تحریر: سارہ عمر
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
خدا کرے میرے ہر ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
پاکستان کی پاک سر زمین جو دو قومی نظریے کی بنیاد پہ الگ کی گئی اور اسے
غلامی سے نجات دلانے کے لیے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ کا نعرہ
لگایا۔ آج کیا اس اکہتر سالہ پاکستان میں بابائے قوم کے پاکستان کی جھلک
آتی ہے؟ قائداعظم کا خواب تو پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا تھا۔
پاکستان میں ایسا نظام قائم کرنا تھا جہاں سب کو بنیادی اور مساوی حقوق دیے
جائیں۔ جہاں تمام شہری امن اور سلامتی سے زندگی گزار سکیں۔ جو فرقہ واریت
اور لسانی فسادات سے پاک ہو۔ جس میں سستا اور فوری انصاف فراہم کیا جائے
لیکن آج ہمارا پاکستان بابائے قوم کے خوابوں کی عکاسی نہیں کرتا۔ آج ووٹ دے
کر ایک نئے پاکستان کے لیے ایک نئی حکومت کا انتخاب کیا ہے۔ تمام پاکستان
کو عمران خان سے کئی امیدیں وابستہ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں وہ ایسے لیڈر بنیں،
جو دل کا موسم سہانہ کر دے
وطن سے غربت روانہ کر دے
جو آستینوں کے سانپ مارے
جو بم دھماکے فسانہ کر دے
اداس چہرے گلاب کر دے
جو ظلمتوں کا نظام بدلے
جو روشنی بے حساب کر دے
عبد الرحمان خان
پاکستان جس مشکل دور سے گزر رہا ہے۔اس کے کچھ بنیادی اور فوری حل طلب مسائل
ہیں جن کے بعد ہی وہ اپنے پاوں پہ کھڑا ہو سکتا ہے۔
غربت:
پہلا مسئلہ غربت کا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ
دی ہے۔ غریب غریب سے غریب تر ہو رہا ہے۔ بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا پہ
بلا وجہ ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔
حل:
تمام پیسہ جو چوروں نے بیرون ملک منتقل کیا ہے اسے واپس لایا جائے تاکہ اس
ملک میں خوشحالی آئے۔ اشیائے خردونوش کی قیمتوں میں کمی لائی جائے۔ بلا
ضرورت ٹیکس لگانے سے گریز کیا جائے۔ آئے دن بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول
کیا جائے۔
بے روزگاری:
یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اچھی نوکری کا فقدان اور سفارش کی وجہ سے ضرورت
مند کا حق مارا جانا عام سی بات ہے۔ اسی بے روزگاری کی وجہ سے لوگ بیرون
ملک ملازمت پر مجبور ہیں۔
حل:
میرٹ پہ نوکری دی جائے۔ سفارش اور رشوت سے پاک نظام قائم کیا جائے۔ کوئی
ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جہاں تعلیم یافتہ لوگ اپنی صلاحتوں کا لوہا
منوا سکیں اور انہیں ملک میں ہی ترقی کے مواقع میسر آئیں۔
زیادہ سے زیادہ فیکٹریاں لگائی جائیں تاکہ لوگوں کو روزگار میسر آئے۔ ملک
کو اتنا مضبوط کیا جائے کہ باہر سے لوگ ادھر سرمایہ کاری کریں۔
پانی کی دستیابی:
پانی کا مسئلہ دور حاضر کا سب سے بڑا مسئلہ تصور کیا جا رہا ہے۔ پانی کے
بغیر زندگی نا گزیر ہے۔
حل:
زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائے جائیں تاکہ پانی کے ذخائر ضائع نہ ہو۔ کوئی ایسا
نظام قائم کیا جائے جس کے ذریعے کھارے پانی یا گندے پانی کو قابل استعمال
بنایا جائے۔
دیگر ممالک کی طرح پانی کے بے دریغ استعمال پہ ٹیکس لگایا جائے اور قانونی
