دینی مدارس کامعاملہ بھی عجیب ہے حکمران جب چاہتے ہیں تو
اس مسئلے کواپنے مفادات اورسیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں عالمی دباؤپڑتاہے
تومدار س کے خلاف ایکشن شروع ہوجاتاہے ملک کے اندرسے دباؤآتاہے تودینی
مدارس کے ذمے دارا ن کومذاکرات کالولی پاپ دے دیاجاتاہے ،چنددن قبل تک ایف
اے ٹی ایف کی ٹیم آرہی تھی توپورے ملک میں مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن کیاگیا
تواب مولانافضل الرحمن نے مدرسے کے ایشوپرحکومت کوتنقیدکانشانہ
بنایاتوحکومت نے ایک مرتبہ پھرمدارس کی قیادت کومذاکرات کے لیے بلالیا جس
سے ظاہرہوتاہے کہ ہمارے دینی مدارس سیاست کاشکارہیں ،دینی مدارس کے برسوں
سے حل طلب ہیں ہرحکومت اپنے ایجنڈے اوربلندبانگ دعوں کے ساتھ آتی ہے
مگرعملی طورپرکچھ نہیں ہوتا،
پاکستان تحریک انصاف برسراقتدارآئی آئی توتین اکتوبر2018کودینی مدارس کی
قیادت سے وزیراعظم نے ملاقات کی دینی مدارس کی قیادت کوبھی تبدیلی سرکارسے
بڑی امیدیں تھیں اسی لیے مدارس قیادت کی طرف سے وزیراعظم کو 22نکات پرمشتمل
محضرنامہ پیش کیاگیا وزیراعظم نے حسب معمول دینی مدارس اورعصری تعلیمی
اداروں کے حوالے سے ایک ٹاسک فورس بنائی اورمعاملہ ختم ہوگیا چھ ماہ بعد
حکومت کوپھرمدارس کی یادآئی اور2اپریل کو مدارس کی قیادت کوبلاکرحال احوال
پوچھا مدارس کی قیادت نے پھرسے وزیراعظم کالیکچرسنا اورروانہ ہوگئے ۔مدارس
کے معاملات کوئی بھی حکومت حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے اس میں بڑی وجہ
حکمرانوں کاررویہ ہے ورنہ وفاقوں کی قیادت نے مدارس کے معاملات حل کرانے کے
لیے ہرحکومت کے ساتھ بھرپورتعاون کیاہے ،آخراچانک ایساکیاہواکہ حکومت کوایک
مرتبہ پھرسے مدارس کی یادآگئی تواس کی ایک بڑی وجہ توملک بھرمیں مدارس
ومساجدکے خلاف یکطرفہ آپریشن اوردینی جماعتوں کی بے چینی ہے جبکہ دوسری وجہ
مولانافضل الرحمن ہیں جوموجودہ حکومت کے خلاف بھرپورتحریک چلارہے ہیں اس
لیے حکومت نے مولاناکی تحریک کاتوڑکرنے کے لیے ایک مرتبہ پھرسے مدارس
کوامیددلائی ہے ۔مگرمدارس کی قیادت کوحکومت سے کچھ زیادہ توقعات نہیں ہیں ،
مولانافضل الرحمن نے گزشتہ سال آٹھ اکتوبرکوہونے والی آل پارٹیزکانفرنس میں
اتحادتنظیمات مدارس دینیہ کی وزیراعظم سے ملاقات پراظہارناراضگی کرتے ہوئے
کہاتھاکہ اچھاہوتاکہ یہ ملاقات اس کانفرنس کے بعد ہوتی ،مولاناکااس وقت بھی
مؤقف تھا کہ حکمران مدارس کے معاملات حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں اوراب
بھی اپنے مؤقف پرقائم ہیں یہی وجہ ہے کہ مولانافضل الرحمن نے سرگودھامیں
ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ الیکشن میں دھاندلی کر کے ایک جعلی
