نصاب تعلیم وہ تدریسی اور تربیتی ڈھانچہ ہے جس کے
دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے تعلیمی ادارے نئی نسل کو ذہنی، فکری، علمی اور
عملی طور پر تیار کرتے ہیں۔نصاب تعلیم کا انحصار ریاست کی قومی تعلیمی
پالیسی پر ہوتا ہے، جس میں مستقبل کے اہداف، معیارات اور اندورنی و بیرونی
تغیرات کا ادراک اور تعین کیا جاتا ہے۔ وقت اور حالات کے تحت جہاں دیگر
ریاستی امور و معاملات تبدیلیوں اور تغیرات سے گزرتے ہیں، وہیں نصاب تعلیم
قومی اہداف سے مشروط ہوتی ہے اور تعلیمی نظام کی فعالیت اور ضروری ترامیم و
اضافے کیوجہ سے تعلیمی اہداف ، معیارات اور زاویے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں
۔
پاکستان کے نظام تعلیم میں گو کہ مختلف ادوار گزرے، ایوب خان،جنرل ضیاء اور
نواز شریف کے دور میں تبدیلیاں ضرور لائی گئیں، لیکن یہ تبدیلیاں حقیقت
پسندی کا مظہر ہونے کے بجائے فکری چنگل کے زیر اثر زیادہ رہی ہیں جس کی وجہ
سے نظام تعلیم معاشرے پر خاطر خواہ مثبت اثرات مرتب کرنے میں ناکام رہا
اورقیام پاکستان کے بعد سے اب تک ہم وقت کے فطری بدلتے تقاضوں کے مطابق
اپنے نظام تعلیم کو ہم آہنگ نہیں کر پائے ۔میاں نواز شریف نے اپنے دونوں
ادوار میں تعلیمی پالیسیاں دیں اوربعض ٹھوس اقدامات بھی کیے لیکن کچھ زیادہ
قابل رشک کام نہ کرسکے۔
جنرل پرویز مشرف نے جب ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو انہوں نے تعلیم کو عالمی
معیا ر کے مطابق بنانے اور جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے چند ترقی پسند
دوست ماہرین تعلیم سے رابطہ کیا جن میں ڈاکٹر اے ایچ نیر، ڈاکٹر پرویزہود
بھائی اور دیگر شامل تھے۔جنرل مشرف اپنی تعلیم دوست سوچ کی بدولت ملک کو
’’نالج اکانومی‘‘ میں بدلنے کے خواہاں تھے۔ مگر بیوروکریسی نے ان کی کوششوں
کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔گو کہ بعض سطحوں پر خوشگوار تبدیلیاں آئیں لیکن
نفرت انگیز مواد بدستور نصاب کا حصہ رہا۔
میں جمہوریت پسند ہوں اور کسی بھی مارشل لاء، غیر آئینی اقدام، ایل ایف او،
پی سی او یا فوجی حکومت کا حامی نہیں ہوں لیکن تعلیم کے شعبے میں پرویز
مشرف دور کے انقلابی منصوبوں کو کوئی بھی ذی شعور پاکستانی نظر انداز نہیں
کرسکتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرف کے تعلیمی اقدامات ستر برس کی تاریخ
میں نمایاں تھے ۔ان کے دور حکومت میں جو تعلیمی منصوبے بنائے گئے، ان کی
بناء پر پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کو عالمی سطح پر پہچان ملی ۔مشرف کے جانے
کے بعد عوام کے منتخب نمائندے مشرف کی تعلیمی پالیسیوں کو سامنے رکھنے ہوئے
تعلیم کے میدان، ترقی، ٹیکنالوجی اور تحقیق میں انقلاب تو درکنار کچھ کرنے
کی حامی بھی نہ بھر سکے۔
جنرل مشرف نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ڈاکٹر عطاء الرحمان کوپاکستان کی
سرکاری یونیورسٹیوں کے تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کا ہدف سونپا ۔ جس کی
بدولت نہ صرف تعلیمی نظام میں کئی گنا بہتری آئی بلکہ پہلی بار باقاعدہ طور
پر یونیورسٹیوں کے لیے ریسرچ گرانٹس، ڈیجیٹل لائبریریوں کا قیام اور پانچ
ہزار سے زائد افراد کو غیر ملکی جامعات میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے
کا موقع ملا۔ مشرف کے دور میں ہی پاکستان میں پانچ بڑے تحقیقی ادارے اورنو
عالمی معیار کی انجینئرنگ یونیورسٹیاں بنائی گئیں۔اسی طرح ائیر یونیورسٹی،
