سرکاری اسکول بدل سکتے ہیں

ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے
اس کی بات میں مجھے طنز اور نفرت صاف نظر آ رہی تھی وہ ایک پرائیویٹ سکول چلاتا ہے اور سرکاری سکولوں پر تنقید کرنا اُسکا پسندیدہ مشغلہ ہے میں اُس کی بات توجہ سے سن رہا تھا وہ کہ رہا تھاکہ سرکاری سکولوں کو میڈیا ہاﺅس بنا دینا چاہیے اور سرکاری اساتذہ کو کیمرہ مین اور رپورٹر بھرتی کرلینا چاہیے،کیونکہ سرکاری اساتذہ پڑھانے میں تو کم توجہ دیتے ہیں جبکہ تصویریں بنانے پر زیادہ مجھے اس بات پر غصہ آ رہا تھا مگر میں اس کی بات سنتا رہا۔ وہ بولا آپ مجھے بتائیں کہ کیا اساتذہ کا کام پودے لگانا ہے ،میں نے نہیں میں سر ہلایا۔ اس پر وہ کہنے لگا کیا اساتذہ کا کام سکولوں اور کلاس رومز کی صفائی اور خوبصورتی کا اہتمام کرنا ہے ؟ میں خاموش رہا۔ اس کا اگلا سوال تھا کہ کیا آپ سوشل میڈیا سے کوئی ایک پوسٹ دکھا سکتے ہیں جس میں پڑھائی کا ذکر ہو یا کسی استاد کو پڑھاتے ہوئے یا تعلیمی سرگرمی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہو؟ میرے پاس جواب کو الفاظ نہ تھے۔ اس پر جناب نے کہا کہ کیا آپ حلفاً کہہ سکتے ہو کہ آپ کے اعلیٰ افسران کے وزٹ کے دوران سو فیصد یا پچاس فیصد بچوں کی تعلیمی حالت پر بات ہوتے ہے؟ مگر اس پر بھی میں خاموش تھا۔ وہ تھوڑی دیر مجھے طنزیہ نظروں سے دیکھتا رہا ۔ اور پھر کہنے لگا میرے دوست آپ کو ماننا پڑے گا کہ آپ لوگوں کی ترجیحات میں بچوں کی پڑھائی دسویں نمبر پر آتی ہے اور اپنے نمبر بنانا پہلے نمبر پر۔ اس لیے تم لوگ ڈیلیور نہیں کر پاتے ۔ اس لیے لوگ آپ اور آپ کے اداروں پر اعتبار نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ آپ لوگوں کو اپنے بچوں کے پیپر خود حل کرنے پڑتے ہیں۔ جبکہ پرائیویٹ سکول آپ لوگوں سے بہت کم اہلیت کے اساتذہ کی موجودگی میں تعلیمی معیار کوبرقرار رکھتے ہیں ۔ کیونکہ انکی اولین ترجیح بچوں کی تعلیمی کارکردگی ہوتی ہے ۔اب میں اس کی گفتگو سے اکتا سا گیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ پرائیوٹ سکول اسی وجہ سے زیرو ہوتے ہوئے ہیرو بن جاتے ہیں۔ مگر آپ اعلیٰ تعلیم کے باوجود اتنی محنت کرتے ہوئے بھی زیرو رہتے ہیں۔ میں نے کہا کوئی مثال دیجئے ۔ اس پر عظیم پبلک کی مثال میرے سامنے رکھی گئی کہ ایک پرائیویٹ ادارہ ہونے کے باوجود تحصیل بھر میں اپنا نمایاں مقام رکھتا ہے ۔ جس پر میرا جواب ہاں میں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ آپ نے خود دیکھا ہو گا کہ جہاں جہاں عظیم سکول قائم کیا گیا وہاں یکدم سرکاری سکول کی انرولمنٹ نصف ہو جاتی ہے۔ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ اس پر اس نے پوچھا کہ آپ بتائیے کہ عظیم سکول کی ایسی کونسی برانچ ہے کہ جہاں ایم ایس سی ، ایم فل اساتذہ پرائمری سیکشن میں پڑھا رہے ہوں ،میرا جواب نہیں تھا، وہ بولا کیا عظیم سکول والے فنکشن یا تقریبات حتیٰ کہ سالانہ تقسیم انعامات پر بچوں کو انعام میں تیس روپے کا کپ تک دیتے ہیں ؟۔ میں نے پھر نہ میں سر ہلا دیا۔ اس نے پوچھا عظیم سکول سسٹم کی کتنی عمارتیں معیاری ہیں۔ میں نے جواب دیا چند کے علاوہ زیادہ تر مرغی خانوں اور پلازوں میں ہی سکول چلائے جا رہے ہیں۔اس پر وہ مسکرایا اور بولا کیا عظیم سکول کے اساتذہ گھر گھر داخلہ مہم چلاتے ہیں ؟میں چُپ ہو گیا۔ وہ پھر گویا ہوا اور بولا میرے دوست کیا وجہ ہے وہ یہ سب کام نہ کرنے کے باوجود 600روپے فیس لینے کے باوجود ہیرو ہیں اور سرکاری ادارے کتابیں تک مفت، مفت تعلیم بلکہ بعض جگہ مفت یونیفارم دے کر بھی اور پچاس پچاس درخت لگانے کے باوجود زیرو ہیں ۔میں اب مکمل طور پر بے بس اور شرمندہ ہو چکا تھا۔ وہ بولا اگر آپ کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر بھی تعلیم دیں ،کوالٹی آف ایجوکیشن برقرار رکھیں تو لوگ وہاں بھی اپنے بچے بھیج دیں گے ۔مگر آپ وائٹ ہاﺅس بنا کر اور فیس بک پر بل گیٹس کے ساتھ تصاویریں بنا کر بھی لوگوں کو متاثر نہیں کر سکتے ۔کیونکہ وہ آپ کی ذاتی کامیابی ہے اوروالدین اپنے بچوں کے مستقبل کو روشن دیکھنا چاہتے ہیں نہ کہ اساتذہ کی غیر ضروری سرگرمیاں۔ یہ کہہ کر وہ اُٹھا مجھ سے ہاتھ ملایا اور چلتا بنا ،جبکہ میں شرمندگی کی تصویر بنا بیٹھا رہا۔ حقیقت یہی ہے کہ سرکاری سکول بدل رہے ہیں مگر ہماری ترجیحات نہیں بدل رہی ،جس دن ہماری ترجیحات بدل گئیں اس دن سرکاری سکول بدل جائیں گے۔

Adnan Hasan
About the Author: Adnan Hasan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.