کاروائی کی جائے تاکہ سڑکوں پہ پانی بہانے والے اس کی قدر کر سکیں۔
بجلی کی فراہمی:
لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بھی درپیش مسائل میں اولین ہے۔
حل:
زیادہ سے زیادہ بجلی گھر قائم کیے جائیں۔ ڈیم بنائے جائیں جس سے بجلی کی
پیداوار بڑھائی جائے۔ شمسی توانائی کے یونٹ قائم کیے جائیں جس سے بجلی کا
حصول ممکن ہو۔ بجلی کے متبادل ذرائع روشناس کروانے والے طلبہ کی حوصلہ
افزائی کی جائے اور انہیں سرمایہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ اس کام کو بڑے
پیمانے پہ کر سکیں۔
تعلیم:
کسی ملک کی ترقی میں تعلیم یافتہ افراد کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ اقتصادی
ترقی کے اس دور میں جدید تعلیم سے آراستہ ہو کر ہی ملک دیگر ممالک کے شانہ
بشانہ چل سکتا ہے۔
حل:
ریاست بنیادی پرائمری تعلیم مفت اور لازمی کرے۔ عورتوں کی مڈل تک تعلیم
لازمی قرار دی جائے۔ بجٹ میں تعلیم کے لیے زیادہ حصہ مختص کیا جائے۔ طلبہ
کے لیے زیادہ سے زیادہ وظائف کا اعلان کیا جائے۔ اسکولوں میں ٹیکنیکل
ایجوکیشن لازمی جز بنا دی جائے۔
کرپشن:
کرپشن کا میدان پاکستان میں ہر جگہ گرم ہے۔ تب ہی پاکستان کو بری طرح نقصان
سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔
حل:
کرپشن کے لیے ایسا مونیٹرنگ سسٹم بنایا جائے کہ ہر فرد اپنے فعل کا جواب دہ
ہو۔
صحت:
علاج معالجے کی سہولیات شہریوں کا بنیادی حق ہیں۔
حل:
زیادہ سے زیادہ ہسپتال اور ڈسپنسریاں قائم کی جائیں۔ فلاحی مراکز قائم کیے
جائیں۔ بزرگ افراد کا علاج معالجہ مفت ہو۔ پیدائشی معذور اور خصوصی بچوں کا
علاج مفت کیا جائے۔
عدالتی نظام:
عدالتی نظام میں بہت بہتری کی گنجائش ہے۔ دیوانی مقدمات میں لوگ دنیا سے
چلے جاتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا۔
حل:
شرعی عدالتیں قائم کی جائیں۔ سستا اور فوری انصاف مہیا کیا جائے۔ اس کے
علاوہ دہشت گردی کا خاتمہ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے تاکہ ملک میں امن و امان
قائم کیا جا سکے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام اداروں کا مل کر کام کرنا
بے حد ضروری ہے۔ ان تمام مسائل کے حل کے بعد ہی پاکستان ایک مضبوط اور
مستحکم مملکت بن سکتا ہے۔ کیونکہ ہر فرد کی خواہش ہے وہ ایک ایسا ملک چاہتا
ہے جہاں بھوکے کو اناج ملے، بیمار کو علاج ملے، مفلس کو روزگار ملے، یقین
ملے اعتبار ملے، بلاتفریق انصاف ملے، کرپشن سے نجات ملے، تعلیم کا یکساں
نظام ملے، کشکول سے براء ت ملے، قاضی و حاکم آزاد ہو، بلا تفریق احتساب ہو،
مہنگائی کا ستیاناس ہو، بدعنوانی کا حساب ہو، زینب جیسی کلیاں کھل سکیں،
تھر کے بچے پیٹ بھر سکیں، قصور کے بچے سر اٹھا سکیں، اسکولوں سے بچے واپس آ
سکیں، ہم ایسا دیس چاہتے ہیں جہاں، نہ بارود کی بو رچی ہو، نہ خون کے
چھینٹے بکھرے ہوں، نہ خود کش حملہ آور ہوں، نہ دہشت گردی کا عفریت ہو، نہ
بجلی کا فقدان ہو، نہ گیس کا کوئی بحران ہو، نہ پانی سے کوئی پریشان ہو، ہر
شہری کو اطمینان ہو۔
اﷲ تعالی نئی حکومت کو توفیق دے کہ وہ عوام کے وعدوں اور قائد کے خوابوں پہ
پوری اتر سکے آمین۔ |