ہماری سوچ ہمیں ترقی سے روک رہی ہے ۔

تاریخ گواہ ہے آج مغرب ہم پہ جو غالب ہے اس کے پیچھے ہماری غلط سوچ ہے ہم چیزوں کو ہمیشہ غلط انداز سے سمجھتے ہے ۔ تاریخ میں جتنے بھی سائسدان آئیں سب کے سب مسلم تھے اور ان کی لکھی ہوئ تیوریس وغیرہ ہم نہیں سمجھ سکے اور مغرب ہم پہ غالب آگیا ۔ اس تحریر میں ہماری سوچ کیوں غلط ہوئ کے بارے میں میں نے ریسرچ کر کے لکھا ہے ۔

ہم مسلمانوں کے لیے یہ ہی کافی ہے ہم آج بھی خودشناسی سے دور ہے یعنی خودی حاصل کیسے ہوئ تھی اور کس نے ہم سے ہماری پہچان چھین لی یہ تو سب جانتے ہے بتانا لازمی نہیں، میں یہاں کسی فردِ واحد کی وکالت نہیں کر رہا میں بات کر رہا ہوں سائنس کی کیوں کوئ جابر بن حیان پیدا نہیں ہوتا اور کس کی وجہ سے نہیں ہوتا یہ کوئ کیوں نہیں سوچتا ۔

ابن ترک نے اپنی زندگی رنج و عالم میں ڈال کر الجبرا پر کام کیا جس کا آج چکوری مساواتوں سے متعلق ایک باب دستیاب ہے۔ جسے سمجھنے کے لیے ہم انگریزوں کی لکھی ہوئ کتابوں پر گزارا کرتے ہے اسلیں علامہ اقبال نے کہا "" مغرب میں ہماری کتابیں مل رہی ہے ۔

الجاحظ نے وہ کام کیا تھا جس پہ ہمیں فخر کرنا چاہیں لیکن آج ہم شکاری بنے پھرتے ہے ۔

الجاحظ نے الہایات، حیوانیات اور فلسفہ میں تحقیق و تحاریر دیگر تاریخی دستاویزات سے ان کی قریباً دو سو کتب کا اندازہ لگایا گیا ہے جن میں سے تیس کے قریب ہی دستیاب ہو سکی ہیں لیکن جانداروں کے بارے میں اس ذمانہ میں بھی ذیادہ کچھ لکھا گیا جو کہ آج ہم بے رحمی سے ان نایاب جانوروں کا شکار شوق کے لیے کررہے ہے ہماری زوال کی وجہ اور کیا ہوسکتی ہے یہی ہے کہ ہم انسان ہونے کا غلط فایدہ اٹھاتے ہے جبکہ اس کے برعکس مغرب میں لوگ جانواروں کا خیال رکھتے ہے ہم مسلمان باتیں بناتے ہے کہ مغرب میں ماں باپ کو نکال کر کتُے بِلیاں پالتے ہے کوئ ہمارے شہروں میں جاکر دیکھے ماں باپ بچوں کے سامنے گالیاں دیتے ہے تاکہ بچے بھی گالی دینا سیکھے یعنی کہنا لازمی نہیں ہم پستی کی جانب جارہے ہے مجھے تو خوف ہے گلگت جیسا بھی ہے ٹھیک ہے کہی یہ ان شہروں کی۔طرح نہ بن جائیں جہاں چھوٹے بچوں کی طرح پیار و الفت سے دیکھنے والا چور اور بدکردار کہلایا جاتا ہے ۔

علی ابن ربان کا نام طب میں مشہور ہے لیکن مسلمان باہر جاکر علاج کرآتے ہے کیونکہ علی ابن ربان ہمارے نزدیک کسی فرقے کا فرد ہوگا ان کے نزدیک آیک مشہور شخص تھا جس کو پڑھنا ان کے لیے لازم تھا ۔

طب میں تحقیق و تحریر کی انہوں نے دنیا کا سب سے پہلا طبی دائرہ المعارف مرتب کیا لیکن خیر ہے ہم وہی کے وہی بےوقوف لوگ ہے ۔

مرد تو خیر ہماری عورتیں بھی علم حاصل کرنا چاہتی تھی افریقی ملک مراکش میں 859 عیسوی میں بننے والے درس گاہ اور اس عظیم کام کو انجام دینے والی ایک خاتون فاطمہ الفریہ کا نام لینے سے اب کیوں لوگ شرماتے ہے علم سے دور کرنا ہوتا ہے انہیں۔۔ خدارا ہمیں سوچ بدل کے چلنا ہے ۔

یہ جو فیس بک ہم استعمال کر رہے ہے اور کافر کافر کہہ کر خود کو خدا بنا رہے ہے منصور حلاج نے تو عشق و مستی میں بقا حاصل کی اور کہہ دیا انل حق لیکن جو آج مسلمان لگا رہے ہے کافر و مشرک کے نعرے اس سے لگ رہا ہے کہ۔ترقی بہت پیچھے رہ گیی ہے ۔

ہمارا سب سے بڑا سائنس دان ابن رُشد جس کا علم جلا دیا گیا اتنا رنج اس نے دیکھا اور ہم تک پھر بھی علم پہچانا بند نہیں کیا آج ہم۔قدر پھر بھی نہیں کر رہے الرازی اور بو علی سینا پہ کتنے ظلم ہوئے افسوس کے ساتھ لکھ رہا ہوں ظالم کوئ اور نہیں ہمارے اپنے مسلمان تھے ہم آیک ہو ہی نہیں سکتے ہمارا کام شاید آیک دوسرے کو غلط سابت کرنا ہے ۔اسلیں ہمارے معلم بغداد میں کوڈے کھاتے تھے بوعلی۔سینا کی طرح روپوش ہوتے تھے لیکن پھر بھی علم و ادب ہم تک پہچاتے تھے اب اس دور کو مغرب کا دور کہو یا سوچ بدلو کیونکہ۔ہم ابن آدم ہے تاریخ میں ہے کہ آدمؑ کا آیک بیٹا قاتل تھا ۔

کوئ تابان ستارہ ہی دیکھا دو جانان ۔۔۔۔۔
آب تو تابش کی تمنا کیے عرصہ بیتا ۔۔۔۔

شرابِ علم جو مغرب میں قید ہے سبیل۔۔۔۔
مجھ پہ لازم تھا ان کے ساتھ پیتا۔۔۔۔۔

Piyar Ali Sabeel
About the Author: Piyar Ali Sabeel Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.