باجوڑ ڈیڑھ دہائی سے بند پبلک لائبریری کسی مسیحا کی منتظر

کتب خانوں کا آغاز بنی نوع انسان کے تہذیب یافتہ دور میں قدم رکھتے ہی ہو گیا تھا۔ انسان کے دنیا میں آنکھ کھولتے ہی لکھنے پڑھنے کا رجحان تھا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے مٹی کی تختیوں، جانوروں کی جھلی اور لکڑی کی تختیوں کو استعمال کیا گیا بعد ازاں چین میں کاغذ کی ایجاد عمل میں آئی۔ علم اور کتب خانے ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں نصابی ضرورت محض نصابی کتابوں سے پوری نہیں ہو سکتیں لہٰذا تحقیقی ضروریات کیلئے اضافی کتابوں کا ہونا ضروری ہے۔ جنہیں منظم تعلیمی کتب خانوں کی صورت میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ کسی ملک کی ترقی جانچنے کیلئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں تعلیمی نظام کیسا ہے اور کسی بھی تعلیمی نظام کو جانچنے کیلئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں کتنی لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔ اور کتنے لوگ اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ضلع باجوڑ میں کتب بینی کا رجحان بہت کم ہے، جس کی بنیادی وجہ یہاں تعلیم کی شدید قلت ہے ، کتب کے طرف ترغیب دلانے کیلئے 24 اگست 1999 کو ہیڈ کواٹر خار میں پولیٹیکل ایجنٹ ملک قیصر مجید کے ہاتھوں باجوڑ کے اولین پبلک لائبریری کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور باجوڑ کے تعلیم یافتہ اور کتب بینی سے محبت کرنے والوں کیلئے ایک نادر موقع میسر آیا ۔لیکن اس ملک میں آپریشن کے نام پر ایک وبا امڈ آئی جس سے یہ ترقی پذیر جنت نظیر وطن باجوڑ کئی دہائیوں پیچھے چلا گیا، دور جدید میں اگرچہ مطالعہ کے نئے میڈیم متعارف ہو چکے ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برکت سے علم کا حصول اور اطلاعات رسانی کے باب میں انقلاب برپا ہو چکا ہے مگر کتاب کی اپنی دائمی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ قائم و دائم ہی نہیں بلکہ اس میں حد درجہ اضافہ ہو رہا ہے۔ 2007'8 کے عسکری آپریشن کا آغاز ہوتے ہی باجوڑ پبلک لائبریری بندکردی گئی ، جس کے وجہ سے کتب بینی کا شغف رکھنے والوں کے ہاتھ سے ایک اہم موقع جاتا رہا ، اب امن کے بحالی کے بعد ضلع باجوڑ وفاق کے بجائے خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم ہوچکا ہے اور ترقی کے دوڑ میں دیگر بندوبستی علاقوں کے ساتھ شامل ہوچکا ہے۔ اس لیے علاقے کے باشعور اور کتب بینی سے محبت کرنے والے افراد گذشتہ ڈیڑھ دہائی سے بند ضلع باجوڑ کے واحد اور اولین پبلک لائبریری کے بحالی کا مطالبہ کررہے ہیں اور اس کا اب کھولا جانا ضروری ہے اس سلسلے میں رواں ہفتے باجوڑ کے باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تنظیم دی تھینکر ایسوسی ایشن کے جانب سے شروع کیے جانے والے مہم میں باجوڑ کے تمام ہی صاحب فہم و فراست نوجوانوں نے حصہ لیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اب یہ پبلک لائبریری بحال کیا جانا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہاں پڑی قیمتی کتابیں اب ضائع ہونے کے قریب اور ان پر پڑی گرد و غبار کے باعث کتابوں کا برا حال ہوچکا ہے اور اس سے ہمارے نوجوان کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ دی تھینکر ایسوسی ایشن سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کو باقاعدہ خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ باجوڑ میں پبلک لائبریری فعال کی جائے۔