نفسیاتی ماہرین کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ وہ اعصابی صحت
کے مسائل سے دوچار بچوں سے آن لائن گزارے جانے والے وقت کے دورانیے اور
سوشل میڈیا کے استعمال کی وجوہات کے بارے میں سوال کریں۔
رائل کالج آف سائکیاٹرسٹس کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی سے متعلق سوال نفسیاتی
ٹیسٹ کے معمول کا حصہ ہونا چاہیئیں۔
|
|
رائل کالج، بچوں کے آن لائن گزارے جانے والے وقت کی وجہ سے اس کے نیند، غذا
اور رویے پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں فکر مند ہے۔
برطانوی حکومت جلد سوشل میڈیا کمپنیوں سے متعلق قانون سازی کے پلان کا
اعلان کرے گی۔
کالج کی تجویز ایسے وقت پر آئی ہے جب نقصان دہ مواد یا آن لائن گزارے جانے
والے وقت اور بری اعصابی صحت کے درمیان ممکنہ تعلق کے شواہد میں اضافہ
دیکھا گیا ہے۔
رائل کالج آف سائکیاٹرسٹس رواں سال ٹیکنالوجی کے استعمال اور بچوں کی
اعصابی صحت سے متعلق اپنے موقف پر رپورٹ شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
والدین، بچوں اور ڈاکٹرز کے لیے تجاویز بھی اس رپورٹ کا حصہ ہوں گی۔
نفسیاتی ماہرین کو ہدایت کی گئی ہے کہ بچوں کی اعصابی صحت کا جائزہ لیتے
ہوئے مندرجہ ذیل پہلوؤں کو ذہن میں رکھیں:
نقصان دہ مواد، خاص طور پر ایسا مواد جو موجودہ اعصابی مرض پر اثر انداز ہو
سکتا ہے مثلاً ایسی تصاویر جو خود کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہوں یا
ایسی تصاویر جو بھوک سے جُڑے مسائل کو جنم دیتی ہوں۔
ٹیکنالوجی کا استعمال نیند سے جُڑے مسائل، بری تعلیمی کارکردگی، مزاج میں
چڑچڑاہٹ، رویوں اور خوراک سے جُڑے مسائل کے لیے کتنا برا ہو سکتا ہے۔
ڈیپریشن اور کھانے سے جُڑے مسائل بچوں کو زیادہ وقت آن لائن گزارنے یا
ٹیکنالوجی کا نقصان دہ استعمال کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
|
|
رائل کاج آف سائکیاٹرسٹ نے تجویز کیا ہے کہ بچوں کو سونے سے ایک گھنٹہ پہلے
اور کھانے کے اوقات کے دوران ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
حال ہی میں برطانوی پارلیمانی ارکان نے سوشل میڈیا کمپنیوں کے منافع پر
ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کمپنیوں کو ٹیکنالوجی کے
استعمال اور اعصابی امراض کے درمیان تعلق کے بارے میں ریسرچ پر آنے والی
لاگت ادا کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔
جلد ہی برطانوی حکومت ایسے آزاد نگران ادارے سے متعلق پلان کا اعلان کرے گی
جو سوشل میڈیا کمپنیوں پر نئے ’ڈیوٹی آف کیئر` قانون کا اطلاق کرے گا۔
یہ اعلان خودکشی اور خود کو نقصان پہنچانے سے جُڑے تفصیلی آن لائن مواد کے
بارے میں بڑھتی تشویش کے پیش نظر کیا گیا۔
اس سال کے آغاز میں 2017 میں خودکشی کرنے والی 14 سالہ مولی رسل کے والد کا
کہنا تھا کہ انسٹاگرام، ان کی بیٹی کو مارنے والی وجوہات میں شامل تھا۔
آر سی سائیک میں بچوں اور بالغوں کے شعبۂ امراض کی چیئرمین ڈاکٹر برناڈکا
ڈوبیکا کا کہنا تھا ’اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی
نوجوانوں میں ذہنی امراض کی بنیادی وجہ نہیں ہے، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں
کہ یہ ان کی زندگیوں کا اہم حصہ ہے اور کچھ حالات میں نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘
’صف اول معالج کی حیثیت سے، میں باقاعدگی سے ان نوجوانوں کا معائنہ کرتی
ہوں جو آن لائن خود کو نقصان پہنچانے کے طریقوں کے بارے میں بات چیت کرنے
کے بعد جان بوجھ کر خود کو نقصان پہنچاتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’ہمیں یہ بھی پتا چلا ہے کہ کچھ نوجوانوں کو نقصان دہ
مواد تجویز کیا جاتا ہے: مثال کے طور پر وزن کم کرنے کی حوصلہ افزائی یا
تلاش کرنے پر یا صرف ایک بار ہی کلک کرنے کے بعد خود کو نقصان پہنچانے والی
ویب سائیٹ یا اس سے ملتے جلتے مواد کے لنک۔‘
ڈاکٹر ڈوبیکا کا کہنا ہے کہ اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ آیا سوشل میڈیا
بچوں اور نوجوانوں کی اعصابی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے یا نہیں تاکہ ان کی
تکلیف کے اسباب کو حل کیا جا سکے۔
ینگ مائنڈز کی چیف ایگزیکٹو ایما تھومس کہتی ہیں ’ہم جن نوجوانوں کا علاج
کرتے ہیں وہ شاید ہی کبھی کہتے ہوں کہ سوشل میڈیا اعصابی صحت کے امراض کی
وجہ ہے۔ لیکن وہ مانتے ہیں کہ یہ ایسے مسائل بڑھا دیتا ہے جن سے وہ پہلے سے
نمٹ رہے ہوتے ہیں، یہ پریشانی میں اضافہ کرتا ہے یا جب وہ اپنی زندگیوں کا
موازنہ دوسروں سے کرتے ہیں تو انھیں اپنے بارے میں برا محسوس کرنے پر مجبور
کر دیتا ہے۔‘
این ایچ ایس برطانیہ میں اعصابی صحت کے نیشنل ڈائریکٹر کلیئر مرڈوک کہتے
ہیں ’سوشل میڈیا تقریباً تمام بچوں اور نوجوانوں کی روز مرہ زندگی میں اہم
کردار ادا کرتا ہے لیکن جب معروف نفسیاتی ماہرین کہیں کہ نوجوانوں کا
اعصابی ٹیسٹ لیتے ہوئے آن لائن سرگرمیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے تو اسے
خطرے کی گھنٹی کے طور پر لینا چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ این ایچ ایس نے نوجوانوں کے لیے اعصابی صحت سے جُڑی
سہولیات تک رسائی میں بہتری لانے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن ساتھ ہی امید کی
ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں بھی اپنا کردار ادا کریں گی۔
|