پاکستان میں ناقص معیار زندگی

کہتے ہیں اگر کسی ملک کی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو اس ملک کے معیار زندگی دیکھنا چاہیے۔ معیار زندگی کیا ہوتا ہے اور یہ کیسے پتہ چلے گا؟ زندگی کے معیار کا اندازہ اس ملک کی بنیادی سہولتوں سے کیا جاسکتا ہے جیسے کے غذا اور صاف پانی کا ہونا، روزگار کی شرح کا زیادہ ہونا خواندگی کی شرح کا زیادہ ہونا ملک میں کرپشن کا کم ہونا، فی کس آمدنی کا زیادہ ہونا، اقتصادی اور سیاسی استحکام، سیاسی اور مذہبی آزادی، مجموعی ملکی مصنوعات (GDP)، ماحولیاتی معیار، آب و ہوا اور حفاظت جیسے مختلف عوامل شامل ہیں مختصر کر کے کہا جاے تو لوگوں کو زندگی گزارنے کے لیے تمام تر بنیادی سہولیات کا موجود ہونا اس ملک کے معیار زندگی کو ظاہر کرتا ہے۔ معیار زندگی کی اس ٹرم کو جغرافیائی طور پر موازنہ کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے مثلا کے دو شہروں یا دو ملکوں یہ دو قصبوں کا آپس میں موازنہ کرنا یا موجودہ سال کا گزرے ہوئے سال کا موجودہ سال سے موازنہ کرنا اور یہ جانچ کرنا کے معیار زندگی بہتر ہوا ہے؟ "یونائیٹڈ نیشنز ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس (HDI) کے مطابق زندگی کے معیار کو تعلیم، فی کس آمدنی اور زندگی گزارنے کے معیار جیسے عوامل کی بنیاد پر جانچا جاسکتا ہے۔ سوشیل پروگریس انڈیکس رپورٹ (2016) کے مطابق پہلی دنیا کے 25 ممالک کو معیار زندگی کے اعتبار سے فہرست میں شامل کیا گیا ہے جن میں یوکے، یو ایس اے، کینیڈا وغیرہ شامل ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق فہرست میں تیسری دنیا کے وہ ممالک بھی شامل ہیں جہاں ناقص معیار زندگی دیکھنے کو ملتا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان میں معیار زندگی بہت ناقص ہے غربت، غذائی کمی، زیادہ آبادی، صاف پانی کی قلت، بےروزگاری، کرپشن تعلیم کی کمی، صحت کا فقدان، اور مختلف بنیادی سہولیات زندگی کی قلت پاکستان میں عام دیکھنے کو ملتی ہے۔ ملک میں ایسے 13کروڑ لوگ بستے ہیں جو غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ان13 کروڑ لوگوں کی آمدنی 2 ڈالر یعنی 200 روپے سے بھی کم ہے۔ 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی بہتر معیشت کو22 بین الاقوامی اداروں نے سراہا مگر بات تو یہ ہے کہ اس وقت ملکی معیشت کو کیسے اطمینان بخش کہا سکتا ہے جہاں پرتھراور جنوبی پنجاب میں لوگ بھوک افلاس سے مر رہے ہوں یا خود کشی کر رہے ہوں۔ اس وقت 200 ممالک کی فہرست میں 130 ایسے ممالک ہیں جو1947 یا اسکے بعد دنیا کے نقشے پر وجود میں آئے ہیں۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان 130 ممالک میں پاکستان اقتصادی اور سماجی اشاریوں کے لحاظ سے سے سب سے زیادہ کمزور ہے حالانکہ پاکستان کے پاس جتنے قدرتی وسائل ہیں وہ بُہت کم ممالک کے پاس ہے۔انڈو نیشیاء، اسرائیل، سائوتھ کوریا، ملائیشیاء تقریباً ایک ہی وقت میں دنیا کے نقشے پر وجود میں آئے۔ مگران کی اچھی اور اہل لیڈر شپ کی وجہ سے وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور پاکستان کدھر ہے۔