بچے بنی نوع انسان کی نسلِ نو ہیں۔ دیگر اَفرادِ
معاشرہ کی طرح بچوں کا بھی ایک اَخلاقی مقام اور معاشرتی درجہ ہے۔ بہت سے
ایسے اُمور ہیں جن میں بہ طور بنی نوع انسان بچوں کو بھی تحفظ درکار ہوتا
ہے۔ اس کے ساتھ یہ اَمر بھی قابل غور ہے کہ چوں کہ بچے بالغ نہیں لہٰذا بہت
سی ایسی ذمہ داریاں جن کے بالغ لوگ مکلف ہیں، بچے ان کے مکلف نہیں ہو سکتے۔
گو انہیں کئی حقوق مثلاً رائے دہی، قیام خاندان اور ملازمت وغیرہ حاصل نہیں
مگر اپنی عمر کے جس حصے میں بچے ہوتے ہیں اس میں انہیں اس تربیت اور نگرانی
کی ضرورت ہوتی ہے کہ مستقبل میں وہ ان حقوق کی ادائیگی کما حقہ کر سکیں۔ یہ
اَمر ہی بچوں کے حقوق کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔ دورِ جدید میں بچوں کے
حقوق کا تحفط کرنے والی نمایاں دستاویز United Nations Convention on the
Rights of the Child-1980 ہے۔ جس میں بچوں کے بنیادی انسانی حقوق کا ذکر
کیا گیا ہے۔
وطن عزیز پاکستان کو جن سنگین سائل کا سامنا ہے اْن میں ایک بڑا مسئلہ بچوں
کے حقوق کا بھی ہے جس سے مفر گویا اپنے مستقبل کی فکرسے فرار کے مترادف ہے۔
تمام مسائل کا حل حکومت کی ذمہ داری ہے ایک غیر صحت مند انہ سوچ کے سوا کچھ
نہیں۔ معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرتی مسائل سے بساط بھر
نمنٹے کی کوشش کر کے اپنے پاکستانی ہونے کا حق ادا کرے۔
22کروڑکی آبادی پر مشتمل اس ملک میں لاکھوں خاندان بچوں کی ضروریات پوری
کرنے سے قاصر ہیں۔ جبکہ کروڑوں بچے ایسے بھی ہیں جنہیں تعلیم اور صحت تو
کیا دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ افراط و تفریط کی چکی میں پسنے والے
بچوں کا پْرسان حال کون بنے گا۔ ؟کیا ان بچوں میں اقبال کا شاہین کوئی نہیں
ہوگا؟ ایک اندازے کے مطابق کرہ ارض پر بسنے والے تقریباََ ایک کروڑ سے زائد
بچے بھوک اور افلاس اور دہشت گردی کی وجہ سے مہاجرت کی زندگی گزارنے پر
مجبور ہیں۔ جو کہ اپنے گھروں ، گلی ، محلوں اور فٹ پاتھوں پر ننگ و افلاس
کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ موسم کا بے رحم سورج جن کے جسموں کو جھلسا دیتا
ہے جو سردیوں میں لہا فوں کی بجائے ماؤں کے جسم اوڑھ کر سوتے ہیں اور ایسی
سینکڑوں مائیں آئے دن لقمہ اجل بن جاتی ہیں اور اْن کے بچے حالات کے سنگ
گراں سے سر ٹکرا ٹکر کر مر جاتے ہیں۔ یہ ان بچوں کی موت نہیں دراصل ہمارے
مستقبل کی موت ہے۔ عالمی اور قومی سطح پر ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کی
فلاح و بہبود، تعلیم و تربیت اور صحت و تندرستی کے منصوبہ جات کو ترجیحی
بنیادوں پر عمل میں لانا ہوگا۔ تاکہ آ فاتی سطح پر مستقبل کو محفوظ کیا جا
سکے۔ نسل نو کے لیے قابل تقلید تاریخ رقم کرنے کے لیے حکومت وقت کے اراکین
کو اعلیٰ کردارا ور شائستہ اخلاق کا عملی نمونہ پیش کرنا چا ہیے کیونکہ آج
کے حکمران کو باقاعدہ نسل نو کے نصاب کا حصہ بننا ہے بچوں کے عالمی دن کی
مناسبت سے حالات حاضر ہ کے تناظر میں اگر بنظر غا ئر سے موازنہ کیا جائے تو
یہ کہنا بے جانہ ہوگا-
مفکرین کا کہناہے کہ بچوں کو سکول بھیجنے سے پہلے انہیں کہانیاں سنایا
