خاموشی عورت کا وہ بنیادی مسٸلہ جو اسکی زندگی کے باقی
تمام مساٸل کی پیداٸش کا باعث بنتا ہے۔اگر سوچا جاۓ تو عورت کے ساتھ اس سے
بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا کہ اسے تعلیم کے زیور سے تو آراستہ کیا جاۓ لیکن
اپنے حق کے لیۓ آواز اٹھانے کی اجازت نہ دی جاۓ۔اسے سوچ کی راہ تو دکھا دی
جاۓ لیکن آواز کا دروازہ بند کر دیا جاۓ۔ذہن تو ہے لیکن ہوتے ہوۓ بھی زبان
نہیں ہے ۔وہ اپنے مساٸل اور حق تلفیوں کو دیکھ سن اور محسوس تو کر سکتی ہے
لیکن کر کچھ نہیں سکتی۔صرف خاموشی سے کڑھ سکتی ہے۔دیکھا جاۓ تو ہم ابھی تک
زمانہ جاہلیت میں ہی بس رہے ہیں جب لڑکی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا
جاتا تھا۔لیکن دورِحاضر کا ظلم اس سے بڑھ کر ہے۔ماضی میں تو اسے زمانہ
معصومیت میں دفن کیا جاتا تھا لیکن آج اس ترقی یافتہ دور میں اسے شعور جیسی
نعمت عطا کرنے کےبعد زندہ درگور کردیا جاتا ہے ۔بے زبانی اور خاموشی کی قبر
میں دفنا دیا جاتا ہے ۔معاشرے کی ہر نا انصافی کو عورت صرف اپنی ذات کے لیۓ
غلط تصور کرتے ہوۓ برداشت کرتی چلی جاتی ہے لیکن اگر غور کیا جاۓ تو عورت
خاموش رہ کر صرف خود پر نہیں بلکہ پوری نوعِ انسانی کے ساتھ ظلم کرتی ہے۔
وہ اپنی خاموشی سے ظلم اور بے انصافی کی حوصلہ افزاٸ کرتی ہے۔علم کی دولت
حاصل کرنے کے بعد بھی معاشرے کی بہتری کے لیۓ کام کرنے کی بجاۓ وہ خاموش رہ
کر الٹا اس کے بگاڑ کو مزید ترقی دیتی ہے ۔صرف یہی نہیں اسکی یہ خاموشی
اسکی ذہنی اور جذباتی کیفیت پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔مسلسل ذہنی دباٶ
کا شکار رہنے سے وہ ایک ذہنی مریضہ ب جاتی ہے اور ایسی صورت حال میں وہ نہ
تو گھر کو توجہ دے پاتی ہے نہ ہی بچوں کی بہتر تربیت کر سکتی ہے۔باقی آٸندہ
|