حکومت برپا کی گئی۔ جو مغرب کے اور یہودی لابی کے دباؤ پر اس ملک پر ایک
حکمران کو مسلط کیا گیا یہ در حقیقت دنیا کو پیغام دینا تھا کہ پاکستان میں
مذہب کی سیاست ختم ہو چکی ہے مذہبی قوتوں کا سیاسی کردار اب ختم ہو چکا ہے
ہم نے پورے ملک کے دس ملین مارچ کرکے دنیا کو پیغام دیاہے کہ دھاندلی کے
ذریعہ تم مذہبی دنیا کو، پاکستان کے نظریاتی لوگوں کو اور اس ملک کے اسلام
پر قربانی دینے والوں کے سیاسی کردار کو ختم نہیں کر سکتے۔بین الاقوامی سطح
پر تم نے پندرہ سولہ سال سے دنیا کو یہ تاثر دیا کہ مذہبی لوگ دہشت گرد
ہوتے ہیں۔ مذہبی لوگ انتہا پسند ہوتے ہیں مذہبی لوگ شدت پسند ہوتے ہیں۔ ہم
نے دس ملین مارچ کیے مگر عام آدمی کے معمولات زندگی بھی متاثر نہیں ہوئے۔
ایک چڑیا کو بھی خراش نہیں پہنچی۔مولانانے مزیدکہاکہ دوستوں دینی مدارس کے
خلاف آج نیشنل ایکشن پلان کو استعمال کیا جا رہا ہے ہندوستان نے دبا
ؤڈالاتو کالعدم تنظیموں کی آڑ لے کر وہ مدراس کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کو
فعال اور متحرک کر رہے ہیں۔ یہ امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے یہ تمہاری بد
نیتی کا مسئلہ ہے یہ تمہارے بین الاقوامی ایجنڈے کا مسئلہ ہے ہم تمہیں
جانتے ہیں۔
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
ہم جانتے ہیں آپ کو ، آپ کون ہیں۔آپ کہاں سے بول رہے ہیں ہمیں یہ بھی پتا
ہے،لیکن تماشا یہ ہے جب مدارس کے خلاف نیشنل ایکشن پلان متحرک کرنے کا
مرحلہ آیا تو ان کے ایک وزیر نامدار نے کہا کہ دینی مدارس کا نصاب امریکہ
سے آیا ہے۔ یہ ہے ان کے علم و فضل کا مقام ،یہ بالکل وہی بات ہے یہاں
پاکستان میں ایک عورت ڈے منایا گیا تو عورت ڈے کے موقع پر ایک بڈھے نے کہا
کہ انگریز نے ہم پر نکاح مسلط کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں یہ وہ لابی ہے کہ جن کے
علم و عرفان کا عالم یہ ہے کہ وہ یہ کہتا ہے یہ نکاح انگریز نے ہم پر مسلط
کیا ہے اور آج اس حکومت کا ایک وزیر نامدار کہتا ہے کہ دینی مدارس کا نصاب
امریکہ نے ہم پر مسلط کیا ہے ۔
مولانافضل الرحمن کی سیاست اپنی جگہ مگروہ مدارس کے محافظ اورکیل ہیں ان کی
مدارس کے خلاف سازشوں پرگہری نظرہے حکومت ایک طرف مدارس کے معاملات حل
کرانے کی یقین دہانی کروارہی ہے تودوسری طرف وزیر اطلاعات فواد چودھری نے
ارشاد فرمایاہے کہ دینی مدارس کا نصاب امریکہ نے تیار کیا تھا ۔وزیرموصوف
کے اس بیان کوصرف لاعلمی کہہ کرجان نہیں چھڑائی جاسکتی ہے یہ دراصل اس سوچ
کی غمازی کرتاہے جو عالمی ایجنڈے کے تحت حکمرانوں کی سوچ بن چکی ہے ہم جب
