گھر سامان اور ہم

زندگی میں جن چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ہم خاص اہمیت نہیں دیتے. دراصل زندگی میں ان کی اہمیت ہی نہیں ان کے معنی بھی اکثر صرف وہ نہیں ہوتے جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں یا دیکھتے ہیں. لیکن اگر ان کو کسی اور زاویئے سے دیکھا جائے تو ان کے مفہوم ہی بدل جاتے ہیں. جیسا کہ چابی. چابی بظاہر تو انسان کے لیے دروں کو کھولنے اور بند کرنے اور تجوری میں قیمتی سامان محفوظ کرنے کے کام آتی ہے. لیکن اگر دیکھا جائے تو ہر کسی انسان کی ایک چابی ضرور ہوتی ہے . جس کا استعمال کر کے بظاہر تو وہ خود کو تو محفوظ کر لیتا ہے لیکن بھلا ہو اس قدرت کا، کہ جب ،جہاں اور جیسے چاہتی ہے وقت کی چابی سے انسان کا چھپا ہوا سچ کھول کے رکھ دیتی ہے. میاں بیوی اور ان کے رشتے دار سب ہی کسی نہ کسی چابی سے چل رہے ہوتے ہیں. بس جیسے ہی کسی کو کسی کی چابی کا پتا چلا وہ اس کا استعمال کرکے سارے کچے چٹے کھول کر رکھ دیتا ہے. ہمارے معاشرے میں ہر کوئی دوسرے کی چابی کی کھوج میں رہتا ہے اور جیسے ہی وہ اس کے ہاتھ لگتی ہے سمجھو کے اس شخص کی زندگی دوسرے کے ہاتھ آ جاتی ہے. اب یہ چابی کسی سیاستدان ، کے بیوروکریٹ کے ،اسٹیبلشمنٹ کے ،میاں بیوی کے ،ساس بہو کے، پڑوسی کے یا کسی بھی اور متعلقہ شخص کے ہاتھ لگ جائے تو سمجھو کہ اس کی زندگی کا ریموٹ ہی کسی دوسرے کے ہاتھ لگ گیا. چابی کی طرح چمچا بھی بڑے ہی کام کی چیز ہے. جیسے کھانا پکاتے وقت اس کہ بغیر کام نہیں چلتا. ویسے ہی زندگی میں ہر جگہ چمچے کے کردار کو آپ فراموش نہیں کر سکتے یہ نہ صرف ہر گھر میں موجود ہوتا ہے بلکہ ہر خاندان اور دفتر میں بھی آپ کو ملے گا. ہمارے یہاں جتنی تندہی ،کمٹمنٹ اور مستقل مزاجی سے یہ اپنا کام کرتا ہے . اگر ہم سب اس جذبے کے تحت اپنا اپنا کام کرتے تو آج ہمارا ملک کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہوتا . سب کے لیے سب کچھ کرنے کے باوجود یہ بے چارہ بدنام کیوں ہے. لوگ کہتے ہیں کے اس کی کار گزاریوں نے بڑے بڑے بادشاہوں کو ان کے تخت و تاج سے محروم کروا دیا. لیکن ہم تو کہتے ہیں کے اس میں اس بچارے کا کیا قصور یہ تو اپنا کام کرتا رہتا ہے اگر ان بادشاہوں کے اندر اخلاص اور کھرے کھوٹے کی پہچان اور شعور ہوتا تو بھلا انہیں ان چمچوں کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی . چمچوں ہی کی ایک اور قسم گھونٹا ہے ،جس سے کہ دال اور حلیم کو گھوٹا جاتا ہے. اس کی خدمات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا. جب جو ،جس کو چاہے، جہاں چاہے اس کی مدد سے گھوٹ کے رکھ دے ۰ساس بہو تو اس کی خدمات سے اکثر ہی مستفید ہی ہوتی رہتی ہیں. مگر زندگی میں اس کا استعمال کیے بغیر ہی اس آئیڈیے کے تحت لوگوں کو جب چاہے ایسا گھوٹ کے رکھ دے کہ ان کا نام و نشان اور ان کی شکل و ہیئت ہی بدل کر رہ جائے. اس طرح گھونٹے کا استعمال سارا سال سے اس قوم کو پیسنے کے لیے اس ملک کے سیاستدانوں نے کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۰ زمیندار اور کاروباری حضرات بھی اس کے استعمال میں کسی سے پیچھے نہیں رہے .