جناب چیف جسٹس! آپ مطمن ہیں تو ٹھیک ہے

جناب چیف جسٹس! آپ اس ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کے امین ہیں۔ پاکستان کے آئین کی حفاظت آپ کا فرض اولیں ہے۔ اس ملک کے تمام افراد کو یکساں انصاف فراہم کرنااور کرانا آپ کے فرائض کا حصہ ہے۔ کسی بھی جگہ کوئی زیادتی، بے انصافی، انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور جبر کے خلاف آپ کی حیثیت ایک تلوار سی ہے۔ اس منصب پر آپ کی تعیناتی ،یہ عزت اور یہ وقار آپ پر رب العزت کا خاص احسان ہے۔ پاکستان کے آئین کے تمہیدی کلمات میں کہا گیا ہے کہ، ’’چونکہ اﷲتبارک تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار اور اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہو گا، وہ ایک مقدس امانت ہے، چونکہ پاکستان کے جمہور کی منشاء ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے، جس میں مملکت اپنے اختیارات اور اقتدار کو جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی؛ جس میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پوری طرح عمل کیا جائے گا‘‘۔ علاوہ از ایں ،آئین کی دفعہ 227 (1) کے مطابق ،’’تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو‘‘۔

میں ایک عام آدمی ہوں،جس کو قرآن اور حدیث کے حوالے سے بہت کم سمجھ بوجھ ہے اور جو قانونی معاملات کو بالکل بھی نہیں سمجھتا، پھر بھی میں محسوس کرتا ہوں کہ اس ملک میں اسلام کی روح کے مطابق یا تو قانون ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو عام آدمی کیوں زیادتی کا شکار ہے، اسے انصاف ملتا ہی نہیں اور اگر ملتا بھی ہے تو اس قدر تاخیر سے کہ اس کی افادیت ختم ہو جاتی ہے۔جبکہ پاکستان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو جب چاہتا ہے فوری انصاف حاصل کر لیتا ہے اور وہ بھی اپنی مرضی کا۔ اسلام تو ایسے طبقاتی انصاف کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام تو بہت بڑی بات، دنیا کا کوئی مہذب معاشرہ طبقاتی انصاف کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر یہاں ایسا کیوں ہے ، یہ میرے ذہن میں ایک چبھتا سوال ہے مگر جناب چیف جسٹس!آپ مطمن ہیں تو ٹھیک ہے۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہے،’’ اے نبی ، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے تا کہ جو راہ راست اﷲ نے تمہیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تم بد دیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنواور اﷲ سے در گزر کی درخواست کرو۔وہ بڑا در گزر فرمانے والا اور رحیم ہے۔ جو لوگ اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں تم ان کی حمایت نہ کرو۔ اﷲکو ایسا شخص پسند نہیں جو خیانت کار اور عصبیت پیشہ ہو‘‘۔ قرآن کے یہ احکامات تو ہمارا ایمان ہے ۔ مگر کیا کروں، روز خبریں آتی ہیں کہ کسی جج نے کوئی فیصلہ کیا مگر کسی دوسرے جج نے اس فیصلے کو بدل دیا۔حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے فیصلے بھی ،ہائی کورٹ جو سپریم کورٹ کے مقابلے میں کچھ کم تر کورٹ ہے، میں تبدیل ہو رہے ہیں۔فیصلے تو امانت اور دیانت کے ساتھ قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔ ایک مسلمان جج تو ایسا نہیں کر سکتا۔ سوچتا ہوں ایسا کیوں ہے۔یہ باتیں بہت غور طلب ہیں۔اس لئے کہ ان کے نتیجے میں عام لوگوں میں عدلیہ کے بارے کچھ منفی تاثر ابھرتا ہے لیکن جناب چیف جسٹس آپ مطمن ہیں تو ٹھیک ہے۔

ارسطو نے کہا ہے کہ اگر کسی ملک کے ادارے صحیح کام نہ کر رہے ہوں تو یقینا وہاں کا نظام عدل ٹھیک کام نہیں کر رہا ہوتا۔نظام عدل کے بارے تو کوئی بات کرنے کی میں جرآت نہیں کر سکتاکہ قانون سے نابلد ہوں مگر میں اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے جہاں دیکھتا ہوں اور جس ادارے پر نظر ڈالتا ہوں ، مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ہر جگہ بگاڑ ہی بگاڑ۔گو اس بگاڑ میں پارلیمان کی بہت بڑی کوتاہی شامل ہے مگر لوگوں کو پارلیمان کے ممبروں سے کچھ زیادہ امید نہیں۔ ان لوگوں میں اتنی سوچ اور فہم ہی نہیں۔ وہ فقط طاقت کے بل پر اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ ہاں البتہ لوگ امید کرتے ہیں کہ قانون طاقتور لوگوں کو طاقت کے جوہر دکھانے سے روک کر رکھے ۔ مگر افسوس، عام لوگوں کو قانون یہ تحفظ دینے میں بھی ناکام ہے۔ ارسطو نے سچ کہا ہے،’’قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات یعنی چھوٹے ہی پھنستے ہیں۔ بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں‘‘۔ میں عرصے سے یہی دیکھ رہا ہوں کہ عام آدمی انصاف کو ترستا ہے۔ الیٹ کلاس انصاف ہتھیا کر لے جاتی ہے۔ اس سلسلے میں قانون کے رکھوالوں سے بہت کچھ کی توقع ہے ہاں مگر جناب چیف جسٹس! آپ مطمن ہیں تو ٹھیک ہے۔