اس وقت انڈو نیشیاء کی فی کس آمدنی 12ہزار ڈالر، اسرائیل کی فی کس آمدنی 34 ہزار ڈالر، سائوتھ کوریا کی 35 ہزار ڈالر اور ملائشیاء کی 26 ہزار ڈالر جبکہ بد قسمتی سے پاکستان کی فی کس آمدنی ساڑھے تین ہزار ڈالر ہےجنوبی ایشیاء جہاں پر سب سے زیادہ غریب افرادرہتے ہیں یہاں پر بھی پاکستان کے اقتصادی اور سماجی اشاریے اس علاقے میں موجود سارے ممالک سے نیچے ہیں ۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پائیدار اقتصادی ترقی اور فی کس سالانہ آمدنی میں اضافہ کیلئے آئندہ 30 سال کے دوران پاکستان میں شرح پیدائش کو ایک فیصد یا اس سے کم رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی آبادی207.7 ملین افراد پر مشتمل ہے اور اگر شرح پیدائش کو کنٹرول نہ کیا گیا تو2047ء تک پاکستان کی آبادی400 ملین تک بڑھ جائے گی جس کے نتیجہ میں پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لائی جاسکے گی۔بےروزگاری جو کہ معیار زندگی کے ناقص ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے ملک میں بے روز گاروں اور کم تر نوکریاں کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ ملک میں مجموعی طورپر 8.2 فیصد ڈگری ہولڈرز (ایم اے ‘ ایم بی اے ‘ ایم فل اورپی ایچ ڈی ) جزوقتی یا اپنی صلاحیت کار سے کہیں نچلی سطح پر نوکریاں کررہے ہیں‘ ان کا تناسب پنجاب میں 7 فیصد ‘ خیبر پختونخوا میں 9.69 فیصد ‘ سندھ میں 8.35 فیصد اور بلوچستان میں 9.10 فیصد ہے‘ مردوں میں یہ تناسب 5.43 فیصد ڈگری ہولڈرزاور دیہات میں 4.06 فیصد ڈگری ہولڈرز جزوقتی ملاز م ہیں۔تاز ہ ترین سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک میں بے روز گار افراد کا تناسب مختلف شہروں میں مختلف ہے‘ سرکاری اندازے کے مطابق 6 فیصد اور غیر سرکاری اندازے کے مطابق 8 فیصد لوگ بے روز گار ہیں ‘ اس سے کہیں زیادہ لوگ اپنے شعبوں سے باہریا کم تر ملازمتیں کررہے ہیں‘ یہ بھی لاکھوں میں ہیں‘ 5 لاکھ ڈگری ہولڈرز کا بے روز گار ہونا بہت بڑا سماجی المیہ ہے‘ ان پر توجہ دیے بغیر ہم ترقی کی کسی منزل کے دعویدار ہو ہی نہیں سکتے‘ جو 6 فیصد بے روز گار ہیں‘ ان کو اگر 100 فیصد سمجھ لیا جائے تو ان میں ناخواندہ افراد 22.4 فیصد او رپڑھے لکھے 77.7 فیصد شامل ہیں۔ اگر بات کی جائے پاکستان میں تعلیم کے معیار کی تو تعلیمی فقدان بھی معیار زندگی کو ناقص بنادیتا ہے۔اکسویں صدی کے اس انفارمیشن ٹیکنا لو جی کے دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کی حامل ہے ۔تعلیم کے بغیر کسی قوم کی ترقی ممکن نہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ پچاس لاکھ بچے اسکول نہیں جا تے ۔ جس کی وجہ یا تو بھاری مقدار میں فیس کی وصولی ہے یا پھر تعلیمی اداروں کے قیام میں کمی ہے اسی وجہ سے غریب خاندان کے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے بجائے کام کرنے کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔بے روزگاری اورمہنگائی بھی شرح خواندگی کے اضافے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں وزارت تعلیم سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابقپاکستان کی شرح خواندگی 85% فیصد ہے۔مفت تعلیمی اداروں کمی وجہ سے 60سے 70 فیصد بچے پاکستان میں اسکول نہیں جاتے ۔دیہی علاقوں میں تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی اور نا ہی تعلیم کے فروغ کے لئے کوئی سیمینار یاپروگرامات کا انعقاد کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر دیہات کے لوگ تعلیم کی اہمیت سے اجاگر نہیں ہوتے۔جب تک ناقص تعلیمی پالیسیوں اور شرح خواندگی کے لئے کوئی مو ئثراقدامات نہیں کئے جائینگے تب تک شرح خواندگی میں اضافہ ناممکن ہے۔ علاج معالجے کی سہولیات ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں ہر شہری کو علاج معالجے کی یکساں سہولیات میسر ہیں۔ اس کے برعکس وطن عزیز کے شہريوں کی اکثريت اس حق سے محروم ہے۔