خوشحال ہونا انسان کی فطری خواہش ہے اور اس خواہش کی
تکمیل کے لئے انسان کواپناپسندیدہ پیشہ، اہلیت اوروسائل کی بنیاد پر
اختیارکرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ بگاڑاس وقت پیداہواجب ،ہم نے پہلے
توضرورت کو خواہش میں بدلا،پھر یہی خواہش جب لامحدود ہوکر انفرادی
زرپرستانہ لالچ اور ہوس پرستی میں بدلی تواس نے ہمیں اخلاقی طور پر اس قدر
گرا دیا کہ ہم سے عزت نفس اورانسانیت نام کی چیز ہی ختم ہوگئی ۔
ہوس کامطلب یہ ہے کہ کمانے کی حرص میں شریعت کی حدودمیں تجاوزکیاجائے،مال
کمانے میں حلال وحرام کی تمیزنہ رہے اوردل مال ودولت کی محبت میں
ایساگرفتارہوجائے کہ ہروقت بس یہی تڑپ اور فکرسوارہو کہ کہیں سے اورکسی
طریقہ سے مال آجائے۔
سورۃ التکاثر میں اﷲ رب العزت نے انسانی فطرت کی لاابالیوں کوانتہائی
خوبصورت اندازمیں نقشہ کھینچا،سورۃ مبارکہ کا آغاز ہی ان معنی خیزاورجامع
ترین الفاظ سے ہوتاہے،مفہوم:"مارڈالا تم کومال کی کثرت کی خواہش نے یہاں تک
کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔"
ویسے تو ہمارے حکمران طبقہ ،وزیروں ،مشیروں سے لے ہرمحکمہ کاحال یہ ہے کہ
جائز کام بھی رشوت اور نذرانہ دیئے بغیر ممکن نہیں۔انسانی رخش زندگی بے
محابا خواہشات کواپنے دامن میں سمیٹے ،لالچ اور مادیت پرستی کی وجہ سے
بددیانتی،جھوٹ، رشوت ،بے ایمانی، دھوکہ بازی،ملاوٹ، چوربازاری اپنے عروج پر
ہے۔ آج ہمارا معاشرہ مال ودولت کے لالچ اور مادیت پرستی کی وجہ سے اخلاقی
طورپر اس قدر زوال پذیر ہوچکا ہے کہ ہم اپنی ہرجائز وناجائز خواہش کی تکمیل
کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیارہیں، بعض اوقات تو عقل دنگ رہ جاتی ہے،کہ
محض چندروپوں کی خاطرانسان اس حدتک گرسکتاہے۔کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے،
سرگودہا شہرکے چوک سیٹلائٹ ٹاؤن کے پاس سے گزرتے ہوئے ٹرک کو ایک موٹا تازہ
نوجوان موٹرسائیکل سوارڈرائیورسائیڈ سے رُکنے کے لئے اشارہ کرتا ہے اوراس
بات کی قطعاََ پرواہ کئے بغیر کہ اس حرکت کی وجہ سے کوئی حادثہ نہ پیش
آجائے، سڑک کے عین وسط میں ٹرک کے سامنے موٹرسائیکل روک کر نیچے اُترنے کی
کوشش کرتا ہے کہ ڈرائیو ر کمال ہوشیاری سے ٹرک کو چلاتا ہوا موٹرسائیکل کی
سائیڈ سے گزر جاتا ہے۔ موٹرسائیکل سوار پھر تیزی سے ٹرک کے قریب پہنچ کر
پہلے ڈرئیوانگ سائیڈ سے ڈرئیوار کو سخت الفاظ میں ڈانٹتا اور پھر جلدی سے
موٹر سائیکل ٹرک کے بالکل سامنے لے جا کر آہستہ کر دیتا ، جب دیکھتا کہ ٹکر
لگنے والی ہے، تھوڑا آگے ہوکر پھر موٹرسائیکل کی بریک لگاتا اور ٹرک
ڈرائیور کو رُکنے کا اشارہ کرتا ، ٹرک ڈرائیور ایک لمحہ کے لئے
آسراکرتا،مگر جیسے ہی موٹرسائیکل سوار اپنے موٹرسائیکل سے اُترتا، ڈرائیور
ٹرک کوتیزی سے موٹرسائیکل کے قریب سے گزارتے ہوئے آگے نکل جاتا۔ اسی پکڑن
پکڑائی کے دوران اوورہیڈ برج پر ٹریفک کم ہونے کی وجہ سے ٹرک بڑی تیزی سے
زیادہ فاصلہ طے کرلیتا ہے۔ لیکن موٹرسائیکل سوار بھی اپنی دُھن میں مگن اُس
کا پیچھا کر رہا ہے۔ اوورہیڈ برج کے اختتام پر زیادہ ٹریفک ، اس بار ٹرک کو
آہستہ ہونے پر مجبور کردیتی ہے اور موٹر سائیکل سوار اپنی موٹرسائیکل روڈ
پر کھڑی کر نے کے بعدبھاگ کربائیں جانب سے دروازے کے ساتھ لٹک جاتا ہے اور
