ٓآج میں حسب معمول آفس سے گھرآیاتوبیوی کامزاج
بگڑاہواتھا۔میرے پاس بیٹھتے ہی سب سے پہلے دودھ والے کوآڑے ہاتھوں
لیا۔ــ"روزانہ دودھ کم لے آتاہے۔اب دودھ پہلے کی طرح خالص بھی نہیں
رہا۔گھنٹہ بھرآنچ پررکھنے سے بالائی نام کی کوئی چیز نظرنہیں آتی جبکہ دودھ
کی فی کلوقیمت سو روپے کے بجائے ایک سوبیس کردی ہے۔۔۔بس آج ہی حساب کرلیں ،
جتنے پیسے بنتے ہیں ، وہ کل دیدیں گے اورباقی نہیں لیناہے دودھـ"۔۔ میں نے
سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔"یہ تمھیں کیاہوگیاہے۔۔برسوں سے اسی دودھ والے سے
دودھ لیتے ہیں، پہلے توکبھی کوئی ایسامسئلہ نہیں تھا، یہ اچانک دودھ کی
قیمت اورمیعار کس تناسب معکوس کے ساتھ بگڑگئیـ" ۔۔ میں نے دودھ کے فوائد،
بچوں کی ذہنی اورجسمانی صحت پر اسکے اثرات اورپھردودھ پتی چائے کی لذت پر
ایک جامع لکچردیاتوبیوی نے توپوں کارخ پرائیویٹ سکولوں کی طرف
کردیا۔"سالانہ فیسوں میں حسب معمول اپنی مرضی کااضافہ توکرتے ہیں لیکن
ہرماہ کسی نہ کسی نئی فیس کابھی اطلاق کرتے ہیں۔ کتب اورکاپیوں کی قیمتیں
آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔اس سے تواچھاہے بچوں کو سرکاری سکول میں داخل
کروادے، کتب اورکاپیاں مفت میں ملتی ہیں اورہاں آج کل توصوبائی حکومت نے
نئی نئی اصلاحات کرکے سرکاری سکولوں میں تعلیم کے معیارکوبہت
بلندکردیاہے۔سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ سرکاری سکول والے اب یونیفارم کے لئے
بھی بچوں کو الاؤنس بھی دیتے ہیں۔۔"۔۔۔اوہو۔۔یہ کیاہواہے تمھیں۔۔آج توتم
خلاف معمول بولنے لگی ہو ، میں نے سمجھانے کی کوشش کی۔جس پر وہ کچھ دیرکے
لئے خاموش ہوگئی اور مزاج کے ساتھ ساتھ اپنا قیافہ کو بھی درست کرنے کی
کوشش کی۔کچھ دیربعدجب وہ ذراسنبھل گئی تومجھے کہنے لگی کہ بجلی والوں نے
بجلی کابل بھیج دیاہے۔۔۔میں نے مسکراکر کہا۔۔۔ ــ" وہ تومجھے پتاہے، ہرماہ
بھیجتے ہیں۔۔"۔۔۔ہرماہ بھیجتے توہیں لیکن اس دفعہ کچھ مختلف ہے، بیوی نے
جواب دیا۔۔۔بیوی کاجواب کیاتھا، جیسے میرے اوپربجلی گرگئی ہو۔میرے چہرے سے
مسکراہٹ ایسے غائب ہوگئی جیسے گدھے کے سرسے سینگ ۔
تیس ہزارروپے۔۔۔۔۔بجلی کابل آیاہے۔میں کافی دیرتک سوچتارہا، پھربیوی سے
کہنے لگا۔۔یہ کوئی ایسی انوکھی بات تونہیں ہے، جس کے لئے تم نے اس قدرقیامت
برپاکردی ہے۔شایدتین چارماہ سے میٹرمیں بقایاجات تھے اورچونکہ اس ماہ
توپیسکووالوں نے تمام بجلی کے میٹرکیمروں کی مددسے چیک کئے ہیں اورشکرہے اﷲ
کاکہ ہم باروزگارہیں اوراس ماہ کی تنخواہ میں دیگرضروریات کو محدود کرکے
بجلی کابل اداکرلیں گے۔خودکے ساتھ ساتھ بیوی کابھی حوصلہ بڑھایا۔
محلے میں ہرکسی کے منہ پر یہی الفاظ تھے۔اس ماہ توبجلی گرادی ہے ، بجلی
والوں نے۔ایک غریب گھرانے کے لئے ، جومشکل سے مزدوری کرکے اپنے بچوں کاپیٹ
پالتے ہیں، جب تیس ہزاریاچالیس ہزارروپے بجلی کابل آئے تویہ واقعی ناممکن
ہوتاہے۔ وہ ساری زندگی مزدوری کرلے ،تب بھی وہ اس بوجھ کواٹھانے کی سکت
نہیں رکھ سکتے۔غریب عوام پر پہلے سے مہنگائی کابوجھ بڑھاہواہے۔ تیل، گیس ،
اشیائے خورونوش، دوائیاں، تعلیم وغیرہ کے اخراجات میں کافی اضافہ ہواہے۔ایک
عام گھرانے کے لئے معمول کابجلی بل ایک ہزارسے لیکر پانچ ہزارماہانہ تک
آتاہے، جس کووہ مشکل سے اداکرتے ہیں ، لیکن ایسے حالات میں جب واپڈاوالے
غیراعلانیہ طورپر توقعات سے بڑھ کربجلی کابل بھیج دیتے ہیں تویہ واقعی عوام
کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں۔پیسکووالوں کی نااہلی کی انتہاکہ پورے موسم
گرمامیں میٹروں کی چیکنگ نہیں کرتے اوراندازے سے بجلی کے بل بھیجتے
ہیں۔پھرجب دل میں آیاتواچانک نئی پالیسی بناڈالی اورایک ہی ماہ میں تمام
میٹروں کوموبائیل فون کے کیمروں سے تصاویرلے کرچیک کردئے اورتمام لوگوں کے
پیچھے ایسے بل بھیج دئے ،جس نے انہیں دن میں تارے دکھادئے۔کس قدراحسن اقدام
ہوتااگرواپڈاوالے،یہ تمام بقایاجات تین چارماہ کی قسطوں میں وصول کرلیتے ۔اسی
طرح غریب عوام کے ناتواں کندھوں پر اس قدربھاری بوجھ نہ پڑتا، جس کووہ
اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے اوربل اداکرنے کے لئے کسی سے قرض لینے، گھرکی
کوئی قیمتی چیزاونے پونے داموں فروخت کرنے ، اپنے بچوں کوسکول سے نکال
کرمزدوری پرلگانے یافاقہ کشی پرمجبورہوتے ہیں۔بجلی والو!کچھ توخداکاخوف
کرو۔ایک طرف غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ سے غریب عوام کی زندگی اجیرن ہوئی ہے ۔دوسری
طرف غیراعلانیہ اصلاحات کرکے غریب عوام سے بجلی کے بقایاجات وصول کرنے کے
لئے ان پر بجلی گراتے ہو۔جس سے انکی زندگی مزیدمشکل ہوجاتی ہے۔اس ضمن میں
واپڈاوالوں کوکوئی ایسی پالیسی بنانی چاہئے، جس سے بجلی کی چوری ختم ہوجائے،
بقایاجات وصول کئے جائیں، لیکن غریب عوام کی ضروریات اورآمدنی کومدنظررکھتے
ہوئے انہیں بجلی بل بھیج دئے جائے۔ |