تک مدارس کواپنااثاثہ نہیں سمجھیں گے اس وقت تک یہ مسائل حل نہیں ہوسکیں گے
غیروں کی عینک سے مدارس کودیکھنے والے اہل مدارس سے کس طرح مخلص ہوسکتے ہیں
؟
عوام کی طرح اہل مدارس کوبھی حکومت سے توخیرکی توقع نہیں ویسے بھی یہ ایک
کٹھ پتلی حکومت ہے جواپنے حصے کابھی کام نہیں کرپارہی ہے حکومت کے حصے
کابھی کام عسکری قیادت کوکرناپڑرہاہے یہی وجہ ہے کہ اہل مدارس کی بے چینی
دیکھتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرباجوہ نے یکم اپریل کو مدارس کی
قیادت اورملک کے نامورعلماء کرام سے بھرپوربیٹھک کی ہے جس میں وفاقی
وزیرمذہبی امورپیرنورالحق قادری ، مدارس دینیہ کے وفاقوں کی قیادت مولانا
حافظ فضل الرحیم، مولانا مفتی منیب الرحمان، مولانا قاری محمد حنیف
جالندھری، پروفیسر ساجد میر، مولانا مفتی عبد الرحیم، ڈاکٹر راغب حسین
نعیمی، مولانا قاضی نیاز حسین نقوی، مولانا محمد یاسین ظفر اور مولانا عبد
المالک،مولانازاہدالراشدی مولانافضل الرحمن خلیل ،مولانااحمدلدھیانوی
ودیگرموجود تھے مدارس کی قیادت اس ملاقات سے بہت پرامیدہے کیوں کہ آرمی چیف
نے کھلے دل وذہن سے پانچ گھنٹے مدارس اورعلماء کے مسائل سنے جبکہ ہمارے
مصروف وزیراعظم نے مدارس کی قیادت کوایک گھنٹہ سے بھی کم وقت دیا ۔
عسکری قیادت سے ملاقات کرنے والے شرکاء کاخیال ہے کہ آرمی چیف اوران کی ٹیم
کی مدارس کے حوالے سے نہایت مثبت سوچ ہے ،وہ مدارس کواپنااثاثہ سمجھتے ہیں
ان کاخیال ہے کہ دینی مدارس کے فضلاء کوبھی دیگرشعبوں میں آگے آناچاہیے
بلکہ ایک موقع پرجنرل قمرباجوہ نے کہاکہ میں توچاہتاہوں کہ مدارس کے فضلاء
تمام شعبوں میں آگے بڑھیں بلکہ مدارس ایسانصاب تیارکریں کہ اس کے فضلاء کل
آرمی چیف کی سیٹ تک پہنچ سکیں جنرل قمرباجوہ نے کہاکہ اہل مدارس پالیسی سے
ہٹ کرمسلح جدوجہدکی ہرصورت نفی کریں دینی نصاب کوفرقہ واریت وتکفیرکے
عنصرسے پاک ہوناچاہیے اس موقع پرقاری حنیف جالندھری نے کہاکہ آپ ایسی کتاب
کی نشاندہی کریں اہل مدارس کواس کواپنے نصاب سے نکال دیں گے جنرل باجوہ نے
کہاکہ مدارس پریہ اعتراض کیاجاتاہے کہ یہ اپناحساب کتاب نہیں رکھتے اس کے
لیے بہترہے کہ مدارس بنکوں میں اپنے اکاؤنٹ کھولیں جس پرمدارس کی قیادت کی
طرف سے انہیں بتایاگیا کہ بنک اکاؤنٹ کھولنے میں ہم نہیں حکومت رکاوٹ ہے ۔
اہل مدارس نے ایک مرتبہ پھر گیندحکومت کی کورٹ میں ڈال دی ہے ۔اب دیکھتے
ہیں کہ حکومت کومدارس کی یادکب آتی ہے کیوں کہ مولانافضل الرحمن اسلام
آبادمارچ کااعلان کرچکے ہیں وہ 21اپریل کو باب خیبرلنڈی کوتل
جمروداور28اپریل کومانسہرہ میں اجتماعات کریں گے جوں جوں مولانااسلام
آبادکی طرف بڑھ رہے ہیں توتوحکومت کوان معاملات کے حل کرنے میں تیزی
دکھاناہوگی ۔
|