28مارچ 2019ءکی نسبتا" ہلکی گرم دوپہر کو سیالکوٹ،و
سمبڑیال کی قریب ساری صحافی برادری ، پیشتر سماجی و انسانی حقوق کے لئے کام
کرنے والی تنظیموں کے نمائندے اور اہل علاقہ کا جم غفیر بیگوالہ میں جمع
تھا ۔ 27 مارچ 2018ء کو صبح دس بجے کے قریب اسی گاوں کی یونین کونسل کے
برآمدے میں نوائے وقت کے نمائندے نوجوان صحافی کو اس وقت کی موجودہ حکومت
کے یو سی چئیرمین نے قتل کردیا تھا ۔واضح رہے کہ قتل ہونے سے پہلے ذیشان
اشرف (مقتول صحافی ) نےپہلے پولیس اور پھر بعد میں ضلعی چیئرپرسن محترمہ
حناء ارشد وڑائچ صاحبہ کو ساری صورتحال بتا کر پولیس سے موقع پر پہنچنے کی
درخواست کی تھی۔ اگلے روز ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں شہید صحافت کو اسی
گاوں میں سپردخاک کردیاگیاتھا۔ اور اب ٹھیک ایک سال بعد ان کی پہلی برسی پہ
بھی لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہے ، ان کے والدین غم سے نڈھال اور جوان بھائی
تھکے تھکے سے محسوس ہوئے ، لوگ اداس ہیں اور انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں ۔
سال ،2018،19کا سب سے مشہور اور سب سے ذیادہ خبروں کی زینت بننے والا یہ
کیس ہے ، اخبارات ، ٹی وی چینلز ، ویب چینلز، سوشل میڈیا ٹیوٹر، واٹس ایپ
فیس بک اور یو ٹیوب ہر پلیٹ فارم پہ عام لوگوں نے کھل کر مقتول کے حق میں
آواز اٹھائی ، اپنی اہمیت و شہرت کے لحاظ سے یہ ملک کا اہم ترین کیس ہے ۔
لیکن افسوس آج بھی قاتل مفرور ہیں ، ان کا کوئی پتہ نہیں ، پولیس اپنی تمام
تر مستعدی کے باوجود قاتلوں کا سراغ لگانے میں ناکام ہے ، ابتداء میں پولیس
نے کچھ گرفتاریاں کی بھی تھیں تو بعد میں ملزمان ضمانت پہ رہا ہوگئے تھے ،
شہید کی برسی پہ میڈیا کا دباو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس نے چند دن پہلے
دوبارہ ملزم عمران کے بہنوئی کو گرفتار کیاہے ۔ سابق چیف جسٹس کی ذاتی
دلچسپی اور میڈیا کے شور شرابے کے باعث پولیس نے کچھ افراد گرفتار تو کئے
لیکن اس کیس میں ابھی تک کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوسکی۔ مرکزی ملزم عمران
اسلم چیمہ کہاں ہے اس کا جواب شائد ابھی کوئی نہیں دے سکتا ۔ سیالکوٹ کے
حالیہ ڈی پی او امیر عبداللہ خان نیازی نے عہدہ سنبھالتے ہی مقتول صحافی کے
گھر جاکر قاتلوں کی جلد گرفتاری کا وعدہ کیا تھا جو ابھی تک پورا نہیں
ہوسکا۔ برسی کے موقع پر صحافیوں، وکلاء اورشہریوں کی کثیر تعداد جمع تھی ،
سب پرامن تھے لیکن سب کا مطالبہ ایک ہی تھا کہ قاتلوں کو جلد کیفر کردار تک
پہنچایا جائے ، اور آئیندہ ریاست کے چوتھے اہم ستون کو تحفظ فراہم کیا جائے
۔
چئیرمین پریس کلب سمبڑیال نعمان اکبر گھمن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے
ہوئے کہا " ذیشان ہمارا بہت اچھا دوست تھا ، اس کے جانے کا ہمیں بھی اتنا
ہی غم ہے جتنا کہ اس کے بھائیوں کو " انہوں نے پولیس کی کارکردگی پہ مایوسی
کا اظہار کرتے ہوئےکہا" بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایک صحافی کے قاتل ابھی تک
گرفتار نہیں کئے جاسکے"۔
کراچی سے پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے جنرل سیکرٹری اور ڈان کے معروف
سینئرصحافی برادرم منصور احمد خان مانی نے ذیشان کی برسی کے حوالےسے بات
کرتے ہوئے قاتلوں کی جلد گرفتاری کا مطالبہ کیا اور اپنے ہر ممکن تعاون کا
یقین دلایا۔
لاہور سے ورلڈ کالمسٹ کلب کے جنرل سیکرٹری سینئر صحافی ناصراقبال خان (
ایڈیٹر روزنامہ الشرق) اور راولپنڈی سے برادرم طارق محمود ( ایڈیٹر نقش
حیات) نے بھی قاتلوں کی جلد گرفتاری اور پاکستانی قانون کے مطابق سزا دینے
کا مطالبہ کیا۔
برسی کے موقع پر موجود وکلاء برادری کے نمائندے راو شہزاد ایڈوکیٹ نے کہا "
یہ حکومت کی ناکامی ہے کہ اصل قاتل ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکے، اتنا اہم
ترین کیس ہے اور کارکردگی صفر ،حکومت جلد مجرم کو گرفتار کرے "۔
قارئین کرام ! ایک سال پلک جھپکتے گزر گیا لیکن اس اہم ترین کیس میں کچھ
بھی خاص پیشرفت نہیں ہو پائی ، ڈر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہزاروں لاکھوں
کیسز کی طرح اس کیس پہ بھی روائتی سستی اور نااہلی کی دھول نہ جم جائے ۔
قتل ہونے سے ایک دن قبل یعنی 26مارچ کی صبح ذیشان نے مجھ سمیت اپنے ہر دوست
اور عزیز کو واٹس ایپ پہ ایک میسج بھیجا تھا" تیرا فقیر ہوں مولا" اور اگلے
دن رب کا یہ عاجز بندہ اپنے مولا کے حضور پہنچ چکا تھا۔ لیکن اس کے قاتل آج
بھی کہیں کھلے گھومتے پھرتے پاکستانی قانون اور انصاف کا منہ چڑا رہے ہونگے
۔
|