آپ فرما دیجئے اللہ ایک ہے،اللہ
بے نیاز ہے نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا اور نہ کوئی اس
کی برابری کرنے والا ہے(الااخلاص پارہ۰۳)اور فرمایا اس کی کوئی مثل نہیں
اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ان آیات کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کی
کوئی مثل اور نظیر نہیں اور اس جیسا کوئی دوسرا نہیں اسی لئے جو باتیں اور
جو جو صفات مخلوقات میں پائی جاتی ہیں وہ ان سب سے ماوراء ہے مثلاً
تجسم(جسم ہونا) کمیت، وزن، جوہر و عرض اور جہت وغیرہم۔ جہت سے مراد یہ ہے
اللہ کا کوئی خاص مقام متعین نہیں کیا جاسکتا کہ کائنات میں وہ کس جگہ پر
ہے مگر ادب کے طور پر یہ عقیدہ ہے کہ اس کا مقام عرش اعظم پر ہے جیسا کہ
آیت کریمہ ہے (ترجمہ) پھر وہ عرش اعظم پر متمکن ہوا ۔
سوال یہ ہے جب اللہ کا ذکر و عبادت کی جائے تو اسے کس جگہ تصور کیا جائے کہ
وہ کہاں ہے؟ کیا کعبہ شریف، بیت المقدس، مسجد نبوی مساجد یا کلیسا میں خدا
موجود ہے؟ اگر نہیں تو پھر وہ کہاں ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت کے وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کا مقام انسان کا دل
ہے اس حیثیت سے کہ جب تک دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت و
جلال،کبریائی، اس کے قادر مطلق ہونے،اور معبود حقیقی ہونے کاخیال و دھیان
رہے گا تو اسکی عبادت ہوگی جیسا کہ ایک حدیث شریف سے ظاہر ہوتا ہے آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ احسان کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ تم
اللہ کی عبادت اس طر ح کرو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا نہ کر
سکو تو پھر دل میں یہ خیال ہو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے دیکھ رہے
ہیں۔(حدیث جبرائیل،بخاری ومسلم)
اور اس کے برعکس اگر دل میں سوائے اسکے کسی اور کو لائق عبادت سمجھتا ہے
اور اسی کا خیال اور دھیان دل میں جمائے ہوئے ہے تو عبادت اسی کی ہوگی نہ
کہ اللہ تعالیٰ کی مثلاً اگر دل میں بت خانہ بنا رکھا ہے یعنی بتوں کو حاجت
روا اور لائق عبادت سمجھتا ہے تو عبادت بتوں کی ہوگی اسی طرح اگر دل میں
کسی اور ہستی کا تصور ہے مثلاً سورج چاند ستارے آگ یا درخت وغیرہم تو عبادت
انہیں کی ہوگی نہ کہ خدا کی دراصل دل ایک آئینہ کی مانند ہے اس میں عبادت
کیلئے جس ہستی کا تصور اور خیال ہو گا اسی کی عبادت ہوگی۔ اسی لئے قرآن پاک
میں دل کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
مثلاً اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کیلئے زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق
ضروری ہے بلکہ اصل چیز دل کی تصدیق ہے اگر زبان سے کلمہ پڑھ لیا مگر دل میں
کفر و شرک موجود ہے تو ایسے شخص کو مسلمان نہیں بلکہ منافق کہا جائے گا۔
اور اگر کسی وجہ سے زبان سے اقرار نہیں کیا جاسکتا مثلاً وہ شخص گونگا،
توتلا یا ہکلا ہے اور صحیح الفاظ ادا کرنے پر قادر نہیں تو اس کیلئے زبانی
اقرار ساقط ہے اور دل کی تصدیق معتبر ہے۔ لہٰذا اصل چیز دل کی کیفیت ہے کہ
اس میں کیا ہے کیا وہ کفر وشرک اور نفاق کی گندگی سے پر ہے یا اس میں توحید
کی روشنی اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی کبریائی ہے؟دل کے بارے میں فرمان
الٰہی (ترجمہ) وہ لوگ قرآن پاک میں تدبر کیوں نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر
قفل لگ گئے ہیں اور فرمایا (ترجمہ)اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر
مہر لگا دی ہے اور انکی آنکھوں پر پردہ ہے اور فرمایا(ترجمہ) انکے دلوں میں
مرض ہے پس اللہ نے انکے مرض کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔اور دل سے مراد عقل
شعور اور آگہی ہے اور عام طور پر اس کیلئے ضمیر اور باطن کی اصطلاح استعمال
کی جاتی ہے مثلاً ضمیر کا زندہ یا مردہ ہونا، ضمیر کی خلش، یا ظاہر میں کچھ
اور باطن میں کچھ اور ہونا یا ظاہر و باطن کا ایک ہونا وغیرہ۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب مومن آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ
نقطہ لگ جاتا ہے پس اگر وہ توبہ کرے اور اصلاح کی جانب مائل ہو تو اس نقطہ
کو رگڑ کر صاف کر دیا جاتا ہے اور گناہ کرتا ہی رہے تو وہ نقطہ بھی بڑھتا
ہی چلا جاتا حتیٰ کہ اسکے تمام دل کو ڈھانپ لیتا ہے پس یہی دلوں کا زنگ ہے
جس کے بارے میں قرآن پاک میں فرمایا گیا کہ ”یہ دلوں کا زنگ ہے جو انکے
اعمال کی وجہ سے ہے“۔
اس سے یہ مراد نہیں کہ دل پر حقیقتاً سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اور دل کالا
ہوجاتا ہے بلکہ اس سے مراد دل کا ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو
جانا اور بد بختی و شقاوت ہے۔
بہرحال آئینہ صاف ہو تو اس میں عکس پڑتا ہے۔ اگر دل کا آئینہ کفر و شرک اور
نفاق کی گندگی سے پاک وصاف ہے تو اس میں معرفت حق کا چمکارا پڑ سکتا ہے
بقول شاعر..........
دل کے آئینے میں رکھی ہے تصویر یار
اک ذرا نظر جھکائی دیکھ لی
اور اس کے برعکس اگر وہ گناہوں کی گندگی سے اٹا ہوا اور زنگ آلود ہے تو پھر
ہدایت سے محرومی ہے۔ |