مستقبل کے شہر پانی پر بسیں گے٬ حقیقت کیا ہوگی؟

’فلوٹنگ سٹیز‘ یعنی تیرتے ہوئے شہروں کو عرصہ دراز سے مثالی معاشرے کا حقیقت سے دور ایک افسانوی خیال تصور کیا جاتا رہا ہے۔
 

image


تاہم اقوام متحدہ کے تعاون سے قائم ہونے والی ایک شراکت کے بعد بظاہر یہ خیال حقیقت کے کچھ قریب ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔

اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یو این ہیبِیٹیٹ (UN-HABITAT) نجی کمپنی اوشیئینکس (OCEANIX)، دی میسیچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) اور دی ایکسپلوررز کلب کے ساتھ مل کر اس انقلابی منصوبے پر کام کریں گے۔

یو این ہیبِیٹیٹ پائیدار شہری آباد کاری کے لیے کام کرتا ہے، جبکہ دی ایکسپلوررز کلب ایک ایسا پیشہ وارانہ گروہ ہے جو کہ دنیا بھر میں سائنسی تحقیق کے فروغ کا کام کرتی ہے۔

یو این ہیبیٹیٹ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر میمونہ مود شریف کا کہنا ہے کہ خطرناک حد تک بڑھتی موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑی تعداد میں شہروں میں واقع گنجان آباد پسماندہ علاقوں میں آباد کاری کے پیش نظر ’تیرتے شہر ایک ممکنہ حل ہیں۔
 

image


ایسا کیسے ہوگا؟
دنیا کا پہلا تیرتا شہر ’اوشیئینکس سٹی‘ چھ کونوں پر مشتمل پلیٹ فارمز پر مشتمل ہو گا جو سمندر کی تہہ سے منسلک ہو گا اور ہر پلیٹ فارم پر 300 لوگوں کے رہنے کی گنجائش ہو گی۔ اس کمیونٹی میں 10 ہزار رہائشی آباد ہو سکیں گے۔

اس شہر کے نیچے لگے جال سمندر سے غذا حاصل کرنے کا ذریعہ ہوں گے۔

اوشیئینکس کے چیف ایگزیکٹیو مارک کولنز کہتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر تیرتی عمارات کے لیے درکار ٹیکنالوجی پہلے سے ہی موجود ہے۔

مارک کولنز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگوں کے ذہن میں سب سے بڑا سوال ہے کہ کیا یہ شہر واقعی تیر سکتے ہیں؟‘

’نیدرلینڈز سمیت دنیا بھر میں ایسے ہزاروں گھر ہیں۔ اب سوال مربوط نظام اور آبادیوں کی تشکیل کا ہے۔‘

تیرتے شہروں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات اور بلند ہوتی سمندری سطح کا فوری حل بھی تصور کیا جا رہا ہے۔
 

image


کولمبیا یونیورسٹی میں سابین سینٹر فار کلائیمیٹ چینج کے ڈائریکٹر مائیکل گیراڈ نے تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کو سنہ 2017 میں بتایا تھا کہ ’میرا خدشہ یہ ہے کہ بعض اوقات مستقبل کے بارے میں خیالات کو اس سوچ کے تحت آگے بڑھایا جاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے اور اگر یہ ہوئی تو ہم اس کا حل ڈھونڈ لیں گے۔‘

تاہم مارک کولنز کا کہنا ہے کہ اوشیئینکس ایک مکمل ٹیم کے ساتھ کام کر رہی ہے جس میں ویسٹ مینجمنٹ، واٹر انجینئرنگ، توانائی اور سمندری حیات کی تخلیقِ نو پر کام کرنے والے ماہرین شامل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ شہر قدرتی آفات کے خلاف دفاع کا کام بھی کر سکتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’تیرتے ہوئے شہر ان جگہوں پر قائم کیے جائیں گے جہاں پانی کی گہرائی کافی ہو گی تاکہ سونامی کی صورت میں وہ متاثر نہ ہوں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ پلیٹ فارمز میں سیلابوں اور طوفانوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی ہو گی۔
 

image


کیا یہ پلان حقیقت پسندانہ ہے؟
دی ایکسپلوررز کلب کے صدر رچرڈ وائز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ ٹیکنالوجی نہیں بلکہ نفسیاتی ہے۔‘

’نفسیاتی طور پر لوگ تیرتے شہروں کی اصطلاح سے پریشان ہو جاتے ہیں۔ میں نے یہ اصطلاح اپنی بیگم کے سامنے استعمال کی تو اس کا فوری ردِعمل ٹیکنالوجی سے متعلق نہیں بلکہ ذہنی کیفیت سے تھا۔ انھیں ایک ایسی چیز کا خیال پسند نہ آیا جو پانی میں بہہ جائے۔‘

رچرڈ وائز کہتے ہیں کہ لوگوں اور سیاست دانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے موجودہ شہروں کے ساتھ ان کے توسیعی حصے بنائے جائیں اور اس مقصد کے لیے ہانگ کانگ، نیو یارک یا بوسٹن کو آزمائشی طور پر چنا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گھروں کی کمی سے نمٹنے کے علاوہ تیرتے ہوئے ہسپتال کا آئیڈیا بھی دیا گیا ہے۔

اوشیئینکس سٹی کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ فنڈنگ کی کمی کا ہے۔

لیونگ پلان آئی ٹی کے بانی سٹیو لیوس کہتے ہیں کہ 'وہ لوگ جو تعمیرات کے لیے فنڈنگ کرتے ہیں وہ کافی محتاط ہوتے ہیں۔'
 

image


’وہ اس جگہ پیسے لگاتے ہیں جن کا ان کو اچھی طرح علم ہو اور پھر اگر ان کو بتایا جائے کہ آپ ایسا شہر تعمیر کر رہے ہیں جو سمندر پر تیرے گا تو ان کا جواب ہوتا ہے واقعی؟‘

تاہم لیوس نے ہوا سے بجلی بنانے کے فارمز کی مثال دی جو گذشتہ 20 برسوں میں مقبول ہوئے ہیں اور یہ کہ لوگوں کی سوچ کا انداز بدل سکتا ہے۔

اگرچہ بڑے پیمانے پر تیرتی ہوئی آبادی ایک انوکھی بات ہو گی اور یہ کئی ٹیکنالوجی سے متعلقہ مسائل پیدا کرے گی تاہم لیوس کا کہنا ہے تعمیرات درحقیقت نسبتاً سیدھی ہوں گی۔

’ہم دیکھیں گے کہ درحقیقت کیا نتیجہ نکلتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’لیکن میرا خیال ہے مختلف ماحول میں نئی طرز زندگی کیسی ہو گی اس کے لیے ہمیں زور آزمائی کرنی چاہیے۔ اگر یہ 10 ہزار افراد کو بسانے کی گنجائش نہیں رکھتا پھر بھی میرے خیال میں چند ہزار پر مشتمل آبادیاں بھی فائدہ مند ہوں گی۔‘

رچرڈ وائز کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہ سمجھانا ہے کہ یہ ایک قابلِ لطف، پائیدار اور معاشی بڑھوتری ہے جو معاشرے میں ہر ایک کے لیے ہے نہ کہ صرف امرا کے لیے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر آپ اپالو 11 کو دیکھیں تو آپ کو یاد کرنا ہو گا کہ چاند پر پہنچنے سے پہلے بہت سے چھوٹے چھوٹے اقدامات کیے گئے تھے۔‘


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE:

Floating cities have long seemed like a utopian pipedream based on little more than fantasy. But this week the concept appeared to take a step closer to reality through a UN-backed partnership.