استاد جی

استاد! ایک جامع لفظ ہے۔شفقتیں ،محبتیں ،قربانیاں سمیٹے ہوئے ۔ حضرت استادجی اپنی علالت کے ساتھ، جامعہ کی ذمہ داریاں ،بیرون ممالک اسفار اور ناجانے کتنے منوں غموں کا بھار اٹھائے ہوئے ہیں۔امت مسلمہ کے اجتماعی مسائل کا غم حضرت کو بے چین رکھتا ہے۔ مسلمانوں کا خون ناحق آپ کو بے قرار کردیتا ہے۔ حضرت استاد جی کی قدر وہی جانتے ہیں جن کی رگوں میں آپ خون کی طرح رواں ہیں۔آپ پر حملے نے ان سارے قلوب کی دھڑکنوں کو روک دیا تھا۔پل بھر کے لیے تو جیسے لگا آسمان گر پڑاہو۔زمین رک گئی ہو ۔ہوا کی سرسراہٹ نے خاموشی کا پردا اوڑھ لیا ہو۔اسلام کی ہری بھری شاخ سے پرندے غم سے اڑ گئے ہوں اور آنسوؤں نے آنکھوں کا ساتھ دینا چھوڑ دیا ہو۔سانسیں باہر کی باہر اور اندر کی اندر جامد ہو گئی ہوں ۔عالم بدحواسی میں جو جہاں جس حالت میں تھا اس کی زندگی کی ساری رونقیں وہیں اختتام پذیر ہو گئیں تھیں۔پھر ایک خبر آئی کہ استاد جی باحفاظت ہیں ۔لیکن میڈیا پر غیر اعتمادی نے دل مضطرب کو قرار نہ دیا ۔سوشل میڈیا کے توسط سے برادرم سعود عثمانی کا پیغام ملا تو سر سجدہ شکر کے ساتھ دربار خدا وند کریم میں جھک گیا ۔پھر اسی دن بعد نماز عصر عالم اسلام کایہ پھول اپنی آب و تاب کے ساتھ خوشبو سے ماحول کو معطر کیے ہوئے تھا۔استاد جی کے حوصلے پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکے تھے ۔آواز میں مجاہدانہ،فاتحانہ رمق تھی ۔جسے دیکھ کر دشمن اسلام کو واضح پیغام ملاہوگا۔اور وہ خاک چاٹنے پر مجبور ہوا ہوگا۔

کوئی چور اچکا باغ سے قیمتی پھول توڑنے کی کوشش کرے تو کیا مالی اسے معاف کر دے گا۔بالکل نہیں ۔مالی اورزیادہ خبردار، ہوشیار، بے دار ہوجائے گا۔کیوں کہ دشمن پہلی ناکامیابی کو کامیاب کرنے کی لیے دوبارہ سردھڑ کی بازی لگائے گا ۔ایسے ہی مذموم مقاصد لے کر اسلام دشمن قوتوں نے عالم اسلام کی عظیم روحانی پھلواری میں نقد لگانے کی کوشش کی۔عالم اسلا م کو جس شخصیت نے اپنے علم و عرفان کی خوشبو سے معطر کیا ہوا ہے ،کند ذہن عناصراس کومٹانے کے درپے ہوئے۔ الحمد اﷲ اﷲ نے حضرت استاد جی کی حفاظت فرماکر ہمیں یتیم ہونے سے بچا لیا۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجو د حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب کے چاہنے والوں ،محبت کرنے والوں ،شاگردوں پہ ان پرحملے کی خبر قیامت بن کرگری۔اس صدمے کی کیفیات کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔اس وقوعہ نے امت مسلمہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے۔

حضرت استاد جی سے براہ راست شرف تلمذ حاصل کرنے والے خوش نصیب ہزاروں میں ہیں ۔جنہوں نے حضرت دامت برکاتہم العالیہ کے بحر علم سے تفسیر ،حدیث ،فقہ ،اصول فقہ ،منطق کے سمندر سے جی بھر پیاس بجھائی ہوگی ۔اس کے علاوہ پوری دنیا میں آپ کے بلاواسطہ شاگردوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔حضرت استاد جی کی معتدل شخصیت کا ثانی ملنا ایسا ہی ہے جیسا آسمان کو ہاتھ لگانا۔آپ کی چاہت کی زندہ مثال آپ کے سفر ناموں کا مارکیٹ میں دھڑادھڑ بک جانا ہے۔آپ کا ڈرئیور جس نے آپ کی خاطر اپنی جان کی بازی لگاکر استاد جی کی جان بچائی، ہم پر اس کا بہت بڑا احسان ہے۔مسلمان اس کے مقروض ہیں۔وہ آپ کی صحبت میں زندگی کے بیس سال دے چکا ہے ۔اس نے استاد جی پر چلنے والی گولیوں کو اپنے سینے پر لے کر بے مثال نقش چھوڑے ہیں۔ ایسے ہزاروں ہیں جن کی دعاؤں کے طفیل آپ آج ہم میں موجود ہیں۔دنیا کے کونے کونے سے ایسے اویس قرنی بھی زندہ ہوں گے جنہوں نے صرف آپ کے علم سے اپنی زندگیوں کو روشن کیا ہوگا۔ان سب کی دعائیں استاد جی کے ساتھ ہیں۔

حضرت استاد جی پر جان سے زیادہ عقیدت کے پھول نچھاور کرنے والوں میں مرد، عورت، بچے ،بوڑھے ،جوان، مائیں، بہنیں سب ہی شامل ہیں۔ہر ایک آپ سے محبت کا حق ادا کرنا چاہتا ہے۔یہ وقت بھی ایسا ہے کہ آپ کی دعائیں ہمارے لیے ،پوری امت مسلمہ کے لیے سرمایہ آخرت ہیں۔دشمن نے قبیح فعل کر کے اپنے ناپاک عزائم اظہار کیا ۔اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اسلام اورپاکستان کو آپ کی جدائی کا دکھ دے کر ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔لیکن وہ یہ بھول گیا کہ حضرت استاد جی کی حفاظت رب کریم کے فرشتے کررہے تھے۔مادی وسائل آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔اور نا بگاڑ سکیں گے ۔ان شاء اﷲ
 

Ansar Usmani
About the Author: Ansar Usmani Read More Articles by Ansar Usmani: 99 Articles with 87463 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.