے۔وہ شریعت و حقیقت سے آشنا ہوگئے ۔ان کی آنکھوں سے حجاب
ہٹ گئے، اور قدرت کے وہ راز ان پر عیاں ہوئے جو اس سے پہلے وہ نہ جانتے تھے
۔آپ ﷺ نے انتہائی مختصر عرصے میں ان خانہ بدوش وحشی عربوں میں رحم و کرم
،حلم وتواضع ،عہدکی پابندی،معاہدے کی پاسداری،محنت وجدوجہدکی لگن، صدق
وصداقت،عفوو درگزر ،حلم وبردباری، غلاموں سے اچھا برتاؤ،احکام کی
تعمیل،تنظیم سازی،حصولِ تعلیم ، وغیرہ کی صفات پیدا کردیں اوروہ جامع
عدالتی نظام اورعسکری اداروں کے حامل بن گئے۔الغرض وہ بحرالعلوم،ماہر فنون
اور علم و عرفان کے مینارۂ نور بن گئے اوربلندئ کردار کی اوج ثریا پر
جامقیم ہوئے ۔اورایساکیوں نہ ہوتاجب کہ خود سدرۃ المنتہیٰ ان کے قائدِ
اعظم، ہادی اعظم ﷺ کے قدموں تلے ہے۔
اس عروج کی اوراقِ ماضی میں بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ مغلوب ہونے کے
باوجود جب بھی مسلمان حضور ﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہوئے تو ان کی لرزتی
حکومت دوبارہ مستحکم ہوگئی۔ مثلاً منگولوں (چنگیزخان)سے بدترین شکست کھانے
کے باوجود جب مسلمانوں نے سیرت رسول عربی اور قرآن پاک کو تھاما وہ پستیوں
سے نکل کر دوبارہ بلندی کی طرف گامزن ہوگئے۔اور ان پر بدترین مظالم ڈھانے
والے ان کے حاکم (منگول) ہی خود مسلمان ہوکران کے محافظ بن گئے۔"پاسباں مل
گئے کعبہ کو صنم خانہ سے"۔
یہاں مشہور یورپین مستشرق تھامس آرنلڈ کا استشہاد قطعاً غیرضروری نہ ہوگا ۔
تھامس آرنلڈ جو ابتداء میں دیگر مستشرقین کی طرح اسلام اورمسلمانوں سے
معاندانہ رویہ ہی رکھتے تھے لیکن جیسے جیسے ان کا مطالعہ وسیع ہوتا گیا ان
کے مزاج میں اعتدال آتا گیا۔ وہ اگرچہ قبول اسلام کی سعادت سے تو بہرہ مند
نہ ہوسکے مگرمداحین اسلام میں ضرور شمار ہونے لگے۔علامہ اقبال نے بھی آپ سے
علمی استفادہ کیا۔سید سلیمان ندوی نے "یادرفتگاں" میں ان کاتذکرہ کیاہے۔
وہاس حقیقت کا ان الفاظ میں اقرارکرتاہے:
In spite of all difficulties, however, the Mongols and the savage tribes
that followed in their wake (In the thirteenth century, three-fourths of
the Mongol hosts were Turks) were at length brought to submit to the
faith of those Muslim peoples whom they had crushed beneath their feet.
Unfortunately history sheds little light on the progress of this
missionary movement and only a few details relating to the conversion of
the more prominent converts have been preserved to us.