ہمارے ملک میں بنیادی اور عام بیماریوں سے بھی بے شمار اموات واقع ہو جاتی ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے ڈاکٹروں کی تعداد بھی بہت کم ہے خاص کر دیہی علاقوں میں اور جو ڈاکٹر موجود ہیں انکی اکثریت گاؤں میں جانے کو تیار نہیں ہوتی۔گاؤں اور دیہاتوں ميں اتائیت، غیرتربیت یافتہ دائیوں، نیم حکیموں اور جعلی ڈاکٹروں کی بـھرمارہے۔ ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی تعداد بھی بہت کم ہے اور جو ہیں ان میں سہولیات، سازوسامان اور ادویات کا فقدان ہے جس کی وجہ سے عام بیماریوں کی وجہ سے بھی اموات کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے دیہاتوں اور شہر کے پسماندہ علاقوں میں لوگوں کو صحت کے بنیادی اصولوں کی آگاہی نہ ہونا بھی معیار زندگی کو بدتر بناتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق نو مولود بچوں کو بنا ہاتھ دھوئے ہاتھ لگانے سے بیماریوں کا شکار ہوتا ہےاور ہر 10 میں سے پانچ بچوں کی اموات بنیادی صحت کے فقدان کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں بڑھتی ہوئی بیماریوں کی شرح کی وجہ تعلیم اور آگاہی کا فقدان ادویات تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی کمی آلودگی صاف پانی کی قلت جیسی وجوہات کی بنا پر بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں ناقص معیار زندگی کی ایک وجہ مہنگائی بھی ہے ہر دس میں سے نو افراد متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی ایک ماہ کی آمدنی بیس سے پچیس ہزار سے شروع ھوتی ھے اور ہر سال اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے چیزیں اس کی پہنچ سے دور ہو جاتی ہیں مہنگائی کی وجہ سے نہ تو ایک عام انسان جو کہ مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتا ہے اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دیتا ہے نہ ہی بہتر زندگی ضرورت پڑنے پر علاج معالجہ بھی دشوار ہو جاتا ہے اس مہنگائی پر کچھ قابو پانے کے لیے ایک متوسط خاندان مختلف وسائل کو استعمال کرکے گھر کی آمدنی بڑھاتا ہے۔ ملک میں کرپشن بھی غریب طبقے کی ترقی کے لیے حکومت کی جانب سے شروع کیے جانے والے کاموں کو بھی روک دیتی ہے۔ کرپشن عام انسان کو اس کی قابلیت کے حساب سے ملنے والی نوکریوں کو بھی ان سے چھین لیتی ہے جس کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقہ ترقی نہیں کر پاتا, اور امیر امیر تر ہوتا جاتا ہے اور غریب غریب تر۔ کرپشن بنیادی حقوق کو پامال کرتی ہے، بالخصوص ان لوگوں کے بنیادی حقوق جو روزانہ 2ڈالر( قریباً 211 پاکستانی روپے) سے کم پر زندگی بسر کررہے ہیں، اور پوری دنیا کی ان خواتین کے بنیادی حقوق جو بچوں کی پرورش کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان جس کا شمار پہلے ہی دنیا کے سب سے کم آمدنی والے ممالک میں ہوتا ہے وہاں کرپشن سے جو شعبے سب سے زیادہ متاثر ہیں ان میں سرِ فہرست سرکاری ملازمتی شعبہ ہے جس میں کرپشن کی شرح چالیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس کے بعد عدلیہ اور ارکانِ پارلیمان ہیں جو بالترتیب چودہ فیصد کرپشن میں ملوث ہیں۔ اب اگر بات کی جاے ملک کے حالات سدھارنے کی یا بہتر کرنے کی تو اسکا ذمہداری کون لے گا کیا حکومت ملک کا معیار زندگی بہتر بنائیگی یا یہ ملک بس ایسے ہی چلتا رہے گا۔
 

Yusra Ahmed Ajmeri
About the Author: Yusra Ahmed Ajmeri Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.