اسلام ایک ایسا دین ہے جو اپنے ماننے والوں کی ہمہ وقت
رہنمائی کرتا ہے۔ میرے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا انما انا لکم مثل
والد میرے غلامو! میں تمہارے لیے باپ کی جگہ پر ہو۔ جب تم سے کوئی واش روم
میں جائے تو پہلے اپنا بایاں قدم آگے رکھے۔ جس طرح ایک باپ اپنے بیٹوں کو
سمجھاتا ہے؛ بڑی سے بڑی بات بھی سمجھاتا ہے اور چھوٹی سے چھوٹی بات بھی
سمجھاتا ہے۔ تو میرے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں تمہارے لیے
باپ کی جگہ پر ہوں۔ تو جب تم واش روم میں جاؤ تو اپنا بایاں قدم آگے رکھو۔
کہ مَیں تمہیں ہر طرح کی تعلیم دینے آیا ہوں۔
میرے اور آپ کے آقا و مولیٰ حضور نبی رحمت صلی اﷲ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: سچائی طمانیت ہے؛ یہ اندر کا اطمنان ہے، یہ باطن کی روشنی ہے۔ جو
کذب ہے، جو جھوٹ ہے وہ عدم اطمنان ہے، بے چینی ہے، اضطراب ہے۔ ہر وقت ایک
کھٹکا لگا رہتا ہے کہ میرا جھوٹ پکڑا جائے گا۔ ہمیں سچ بولنے کی تلقین کی
گئی اور یہ بھی ارشاد فرمایا گیا کہ سچ انسان کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے
اور نیکی انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور اس کے بر عکس جھوٹ انسان کو
گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔
مومن تو سچائی کا دوسرا نام ہے۔ آقا کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود ارشاد
فرمایا الا انبئکم باکبر الکبائر؟ صحابہ! تمہیں بڑے بڑے گناہوں کی خبر نہ
دوں؟ صحابہ نے عرض کی کیوں نہیں یا رسول اﷲ ! آپ ارشاد فرمائیں۔ تو حضور نے
فرمایا کہ ایک؛ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ۔دوسری بات؛ کسی انسان کا
قتل کرنا۔ تیسری بات؛ والدین کی نا فرمانی کرنا۔ جب حضور یہ فرمارہے تھے تو
حضور نے ٹیک لگائی ہوئی تھی؛ جب یہ چوتھی چیز بیان فرمانے لگے تو حضور ٹیک
چھوڑ کے آگے ہوگئے۔ کہ یہ کتنی اہم بات تھی؛ فرمایا: الا و قول الزور
فرمایا سن لو! جھوٹی بات کرنا۔
تو جو گناہ بڑے بڑے ہیں، جہنم میں لے جانے والے ہیں، ہلاک کردینے والے ہیں؛
یہ چار گناہ ان میں سے بھی آگے بڑے ہیں۔ جھوٹوں پر اﷲ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔
لَعْنَۃُ اللّٰہِ علیٰ الْکَاذبِیْن۔ باقاعدہ جھوٹوں کا ذکر کرکے ان پر
لعنت کی گئی ہے۔ اس لیے مومن اپنی زندگی کے اندر سچ ہی بولتا ہے ۔ ہاں !
کبھی وہ ایسے مشکل وقت میں پھنس جائے تو جہاں اس کے لیے جان بچانا مشکل ہو؛
وہاں اس کو اجازت فراہم کی گئی ہے کہ اگر کسی عضو کے تلف ہونے کا یا جان کے
ضائع ہونے کا ڈر ہو تو بعض مواقع پر اسے اجازت دی گئی ہے۔ یا دو آدمیوں کے
درمیان صلح کروانا پڑ جائے کہ اس وقت آپ کوئی ایسی بات بولیں کہ یار مَیں
تو فلاں سے ملا تھا وہ تیرے بارے میں اتنے اچھے جذبات رکھتا ہے۔ تمہاری
خوامخواہ کی لڑائی ہے اُس کے دل میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اُس نے تو یہ یہ
مجھ سے باتیں کی ہیں۔ تو یہ کہے گا نہیں نہیں! میرے دل میں بھی کچھ نہیں ہے
۔ پانچ سات باتیں وہ بھی کرے گا تو یہ اُس کو جاکے بتائے گا ۔ تو یہ ہوگا
کہ دونوں آپس میں جُڑ جائیں گے، قریب ہوجائیں گے…… لیکن؛ وہ سچ جو دونوں کو
آپس میں توڑ دے، دو انسانوں کی تفریق کردے ؛ وہ سچ بھی نقصان دہ ہے۔ اس لیے
کہ مقصد خیر ہے، مقصد بھلائی ہے۔
ہمیں سچ بولنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اپنی ساری زندگی کو سچ کے نور سے مزین
کریں اور زندگی کے کسی مرحلے کے اندر بھی ہمیں جھوٹ کی اجازت نہیں دی گئی۔
ہم بعض معاشرتوں کی رسوم اپنے سینے لگا لیتے ہیں اور یہ یکم اپریل کا دن یہ
جھوٹ بولنے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اور اس میں لوگ جھوٹ بولیں گے
ہمارا میڈیا بھی ایسی پھلجڑیاں چھوڑے گا۔ اسی طرح ہمارا پرنٹ میڈیا بھی بعض
اوقات کوئی خبر لکھ دیتا ہے اور آخر میں لکھتا ہے کہ یہ اپریل فول ہے……
میاں! تم خود فول بنے ہوئے ہو، بے وقوف بنے ہوئے ہو، لوگوں کو بے وقوف کس
لیے بنارہے ہو؟ تم خود بے وقوف بن گئے ہو۔
اپنی زندگی کو ہمیشہ سچ سے مزین کیجیے۔ سچوں کے ساتھ ہونے کا کہا گیا۔ سچ
کے ساتھ رہنے کی تلقین کی گئی۔ سچ طمانیتِ قلب کا سبب ہے۔ سچ نیکی کی طرف
لے جاتا ہے۔ نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ جھوٹ؛ باطن کی غلاظت ہے اور
فرشتوں کی دوری کا سبب اور ذریعہ ہے۔ اور رب کی رحمتوں سے بندوں کو دور
کردیتا ہے۔ اﷲ سچوں کو پسند کرتا ہے؛ جھوٹوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہ تھوڑی
سی زندگی اﷲ نے ہمیں ودیعت کی ہے؛ اس کو سچائی کے ساتھ اگر ہم گزاریں گے تو
ہماری زندگی طمانیت کے نور سے ہمیشہ منور ہوتے ہوئے گزاریں گے۔ ہم ایک راحت
بھری زندگی گزاریں گے۔ لیکن اگر ہم جھوٹ بولیں گے تو پھر جھوٹ سے ہماری
زندگی کے اندر ایک تنگی، ایک اضطراب اور ایک بے چینی ہوگی۔ جو کبھی بھی
ہمارا دامن نہیں چھوڑے گی۔ اﷲ ہمیں ہر مرحلۂ حیات میں سچ کو نبھانے کی، سچ
بولنے کی، سچی بات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی
اﷲ علیہ وسلم!
۳۱؍ مارچ ۲۰۱۸ء(ماخوذ از افاداتِ مصطفائی،زیرِ ترتیب)
|