The Preaching Of Islam A History Of The Propagation Of The Muslim Faith,
T.W. Arnold Ma. C.I.F Professor Of Arabic, University Of London,
University College, Pg 174, London Constable & Company Ltd. 1913
"باوجود ان تمام مشکلات کے مغلوں اوردیگروحشی قبائل نے ، جوان کے ہمراہ
تھے، بالآخر انہی مسلمانوں کے مذہب کے سامنے سرتسلیم خم کردیا جن کو انہوں
نے بے دردی سے پامال کیاتھا۔لیکن افسوس ہے کہ تاریخ اس تبلیغی تحریک پر بہت
کم روشنی ڈالتی ہے اورہمیں صرف سربرآوردہ اشخاص کے قبول اسلام کے متعلق چند
تفصیلات ملتی ہیں۔"(دعوت اسلام(The Preaching of Islam)، تھامس آرنلڈ،
مترجم ڈاکٹرشیخ عنایت اللہ ، ص 256)
تیرھویں صدی میں تین چوتھائی مغلوں کی فوج ترکوں پر مشتمل تھی (جو بعد میں
مسلمان ہوکر ایک طویل عرصہ دنیائے اسلام پر حکومت کرتے ر ہے ہیں اورخادم
ومحافظ حرمین شریفین بھی ر ہنے کا اعزاز حاصل کیا ۔
خلاصہ کلام:
اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کریم ﷺ کے لیےفرمایا: "وَرَفَعْنَا لَکَ
ذِکْرَکَ"( سورہ الم نشرح:4)اورہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکربلندکیا۔اللہ
سبحانہ وتعالیٰ نے حضور اکرم نورمجسم ﷺ کا ذکر اتنا بلند وارفع کیا جس کی
کوئی حد نہیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ تمام غلام جو آپ کی غلامی میں رہتے ہوئے
آپ کے ذکر کی ترویج اشاعت میں مصروف ہوئے ،اللہ رب العزت نے ان کا ذکر بھی
بلند کیا پھر ان غلاموں کے غلام اور اس طرح جو بھی شخص اس سلسلہ اور کڑی
میں ملتا گیا وہ بھی اس ہی فیضان کے سبب شہرت کے بام عروج پرجاپہنچا۔ ان ہی
غلاموں (جو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تو غلام ہیں لیکن ہمارے سردار) میں
سے ایک شخصیت ڈاکٹرحافظ محمد فضل الرحمٰن الانصاری علیہ الرحمہ کی
تھی۔جنہیں غلامی رسولﷺ اوراتباع رسولﷺ کی وجہ سے وہ شہرت ملی کہ دنیا کے
تمام براعظموں میں آپ کا نام عزت واحترام سے لیاجانے لگا۔
آپ علیہ الرحمہ کو ملنے والی شہرت سے مراد وقتی ، عارضی اورفانی شہرت نہیں
ہے۔ بلکہ یہ شہرت دائمی و ابدی ہے۔یہاں شہرت کی تعریف اور اس کی اقسام
کاتذکرہ کرنا غیر ضروری نہ ہوگا تاکہ ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کی شہرت کی
کیفیت مزید اجاگر ہوسکے:
"شہرت کی دوقسمیں ہیں ۔ایک شہرت طلب ،کوششوں اورآرزوؤں کے نتیجہ میں حاصل
ہوتی ہے کہ فرد کا اس کامتمنی ہوتاہے۔ شہرت کی یہ حیثیت آزمائش کی سی ہے کہ
فرد کو اس کے نفس کے رحم وکرم پرچھوڑدیاجاتا ہے ، اس سے اس کانفس شاداں
وفرحاں ہوتاہے۔اس شہرت کے نتیجہ میں جو کردار وجود میں آتاہے اس کی علامتیں
یہ ہیں ،فرد عام لوگوں سے کٹ جاتاہے، بڑے لوگوں تک محصورہوجاتاہے ،اسے اپنی
حفاظت کی فکر لاحق ہوتی ہے، وہ پہروں میں رہنے لگتا ہے، وہ ذہنی نفسیاتی
طور پر احساس برتری کا شکار ہوجاتاہے ، وہ بنگلوں میں رہتاہے۔آسائش کی
زندگی گزارتا ہے ، وہ دولت سے کھیلنے لگتا ہے ۔ اس سے اللہ کے بندوں کا
ملنا غیرمعمولی طورپر دشوار ہوتاہے ، وہ مزید شہرت کے لئے فکرمند رہتاہے
اوراپنے متعلقین کے ذریعہ اس کی منصوبہ بندی کرتا رہتاہے۔ یہ شہرت آفت ہے ،
جو فرد کو اپنی داخلی وباطنی بیماریوں کے ادراک سے محروم کردیتی ہے۔
دوسری شہرت اللہ کی طرف سے انعام ہوتی ہے جو اللہ ،اپنے خاص الخاص دوستوں
