گداگری کاروبار یا مجبوری

"اللہ کے نام پر دے دو بابا"
اس جملے کو ہم روزانہ دن میں کتںی بار سنتے ہیں ہر روز فٹ پاتھ پر اور بازاروں میں ہمیں یہ جملے سنائی دیتے ہیں لیکن ہم کبھی اس پر غور وفکر نہیں کرتے کبھی اس جملے پر توجہ نہیں دیتے ہمیشہ معاف کر دو پر ہی اقتفادہ کرتے ہیں اور جان چھڑانا ہی مناسب سمجھتے ہیں مگر اس جملے کے پیچھے ضرور ایک داستان چپھی ہوتی ہے اس جملے کا کوئی نہ کوئی کردار ضرور ہوتا ہے جس پر ہم کبھی غور ہی نہیں کرتے اس جملے کے پیچھے یا تو ایک بوڑھی ماں بھوک سے نڈھال ہوتی ہے اور منتظر رہتی ہے کہ اس کا معصوم جگر گوشہ سڑکوں پر ہاتھ پھیلا کر کچھ لائے گا جس سے وہ اپنے اور اپنے بچوں کی بھوک کو مٹا پائے لیکن ہر کہانی کے دو پہلو ہوتے ہیں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک گروہ کا سردار اس انتظار میں بھیٹا ہوتا ہے کہ یہ معصوم کچھ لائے اور یہ اسے اپنی جیب میں ڈال کر اس معصوم کو دوسری طرف بھیک مانگنے کے لیے روانہ کرے اکثر ہم نے یہ منظر دیکھا ہوگا کہ ایک غریب عورت جس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا معصوم بچہ ہوتا ہے اور وہ کسی فٹ پاتھ پر ہاتھ پھیلائے بھیک مانگ رہی ہوتی ہے اگر میں یہاں اپنی بات کروں تو میں نے ہمیشہ یہ منظر دیکھا ہے کہ وہ بچہ اس عورت کے کے پاس نیند کی حالت میں ہوتا ہے سڑکوں کی چہل پہل اور گاڑیوں کے شور پر بھی اس کی آنکھ نہیں جھپکتی اس بات پر غور وفکر کرنا چاہیے کہ واقع یہ بچہ اس کا ہے یا پھر اس نے گداگری کاروبار کے لیے بچہ اغواء کیا ہے گداگری کسی منافع بخش کاروبار سے کم نہیں یہ لوگ اپنے اس مقصد کے لیے چھوٹے بچوں کو اغواء بھی کرتے ہیں پھر ان بچوں کو لے جا کر معزور بنانے کے مختلف طبعی طریقے اختیار کرتے ہیں بعض علاقوں میں ان گروہوں کو پولیس کی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے جس کے عیوض وہ پولیس کو باقاعدگی کے ساتھ ہفتہ پہنچاتے ہیں ان سب چیزوں کے بعد ذہن میں اس سوچ کو تقویت ملی کہ گداگری اج کل مجبوری نہیں بلکہ ایک کاروباری شکل اختیار کر چکی ہے
 

Aisha Saleem Sheikh
About the Author: Aisha Saleem Sheikh Read More Articles by Aisha Saleem Sheikh: 7 Articles with 5270 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.