ڈائنوسار کا خاتمہ٬ شہابِ ثاقب جب زمین سے ٹکرایا تو کیا ہوا؟

سائنسدانوں کو چھ کروڑ ساٹھ لاکھ برس قبل زمین سے شہابِ ثاقب کے ٹکراؤ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے ثبوت ملے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس ٹکراؤ کی وجہ سے ہی دنیا سے ڈائنوسارز ختم ہو گئے تھے۔
 

image


امریکی ریاست شمالی ڈکوٹا میں کھدائی کے دوران مچھلیوں اور درختوں کے فوسل دریافت کیے گئے ہیں جن پر وہ چٹانی اور شیشے کے ذرات موجود ہیں جو آسمان سے برسے تھے۔

ان باقیات کے پانی میں غرقاب ہونے کے بھی ثبوت سامنے آئے ہیں جو کہ شہابِ ثاقب گرنے کے بعد اٹھنے والی دیوقامت لہروں کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔

یہ تحقیق پی این اے ایس جرنل میں شائع کی گئی ہے۔
 

image


یونیورسٹی آف کنساس سے تعلق رکھنے والے رابرٹ ڈیپاما اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ کھدائی کا مقام تانس نامی جگہ پر ہے اور اس سے ان واقعات کی شاندار جھلک ملتی ہے جو شہابِ ثاقب کے زمین سے ٹکراؤ کے اندازاً دس منٹ سے چند گھنٹوں کے دوران رونما ہوئے ہوں گے۔

ان کے مطابق جب 12 کلومیٹر چوڑا شہابیہ اس مقام پر گرا جہاں آج خلیج میکسیکو ہے تو اس سے اربوں ٹن پگھلی ہوئی چٹانیں ہر سمت میں اڑی ہوں گی اور یہ ملبہ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے تک گیا ہو گا۔

تانس کے مقام پر موجود فوسل اس وقت کی نشانی ہے جب یہ ملبہ اچھلنے کے بعد دوبارہ گرا اور اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیتا گیا۔

مچھلیوں کے فوسل میں یہ ملبہ ان کے گلپھڑوں میں ملا جو ممکنہ طور پر سانس لینے کے عمل کے دوران ان کے جسم میں آیا ہو گا۔

اس کے علاوہ درختوں کے رکاز میں بھی اس ملبے کے ذرات ملے ہیں۔
 

image


ارضیاتی کیمیا کے ماہرین نے ان ذرات کا تعلق خلیج میکسیکو میں چکسولب کہے جانے والے مقام سے جوڑا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ملبہ چھ کروڑ 57 لاکھ 60 ہزار برس قدیم ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب شہابِ ثاقب زمین سے ٹکرایا تھا اور اس کے ثبوت دنیا کے دیگر مقامات سے بھی مل چکے ہیں۔

تانس میں جو باقیات دریافت ہوئی ہیں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان سے لگتا ہے کہ وہ پانی کی ایک بہت بڑی لہر میں بہہ کر آئی ہیں۔

اگرچہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ شہابِ ثاقب ٹکرانے سے ایک بہت بڑی سونامی نے جنم لیا تھا لیکن اس لہر کو خلیج میکسیکو سے شمالی ڈکوٹا پہنچنے میں کئی گھنٹے لگے ہوں گے۔
 

image


تاہم محققین کا خیال ہے کہ دس یا گیارہ درجے کے زلزلے سے ملتی جلتی شاک ویو نے اس سونامی کے آنے سے کہیں پہلے علاقے کے سمندر میں تلاطم برپا کیا ہوگا اور یہی پانی بڑی لہر کی شکل میں زمین پر آیا ہو گا۔ یہ لہر اپنے راستے میں آنے والی پر چیز کو بہا کر لے گئی ہو گی اور ان چیزوں کو اس مقام پر جا پھینکا ہو گا جہاں وہ اب دریافت ہوئی ہیں۔

ڈاکٹر ڈیپالما کا کہنا ہے کہ ’زمین پر چڑھ دوڑنے والی لہر نے تازہ پانی کی مچھلیوں، فقاریہ جانوروں، درختوں، شاخوں، تنوں سمیت بہت سی چیزوں کو یہاں تہہ در تہہ بچھا دیا۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’سونامی کو اس مقام پر پہنچنے میں کم از کم 17 گھنٹے لگے ہوں گے لیکن سیسمک لہریں اور پھر سمندری لہر یہاں چند منٹوں میں ہی پہنچ گئی ہو گی۔‘
 

image


پی این اے ایس جرنل کی یہ تحقیق جو آن لائن شائع ہو رہی ہے اس میں اس تحقیق کی مصنف، والٹر آلوارز جو کیلفورنیا کے ماہر ارضیات ہیں اور جنھوں نے اپنے والد لوئز آلوارز کے ساتھ اس نظریے پر کام کیا ہے ڈائنوسار کیسے ختم ہوئے کو سراہا گیا ہے۔

ان ارضیاتی ماہرین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ زمین کے قدیم جغرافیائی ادوار میں چونے کی تہہ میں اریڈیئم دھات کثرت سے موجود ہے جو شہاب ثاقب اور شہابی پتھروں میں پایا جانے والا جزوی عنصر ہے۔

اریڈیئم دھات کے ذرات تانس میں موجود باقیات سے بھی ملے تھے۔
 

image

پروفیسر آلوارز کا کہنا ہے کہ ’جب ہم شہاب ثاقب کے زمین پر گرنے سے ڈائنو سارز کے دنیا سے ختم ہونے کے مفروضے کی بات کرتے تھے تو یہ اریڈیئم دھات کی موجودگی کی بنا پر کہتے تھے جو کسی شہاب ثاقب یا دم دار ستارے میں پائی جاتی ہے۔ تب سے ہم اس کے ثبوت بتدریج اکھٹے کر رہے تھے لیکن مجھے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ہم اس طرح کی جگہ تک رسائی حاصل کر سکیں گے جہاں اس وقت کے جانوروں کے فوسل بڑی تعداد میں موجود ہوں۔‘

یونیورسٹی آف مانچسٹر سے تعلق رکھنے والے فل ماننگ نے، جو اس تحقیقی مقالے میں واحد برطانوی مصنف ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ دنیا کی اہم جگہوں میں سے ایک جگہ ہے، آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ کو ڈائنوسارز کے دنیا میں آخری دن کے بارے میں واقعی جاننا ہے تو اس کے لیے یہ ہی جگہ ہے۔‘
 
image

چکزولوب کا آتش فشائی عمل
ایک 12 کلومیٹر چوڑے پتھر نے 100 کلومیٹر تک زمین پر گڑھا بنا دیا جو 30 کلومیٹر گہرا ہے۔

یہ گڑھا پھر منہدم ہوگیا اور آتش فشاں کے دہانے کو 200 کلومیٹر تک پھیلایا اور چند کلومیٹر گہرائی تک محدود کیا۔

آج اس آتش فشاں کا زیادہ تر حصہ ساحل میں 600 میٹر زمین کی تہہ میں دفن ہو گیا ہے۔

زمین پر اس کو چونے کی چٹانوں نے ڈھانپ لیا ہے۔

سائنسدانوں نے حال ہی میں یہاں کھدائی کی ہے تاکہ وہ اس آتش فشاں کی ساخت اور اس کے بننے کی وجوہات جان سکیں۔
 
image

Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE:

Fossilized fish piled one atop another, suggesting that they were flung ashore and died stranded together on a sand bar after the wave from the seiche withdrew. The beginning of the end started with violent shaking that raised giant waves in the waters of an inland sea in what is now North Dakota.