کو عطا فرماتارہتاہے ، اس شہرت سے مقصود یہ ہوتاہے کہ لوگ اللہ کے دوست سے
محبت کرکے ، اس سے زیادہ سے زیادہ روحانی طورپراستفادہ کرسکیں،اس کے فیوض
وبرکات سے بہرہ ور ہوکر،تقویٰ اورتزکیہ کے مراحل طے کریں۔
اللہ کی طرف سے انعام کے طور پر حاصل ہونے والی اس شہرت کی علامتیں یہ ہیں۔
ایسا فرد عجز وانکساری کا مجسمہ ہوتاہے، اس پر فنائیت طاری ہوتی ہے ۔ وہ
اپنے آپ کو لاشے تصورکرتا ہے۔ اس سے ملنا آسان ہوتاہے، اس کی طرزمعاشرت
سادہ ہوتی ہے ۔ وہ زہد وفقر کا صاحب ہوتاہے اوردولت سے اپنا دامن بچانے کے
لئے کوشاں ہوتاہے ۔ وہ ہرطرح کی برتری وہ چاہے علمی ہو یا روحانی ، اس طرح
کے احساسات برتری سے محفوظ ہوتاہے۔ وہ اللہ کے بندوں کے لئے شفیق
ہوتاہے۔قرآن نے اس طرح کے خوش نصیب افراد کے بارے میں فرمایا ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ
الرَّحْمٰنُ وُدًّا(سورہ مریم:96)
جو لوگ ایمان لائے اورنیک عمل سرانجام دیئے اللہ ان کی محبت (مخلوقات کے دل
میں) پیداکردے گا۔"
(ملفوظات علامہ محمد یوسف بنوریؒ)
اس اقتباس کے آخر میں جو آیت مبارکہ پیش کی گئی ہے اس کی تفسیر میں یہ حدیث
مبارکہ پیش کی جاسکتی ہے۔
إِذَا أَحَبَّ اللهُ الْعَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ
فُلَانًا فَأَحْبِبْهُ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي
أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللَٰهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ
فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي
الْأَرْضِ۔( صحیح بخاری)
"جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتاہے تو جبرئیل کوپکارتا ہے کہ بیشک
اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتاہے پس تم اس سے محبت کرو،پس جبریل علیہ
السلام اہل سماء میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا
ہے پس تم اس سے محبت کرو،پس اہل سماء اس سے محبت کرتے ہیں پھر اس کی محبت
کو زمین میں بھی قبول عام مل جاتاہے۔"
جب اللہ رب العزت کسی کی محبت مخلوقات کے دل میں پیداکردے اورجبرئیل علیہ
السلام اس کی منادی کریں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ شخص مرجع الخلائق نہ
ہو۔اسی تناظر میں آپ علیہ الرحمہ کو ملنے والی شہرت پر غور کیا جائے تو آپ
کی شہرت طلب نہیں اسی محبت الٰہی کے سبب عطیہ خداوندی ہے، یہ آپ ؒ کے لئے
بطورآزمائش نہیں بلکہ بطورانعام ہے،اس کی بنیاد امارت ومالداری نہیں بلکہ
الفقرفخری پر قائم ہے،اس کا نتیجہ عوام الناس سے دوری نہیں بلکہ مرجع
الخلائق کے منصب پر سرفرازی ہے،اس کی غرض اپنی اور اپنے متعلقین کی فکر
نہیں بلکہ فکرِ تبلیغ اسلام ہے۔غمِ مال واقتدار نہیں بلکہ غمِ ملت ہے۔ یہی
وہ شہرت ہے جوابدی، لافانی اورلازوال ہے۔ جس کا خاتمہ موت بھی نہیں کرسکتی
ہے۔
آخرمیں یہاں دواشعار پیش خدمت ہیں جوجناب سیدنظرزیدی صاحب نے علامہ
محمداقبال علیہ الرحمہ کی خدمت میں پیش کئے ہیں لیکن یہ اشعارآپ علیہ
الرحمہ پر بھی مِن وعن صادق آتےہیں:
خواجۂ یثرب نے جن ذروں کوبخشی آب و تاب
آشنا تھا اُن سے تیرا دیدۂ بیدار بھی
تو بنا اس بزم فاران کی عظمت کا نقیب
تیری تحریروں میں دیکھے ہم نے یہ انوار بھی
آپ علیہ الرحمہ کی تحریروں وتقریروں کا توکیاکہنا آپؒ کے طلباء میں بھی
انوارصورتاً ومعناً پائے جاتے ہیں۔
|