دی تھینکر ایسوسی ایشن کے مرکزی ممبر شاہد علی خان نے بتایا کہ جب ہم نے طویل عرصے بعد اس لائبریری کا معائنہ کیا تو کافی عرصہ گذر جانے کے بعد لائبریری میں موجود اکثر کتب استعمال کے قابل نہیں رہے تھے ، انہوں نے کہا کہ کئی علم دوست احباب کے جانب سے پیش کش کی گئی ہے کہ اگر لائبریری کو از سرنو دوبارہ بحال کردی جائے تو ہم اپنی ذاتی رقم سے اس پبلک لائبریری کیلئے کتابیں ہدیہ کریں گے۔ علم دوست احباب کا کہنا ہے کہ پہلے سے لائبریری کی بلڈنگ موجود ہے مگر رنگ روغن کی ضرورت ہے۔ضلع باجوڑ میں کتب بینی کے فروغ نہ پانے کی وجوہات میں کم شرح خواندگی، صارفین کی کم قوت خرید، حصول معلومات کیلئے موبائل، انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال، اچھی کتابوں کا کم ہوتا ہوا رجحان، حکومتی عدم سرپرستی اور لائبریریوں کیلئے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ خاندان اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ کتب بینی سے انسان میں الفاظ کا ذخیرہ بھی بڑھ جاتا ہے اور وہ اس سے اپنے ما فی الضمیر کو جس طرح چاہے بیان کر سکتا ہے یہ ایک قدرتی تحفہ ہے کتب بینی کی عادت ہمیں ڈالنی ہو گی تاکہ ایک بہتر اور سمجھ دار معاشرے کا وجود یقینی بنایا جا سکے۔ ہمیں چاہیے کہ بچوں کو لائبریری بھی لے جائیں۔ کہتے ہیں کہ لائبریری بچے کے دماغ کی بہترین میزبان ہوتی ہے۔ ڈھیر ساری کتابیں دیکھ کر بچہ خوش بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے مزاج اور پسند کے مطابق کتابوں کا انتخاب کر کے اپنی دماغی صلاحیتیں اجاگر کر سکتا ہے۔ معاشرتی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ عوام مروجہ علوم اور زمانے کے تقاضوں سے آگاہ ہوں۔ عوام کی علمی سطح جتنی بلند ہوگی ملک اتنی ہی ترقی کرے گا۔علم کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہمارے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں مگر ان میں صرف نصابی تعلیم دی جاتی ہے۔ عملی زندگی کے راستے پر مسلسل گامزن رہنے کا ذریعہ کتب خانے ہیں۔ ان کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ صحیح معنوں میں علم کے حصول کا ذریعہ ہیں۔قدیم دور کے کتب خانوں میں آشور بنی پال، کتب خانہ سکندریہ اور کتب خانہ پرگامم قابل ذکر ہیں۔ آشور بنی پال کے کتب خانے میں دولاکھ تیس ہزار مٹی کی تختیاں تھیں اور اس کتب خانے کو پہلا عوامی کتب خانہ بھی کہا جاتا ہے جبکہ پرگامم کا مواد پیپرس رولز پر مشتمل تھا اور یہ ذخیرہ دولاکھ کے لگ بھگ تھا۔ دنیا کا پہلا منظم کتب خانہ سکندریہ تھا اور اس میں منہ مانگی قیمت پر کتب خرید کر رکھی جاتی تھیں اس میں میں رکھے گئے مواد کو مضامین کے اعتبار سے رکھا جاتا تھا۔یہی وہ وقت تھا جب مسلمانوں نے بلاتخصیص ہر شخص کے لئے علم کے دروازے کھول رکھے تھے۔جگہ جگہ درسگاہیں اور تعلیمی ادارے کھلے ہوئے تھے جبکہ ان کے ساتھ سرکاری کتب خانے بھی تھے۔سلاطین وقت خود بھی ان کتب خانوں سے مستفیض ہوتے تھے اور اپنے عوام کو بھی ان سے استفادے کی دعوت دیتے تھے۔کسی بھی تعلیم یافتہ معاشرے میں لائبریری اور قارئین کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔افرادکی تربیت اور ترقی میں لائبریریاں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ان کی موجودگی اور عدم موجودگی کسی بھی آبادی کے تہذیبی رجحانات اور ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔اس طویل بحث کا حاصل یہی ہے کہ حکومت تعلیمی ایمرجنسی کے جھوٹے دعوؤں کے بجائے عملی کام کریں اور فوری طور پر ضلع باجوڑ میں قائم واحد پبلک لائبریری فوری طور پر بحال کریں۔

Bilal Yasir
About the Author: Bilal Yasir Read More Articles by Bilal Yasir: 12 Articles with 19127 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.