کریں۔ آج کے ٹیکنالوجی دور میں بچوں کو کہا نی سنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ
انہیں اپنے حکمرانوں پر فلمائی ہوئی کہانیاں سننے اوردیکھنے کوباسانی میّسر
ہیں۔ایسے میں کہنا ضروری ہے کہ نسل نو کو محفوظ ، خوشگوار اور خوبصورت
حال،شاندارمایہ ناز ماضی اور کامیاب و کامران مستقبل کی نوید دیجئے کیونکہ
آج کے بچے مستقبل کے حکمران ہیں۔ ان کی بہتر تعلیم و تربیّت مستقبل کی
بہتری اور ترقی کی ضامن ہے۔
علماء اکرام کے مطابق اسلام نے بچوں کو بھی وہی مقام دیا ہے جو بنی نوع
انسانیت کے دیگر طبقات کو حاصل ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
بچوں کے ساتھ جو شفقت اور محبت پر مبنی سلوک اختیار فرمایا وہ معاشرے میں
بچوں کے مقام و مرتبہ کا عکاس بھی ہے اور ہمارے لیے راہِ عمل بھی۔ اسلام
میں بچوں کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اسلام نے بچوں
کے حقوق کا آغاز ان کی پیدائش سے بھی پہلے کیا ہے۔ ان حقوق میں زندگی،
وراثت، وصیت، وقف اور نفقہ کے حقوق شامل ہیں۔ بچوں کے حقوق کا اتنا جامع
احاطہ کہ ان کی پیدائش سے بھی پہلے ان کے حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے
دنیا کے کسی نظامِ قانون میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
افسوس کا مقام یہ کہ حالیہ ہونے والے سانحہ ساہیوال کے بعد بھی پنجاب پولیس
کے کئی افسروں نے اپنے آپ کو تبدیل نہیں کیا بلکہ اپنے بیانات سے دنیا کی
بہترین فورس ’’ پنجاب پولیس ‘‘ کوملک دشمنوں کی طرح بدنام کرنے میں اپنے
حصہ ڈالا۔بتایا جاتا ہے کہ گوجرانوالہ میں پولیس اہلکار کی جانب سے بچے کو
تشدد کرنے کی ویڈیو منظر عام آنے کے بعد عوامی ردعمل پر ملزم کانسٹیبل ندیم
کو گرفتار کرنے کا حکم دیاگیا ۔میڈیا رپورٹس پر نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلی
پنجاب عثمان بزدار نے آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی سے واقعے کی رپورٹ طلب
کرلی۔ دوسری جانب آر پی او گوجرانوالہ نے دعوی کیا ہے کہ تشدد کا شکار لڑکا
پولیس اہلکار کے کمسن بیٹے سے زیادتی کررہا تھا، کانسٹیبل ندیم نے ملزم بچے
کو رنگے ہاتھوں پکڑلیا جس پر تشدد کا نشانہ بنایا تاہم واقع کی تحقیقاتی
کمیٹی بنا دی گئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہواآر پی او گوجرانوالہ نے ملزم
کانسٹیبل ندیم کو بری ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا اور مظالم بچے کو مجرم
ہونے کی گواہی دے دی ہے ۔کانسٹبل ندیم کاکون سفارشی ہے یہ وقت ہی بتائے گا
لیکن بچے پر تشدد کا معاملہ پر گوجرانوالہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ایم
این ایز ، ایم پی ایز سمیت سیاسی ، سماجی ، مذہبی جماعتوں کے لئے لمحہ
فکریہ ہے ۔ اور آرپی اوگوجرانوالہ کو بھی اپنے اس بیان پر نظرثانی کرنی
چائیے کیونکہ وہ گوجرانوالہ ڈویژن سمیت وطن عزیزمیں رہنے والے ہر بچے کے
حقوق کے محافظ ہیں۔کیونکہ آرپی او گوجرانوالہ کی قومی خدمات ،ایمانداری کی
بناء پر شہری خراج تحسین کرتے ہیں ۔کہی ایسا نہ ہو 99کارناموں کے بعد ایک
بیان سب کچھ بہا لے جائے ۔
|