خلائی ٹیکنالوجی یونیورسٹی، لاہور یونیورسٹی،سردار بہادر خان ویمن
یونیورسٹی کوئٹہ یونیورسٹی ،ہزارہ یونیورسٹی، بنوں یونیورسٹی، چکدر ہ
یونیورسٹی، مالاکنڈ یونیورسٹی،گجرات یونیورسٹی، سرحد یونیورسٹی، نیشنل لاء
یونیورسٹی، میڈیا یونیورسٹی، لسبیلہ یونیورسٹی، بلوچستان یونیورسٹی اور
ہزاروں سکول و کالج سمیت ۸۱ نئی یونیورسٹیاں بھی انکے کارہائے نمایاں رہے ۔
یہ بات درست ہے کہ انہوں نے افغانستان اور دیگرمحاذوں اور بین الاقوامی سطح
پر کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا لیکن قوم کوا نکی بنیادی ضرورت ’’تعلیم
‘‘کی خوشبو سے روشناس ضرور کراگئے۔
پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ جہاں صاحب بصیرت سیاستدانوں کے فقدان کے
باعث مختلف ریاستی پالیسیوں پر بیوروکریسی حاوی ہوتی چلی گئی ہے، وہیں
تعلیم کے شعبے میں اہل ماہرین تعلیم کی عدم موجودگی کے باعث تعلیمی
پالیسیوں کی تشکیل پر بھی روز اول سے بیوروکریسی ہی حاوی چلی آ رہی ہے۔ ملک
میں بے ڈھنگی اور من مانی سکول و مدرسہ تعلیم نے جہاں انگریز کی غلامانہ
سوچ، فکری و ذہنی تنگ نظری کو فروغ دیا ہے وہاں تعصب و لسانیت کو بھی جنم
دیا ہے۔طبقاتی نظام تعلیم احساس کمتری و محرومی کا سب سے بڑی وجہ ہے کہ ایک
بچہ مشنری سکول میں جاتا ہے اور اپنی پوری تعلیی کیرئیر میں کوئی فضول
سبجیکٹ نہیں پڑھتا بلکہ اس نے جو بننا ہو تا ہے وہ اسی سے متعلق پڑھتاہے
جبکہ دوسری طرف لوئر کلاس اور میڈل کلاس بچہ ساری زندگی اپنی منزل کو سیدھا
کرنے میں گزار دیتا ہے ۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت قومی ادارہ برائے نصاب و نصابی کتب
اورنصاب سازی کو پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرے اور ایسی نصاب سازی کرے جو
وقت کے تقاضوں پر پورا اترے۔ نظام تعلیم میں بیوروکریسی کا کردار ختم کر کے
اسے کسی تھینک ٹینک برائے تعلیم کے حوالے کیا جائے ۔تعلیمی پالیسی کو اہداف
کی تکمیل اور عصری ضروریا ت کے پیش نظر بنایا جائے۔ مذہبی تنگ نظری ،فرقہ
وارانہ تعصب ، مدر پدر آزاداو ر مذہب و اخلاقیات سے متنفر کرنے والے نصاب
کو دینی و عصری درسگاہوں سے ہٹایا جائے ۔ طبقاتی نظام تعلیم کی بیخ کنی کی
جائے کہ کہیں یہ اتنی نہ بڑھ جائے کہ دیر ہو جائے ۔ لیپ ٹاپ کے بجائے
سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار کو بہتر بنا کر اساتذہ کی تربیت پر توجہ
دی جائے۔ پبلک و پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے لیے مشترکہ پالیسی بنا کر نصاب
تعلیم، اساتذہ کی تربیت اوراساتذہ کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ ہر سال قومی
تعلیمی مردم شماری کا اہتمام کیا جائے۔تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کر کے
موجودہ نقائص کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
تعلیمی نظام کے بگاڑ اور تباہی کی تمام تر ذمہ داری ریاستی مقتدر اشرافیہ
اور مذہبی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جو نصاب تعلیم میں مثبت تبدیلیوں کی راہ
میں بہت بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یو این ، فافن، پلڈاٹ اور دوسرے سروے کرنے
والے اداروں کی ہوش ربا رپورٹس تو گاہے بگاہے ہمارے تعلیمی سسٹم کا پردہ
چاک کرتی رہتی ہیں لیکن فرق تب پڑے گا جب احکام بالا کو بھی تعلیم کی اہمیت
کا احساس ہو۔اگر حکومت وقت چاہیے تو یہ تعلیمی نظام کو اپ ٹو دی مارک کر
سکتی ہے کیونکہ اسکے تعلقات بیوروکریسی میں بھی ہیں اور دینی مدارس کے
علماء سے بھی۔
|