کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں مگر
گناہوں میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنے اندر سے برائی کی جڑ کو ختم نہیں کر
سکے تو ترقی کیا کریں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ”جھوٹ ایک بُت ہے اور جھوٹ
بولنے والا بُت پرست“۔ ہمارے معاشرے میں وہ فعل جو سب سے زیادہ عمل میں آتا
ہے وہ جھوٹ ہی ہے۔شاید ہی کسی شخص کا کوئی دن ایسا گزرتا ہو جس دن وہ جھوٹ
نا بولتا ہو۔یاد رہے جھوٹ جھوٹ ہے چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ۔اب آپ اپنے ذہن پہ
زور دیں اور سوچیں کہ آپ خود دن میں کتنے جھوٹ بولتے ہیں۔اگر ہم اپنے ارد
گرد نظر دوڑائیں تو ہمارے بڑے ہی نئی نسل کو جھوٹ بولنا سیکھا رہے ہوتے
ہیں۔جیسے اگر کبھی کسی گھر کا دروازہ کھٹکے تو بڑے بچوں کو کہتے ہیں کہ اگر
کوئی میرا پوچھے تو کہنا وہ گھر پر نہیں ہیں۔ یا پھر ٹیلی فون پر جھوٹ
بولنے کے لئے کہا جاتا ہے۔پھر ہمارے ملک میں کوئی بھی کاروبار دیکھ لیں کسی
نہ کسی رنگ میں اُس کاروبار میں بھی جھوٹ بولا جاتا ہے۔کبھی گاہک کو خوش
کرنے کے لئے تو کبھی مال بیچنے کے لئے جھوٹ بولا جاتا ہے مگر فروخت کرنے
والے یہ نہیں سوچتے کہ جھوٹ بولنے سے مال تو بک جاتا ہے مگر برکت نہیں
رہتی۔خیر اگر اس قوم کو برکت کی فکر ہوتی تو یہ قوم فٹ پاتھ کی بجائے محلوں
میں رہن پزیر ہوتی اور ہمارے حکمران میڈیا کے سامنے شرمندہ نہ ہوتے بلکہ
فخر سے بات کرتے،یورپی ممالک ہمیں دہشت گرد اور دھوکے باز نہ سمجھتے بلکہ
ایماندار اور صادق سمجھتے،ہمارے والدین اعلیٰ تعلیم کے لئے ہمیں بیرون ملک
نہ بھیجتے بلکہ ہمارے ملک میں شفاف اور پاکیزہ نظام تعلیم کی وجہ سے بیرون
ملک سے لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے۔لیکن ہمارے ملک میں نظام تعلیم اتنا
شفاف ہے کہ ہمارے حکمران ہی جعلی ڈگریاں لئے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے
ہیں۔پولیس خود امتحانات کے دوران کمرہ امتحان کی بیرونی کھڑکیوں سے امدادی
صفحات طالب علموں کو پکڑا رہی ہوتی ہے۔امتحانات کے دوران نگرانی کرنے والے
اساتذہ طالب علموں کو نقل کرتا ہوا دیکھ کر بھی چھوڑ دیتے ہیں اور پیپر سے
پہلے یا بعد میں روپے بٹورتے ہیں۔اگر کوئی پکڑا جائے تو سر عام جھوٹ بول کر
غلطی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔اگر ہماری قوم آج جھوٹ کا سہارا لئے
بغیر چل رہی ہوتی تو یہی قوم دُنیا کی اعلیٰ اور بہترین قوم کہلاتی۔ہمارے
ملک میں مسافر سفر میں، بچے سکولوں میں،ڈاکٹر ہسپتالوں میں،استاد کالجوں
میں،قانون کے رکھوالے وردی میں، وکیل عدالتوں میں،پروفیسر یونیورسٹیوں
میں،مصنف کتابوں میں،شاعر شاعری میں اور عوام ایک دوسرے سے کسی نہ کسی رنگ
میں جھوٹ بولتے ہیں یہاں تک کہ ہر شعبہ میں جھوٹ کا سہارا لیا جا تا ہے۔ان
سب سے بڑھ کر حکمران جو کسی مملکت کے سربراہ کی حیثیت سے ملکوں کے دورے
کرتے ہیں وہ بھی سرِعام جھوٹ بولتے ہیں۔میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ حکمرانوں
کے علاوہ سبھی ایک جیسے ہیں مگر سب حکمران یقیناً ایک جیسے ہیں۔جیسے پانچ
انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ویسے عوام میں سبھی جھوٹے بھی نہیں ہوسکتے۔مگر
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثریت جھوٹ کا سہارا لینے والوں کی
ہے۔ ڈاکٹر، مصنف، پروفیسر،وکیل،جج اور قانون کے رکھوالے یہ نہ سمجھیں کہ وہ
عوام نہیں۔وہ تو عوام کا وہ گروہ ہیں جنہیں مثال قائم کرنی چاہیے مگر افسوس
ہمارے ملک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران اعلیٰ طریق سے جھوٹ بولتے
ہیں۔فراڈ بازی جھوٹ کی انتہا کہلاتی ہے اور ہمارے ملک میں فراڈ بازی اس قدر
عروج پہ پہنچ چکی ہے کہ پاکستانی عوام کو یورپی ممالک میں فراڈ سمجھا جانے
لگا ہے۔انگریز پاکستانیوں کا نام سُن کر یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی
یقیناً کرپٹ،فراڈ ی یا کریمینل ہوگا۔ان تمام نقائص کی بنیادی وجہ جھوٹ ہی
ہے۔اگر انسان کسی معاملہ میں ملوث ہونے سے پہلے جھوٹ نہ بولے تو یقیناً اُس
کا ضمیر اُسے اُس معاملہ میں ملوث نہیں ہونے دے گا۔اگر مسلمان بت پرستی
یعنی جھوٹ چھوڑ دیں تو دُنیا فتح کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ مگر افسوس یہ کہ
اگر مسلمان متحد ہوتے تو تباہی سے بچ جاتے۔ |