ایسے موقع پہ پتیلے کی کارگزاریوں کا تزکرہ نہ کرنا ناانصافی ہو گی ،چھری ،خنجر و تیرکمان بھی کیا کمال کرتے ہوں گے جو ہمارے اس موۓ پتیلے نے کر ڈالے . اس میں ایسی ایسی کھچڑی پکتی ہے کہ نہ پوچھیں . بس مفاد، بغض, غصہ, جھوٹ اور حسد کو ملا کر ایک ساتھ چڑھائیں اور پکنے کے بعد اس میں مظلومیت اور چالاکی کا تڑکہ دے کر دیکھیں بس آپ کی ڈش تیار ہے ۰ اب یہ آپ کی قسمت ہے کہ آپ کی کھچڑی چلے گی یا محبت ، اخلاص, برداشت ، رواداری کی دال روٹی.اب ذرا تزکرہ جھاڑو کا ہو جاۓ، جھاڑو کی اہمیت بھی کسی سے کم نہیں . یہ چاہے کسی کے ارادوں پر پھیری جائے یا احکامات پہ ،قیامت ہی برپا کر دیتی ہے . سب سے بڑا ظلم جب ہوتا ہے جب یہ عاشقوں کے ارمانوں پہ پھیری جاتی ہے. بس مت پوچھیں کہ یہ دونوں پہ کیا ستم ڈھاتی ہے. یہ الگ بات ہے کہ یہ بات یا تو اللہ کو پتہ ہوتی ہے یا خود جھاڑو کو کہ اگر یہ آج ان عاشقوں پر نہ پھیری گئی ہوتی تو کل محبت کا دم بھرنے والے ان جوڑوں کی زندگی نہ اگلتے بنتی نہ نگلتے . یہی جھاڑو جب کسی کے کر توتوں پر پھرتی ہے تو جانے ہزاروں , لاکھوں , کڑوروں کتنوں کا بھلا کر جاتی ہے۰جہاں تک جھاڑو کی خدمات کا تعلق ہے ماحول کو صاف رکھنے میں اس کا نمبر 1 کردار ہے ہی ،لیکن یہ بہت ہی دکھی ہو جاتی ہے جب نہ چاہتے ہوئے بھی کسی بیوی کے ہاتھ چڑھ جاتی ہے. بظاہر تو یہ زور زور سے میاں جی کے اوپر پڑ رہی ہوتی ہے لیکن سچ پوچھیے تو یہ خود بھی کچھ کم زخمی نہیں ہوتی. استعمال ہونے کے بعد جب یہ زمین پر پٹخی جاتی ہے تو دیر تک ہانپتی رہتی ہے. جھاڑو کے بعد جب ہمیں سیڑھی کا خیال آ یا تو لگا کہ وہ بھی کچھ کم مظلوم نہیں ،جس پر جب چاہے جتنی دیر تک جو چاہے کھڑا ہو جائے . کام تو اس سے بھی کافی لیے جاتے ہیں مگر جب تک لوگ اس پر چڑھ کر ترقی کی منزلیں طے کرتے رہتے ہیں یہ خوش رہتی ہے، مگر جب کچھ حسد زدہ کم ظرف صاحبان کسی کو اوپر چڑھتا دیکھ نہیں پاتے اور سیڑھی سمیت ان کو نیچے گھیسٹ لیتے ہیں تو اس کا دل دکھ سے بھر جاتا ہے. ویسے تو ہمارے ارد گرد کئ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن کے باطن میں کئی پیغام چھپے ہوئے ہوتے ہیں. مگر اگر ہم نے ان سب پر بات کرنی شروع کی تو قارئین کہیں آپ ہم سے بیزار ہی نہ ہو جائیں . اس لیے ہم آپ سے ودع لیتے ہیں.

Shazia Rehman
About the Author: Shazia Rehman Read More Articles by Shazia Rehman: 4 Articles with 6160 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.