جناب چیف جسٹس!میں ایک پروفیسر ہوں کسی مہذب معاشرے میں ہوتا تو بہت صاحب عزت ہوتا۔ مگر جہاں طاقت کی عزت ہو وہاں میری حیثیت حشرات جیسی ہی ہے۔چند سال پہلے میں کوشاں تھا کہ برسوں سے ہائی کورٹ میں لٹکے میرے ایک کیس کو کسی طرح سن لیا جائے فیصلہ جو بھی ہو، یٹائرڈ سرکاری ملازم کے پاس مہنگے وکیل سے مشورے کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔ ہمت کرکے میں نے اس وقت کے چیف جسٹس سے ملنے کی کوشش کی کہ کیس لگ جائے مگر ملاقات میں ناکام رہا۔ ہاں مگر ایک بڑے آدمی کا کیس ایک نامور وکیل کروڑوں لے کر کیسے ہر جگہ گھس جاتا اور بڑے آدمی کی مرضی کا فیصلہ لے لیتا ہے۔ پچھلے سالوں میں جب سپریم کورٹ پوری طرح سوموٹو اگل رہا تھا تو جہاں بہت سے غریب لوگوں کو فائدہ ہوا وہاں سال بھر میں ایک آدھ کیس کرنے والے وکلا کی بھی حالت بدل گئی ۔ بڑے لوگ جو سوموٹو کا شکار ہوئے ان وکلا نے چند کروڑ کے عوض انہیں آسانی سے بچا لیا۔ یہ کیسے ہو جاتا ہے، عام آدمی سمجھ نہیں پاتا۔ چار پانچ سال پہلے میں نے ایک عدالت میں جج صاحب کوایک سینئر وکیل کا اس انداز میں پر تپاک انداز میں خوش آمدید کہتے دیکھا کہ سب سائل ان وکیل کی طرف مائل ہو گئے اور ان کا پتہ ڈھونڈنے لگے۔ ججوں کا ایسا رویہ کچھ ٹھیک نہیں ۔ میرے خیال میں اسے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے مگرجناب چیف جسٹس!آپ مطمن ہیں تو ٹھیک ہے۔

عجیب بات کہ ہر پوسٹ کے لئے میرٹ سخت سے سخت ہوتا جا رہا ہے ۔ لیکن اس ملک کے دواہم ستون پارلیمنٹ اور عدلیہ کے لئے کوئی معیار نہیں ۔ ہائی کورٹ کے جج کے لئے دس سال کی انرولمنٹ کا معیار ہے اور اس کے بعدکسی جج کا بیٹا ہونا یا کسی سیاسی پارٹی یا گروپ کا ممبر ہونا۔ شاید لیاقت ججوں کے بیٹوں کا وصف ہے، عام آدمی کا بچہ جتنا مرضی لائق فائق ہو، وہ جج نہیں بن سکتا اس لئے کہ اس کے پاس کوئی حوالہ نہیں ہوتا۔لوگ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ وہ سیاسی وکیل جنہوں نے دس سالہ انرولمنٹ میں ایک آدھ کیس کا مذاق ہی کیا ہوتا ہے وہ بھی زیادہ تر قبضہ گروپوں کا اور جنہیں پوری طرح لکھنا بھی نہیں آتا، کیسے آسانی سے جج بن جاتے ہیں ، یہ ذمہ داروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ایک سینئر وکیل بتا رہے تھے کہ کوشش کے باوجود وکلا برادری اپنے میں موجود جعلی ڈگری ہولڈر یا بغیر ڈگری والے وکلا سے ابھی تک پوری طرح نجات نہیں پا سکی۔ اگر آج کچھ ہمت کرکے ججوں کی اپوائنٹمنٹ کے لئے ایک میرٹ مقرر کر دیا جائے اور کالے کوٹ والوں میں موجود ایک چھوٹے مختصر سے گروپ کی کالی حرکات پر قابو پا لیا جائے تو یہ اس قوم پر بہت بڑا احسان ہو گا، مگر جناب چیف جسٹس آپ مطمن ہیں تو ٹھیک ہے۔

جناب چیف جسٹس ! وقت بدل رہا ہے۔اگلے دس بار ہ سال میں عدالتوں کی صورت حال مکمل بدل جائے گی۔ اسلئے کہ ایک نیا مضمون (Decision Science) دنیا میں متعارف ہو رہا ہے۔یہ مضمون جج صاحب کا رول بدل دے گا۔ کمپیوٹر میں دونوں فریقوں کے دلائل ڈال دئیے جائیں گے۔ جج صاحب اپنا موقف بھی دیں گے۔ کمپیوٹر فیصلہ لکھے گا کہ کون فریق صحیح ہے اور کون غلط۔ نہ صرف فیصلہ بلکہ جج صاحب کی آرا کے بارے بھی بتائے گا کہ وہ صحیح ہیں یا تعصب پر مبنی۔ میں سمجھتا ہوں کہ روایتی ججوں کی اس آخری نسل کو تاریخ میں ایک بہتر مقام کے لئے اپنا بہت کچھ بدلنا ہو گا، ورنہ تاریخ تو بہت ظالم ہے مگر لوگ قیوم ملک کی صورت بھی زندہ ہیں۔اس وقت ایک امین کی حیثیت سے آپ کو بہت کچھ کرناہے رب العزت کے دربار میں موجودہ حالات کا آپ کو جواب دینا ہے اور اگر جناب چیف جسٹس! آپ مطمن ہے تو ٹھیک ہے۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 441485 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More