دروازہ کھول کرٹرک ڈرائیورکے ساتھ گفتگو یا یوں کہیں کہ مذاکرت کرتاہے، کچھ
لمحات میں مذاکرات کی کامیابی کے بعدنیچے اُترنے کی کوشش کے دوران اچانک
ٹرک چلنے کی وجہ سے موٹا نوجوان دھڑام سے نیچے گرتا ہے، اس دوران ٹرک کا
کلینر اُسے باآواز بلند بُرا بھلا کہتا اور لعنتیں بھیجتا ہے۔ مگریہ موٹا
تازہ نوجوان کسی کی پرواہ کئے بغیر اُٹھتاہے آرام سے اپنے کپڑے جھاڑتا ہے
اور اپنے ہاتھ میں پکڑے سو روپے کے ایک یا دو نوٹ اپنی جیب میں ڈال کراس
دیدہ دلیر ی سے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں واپس اپنے موٹر سائیکل کی طرف چلنا
شروع کردیتا ہے۔اس دوران وہ جس دوکان کے سامنے سے گزرتا دکان پر کام کرنے
والے بچے اور جوان بھی اُسے بُرا بھلا کہتے ، مگر وہ سنی ان سُنی کرتا ہوا
موٹر سائیکل اسٹارٹ کرتا ہے اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے، نئے شکار، نئے
ٹارگٹ کی تلاش میں دوبارہ محوسفرہوجاتا ہے۔
یہ موٹر سائیکل سوار کوئی چور، لٹیرا یا ڈاکو نہیں بلکہ ٹریفک پولیس کا
حوالدارتھا، جسے روزانہ ایک مقررہ مقدار میں رقم اپنے سینئرزتک پہنچانی ہے
اورباقی اپنی جیب میں۔ اسی نسبت سے ٹریفک پولیس کے بارے میں بہت سے لطیفے
مشہور ہیں۔ ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ ٹریفک پولیس پاکستان کا واحد ادارہ ہے
جس میں تعینات ہراہلکار اپنے مقرر ہ وقت سے زیادہ ڈیوٹی بخوشی سرانجام دیتا
ہے۔
مذکورہ واقع شروع سے اختتام پذیر ہونے تک میں نے خوداپنی آنکھوں سے دیکھا
اورمیری عقل دنگ رہ گئی،خداکی پناہ، ٹریفک پولیس کا کام تو ٹریفک قوانین پر
عملدرآمد کروانا ہے۔ جب پولیس اہلکار زبردستی اورسرعام نذرانہ وصول کریں گے،
ایسے حالات میں ٹریفک قوانین کی پاسداری کون اور کیوں کرے گا۔ ویسے توعام
محکموں میں کام کرنے والے چپڑاسی ،کلرک سے لے کرچھوٹے بڑے افسروں کی اکثریت
کرپٹ،بددیانت اوررشوت خور ہے ،کوئی حکومتی ادارہ اور محکمہ بھی رشوت کی
لعنت سے پاک نہیں مگراس قدر ذلت اور رسوائی سے پیسے اکھٹے کرنے کا اعزازصرف
ٹریفک پولیس کو حاصل ہے۔شہر کے سب سے پررونق اور پرہجوم حصے میں اس ذلت
ورسوائی پراُس اہلکارکوکسی کے سامنے جوابدہی کاڈر،نہ شرمندگی اورنہ ہی کوئی
ملال حالانکہ سب لوگ ٹریفک پولیس اہلکار کی اس گھٹیاحرکت اور تماشا کودیکھ
کر ہنس رہے تھے۔
ٹریفک پولیس سرگودہا کے اہلکار کاواقعہ تومحض ایک مثال ہے،حقیقت تویہ ہے کہ
اس ہوس ولالچ کے پرچم تلے سب ایک ہیں، بس مقام ومرتبہ کے اعتبار سے طریقہ
واردات ،اندازاورالفاظ کا فرق ہے ۔کاش ہم اس حقیقت سے آگاہ ہوجائیں کہ مال
جس طریقہ سے آتاہے،اسی طریقہ سے جاتاہے،رزق ِحلال ،محنت کی کمائی،کبھی
رائیگاں نہیں جاتی،بلکہ رزق حلال کی برکت سے نسلیں سنورجاتی ہیں،جبکہ
ناجائزذرائع سے حاصل کردہ رزق ِحرام سے دُنیا کی رغبت،سکون قلب سے محرومی
،بیماری ومصائب کیساتھ گناہوں سے محبت میں اضافہ ہوتاہے اوریہ کہ رزق ِحرام
اسی طرح بے کاراوررائیگاں جاتاہے،جیسے آیاتھا بلکہ اس کی نحوست آنے والی
نسلوں تک باقی رہتی ہے،اس کے علاوہ آخرت کا دردناک عذاب تو یقینی ہے۔اﷲ
عزوجل ہم سب کوصرف اپنا ہی محتاج رکھے،حلال رزق کوہمارے لئے کافی کردے
اورحرام رزق سے دوررکھے ۔آمین
|