عالیشان پلنگ کے بھوکے بھکاری ملنگ

اب سے ٹھیک دو سال پہلے سوشل میڈیا پر ایک بلاگ شائع ہؤا تھا جس کا عنوان تھا " کیا مرد اتنے ہی غیرتمند ہیں؟ " اور تحریر کا آغاز ہی اس جملے سے کیا گیا تھا " ویسے تو مرد بڑا غیرتمند بنتا ہے مگر سوتا اسی بستر پر ہے جو اس کے سسر نے دیا ہوتا ہے "-

ہم ناچیز کا یہ کمنٹ ٹاپ پر گیا تھا " جب تک مرد کی شادی نہیں ہوتی وہ کہاں سوتا ہے؟ فٹ پاتھ پر؟ بیوی کے جہیز کے پلنگ پر سونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ خود اپنا بستر افورڈ نہیں کر سکتا ۔ لوگ اپنی بیٹی کو جو کچھ دیتے ہیں وہ ایک تحفہ ہوتا ہے اور آج کل تو کچھ لڑکیاں خود فرمائش کر کے ماں باپ سے اپنی مرضی اور پسند کا سامان لیتی ہیں ۔ ہاں لڑکے والوں کی طرف سے مطالبات اور فرمائشیں غلط بات ہے "-

چند ریپلائز بھی لگے تھے جن میں اتفاق اور پسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا ایک خاتون نے لکھا " میرے والدین نے مجھے جہیز نہیں دیا تھا مگر میرے شوہر یا سسرال والوں نے مجھے کبھی اس بات کا طعنہ نہیں دیا اور پوری عزت دی ۔ پھر میں نے بھی اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دیا اور بیٹے کی شادی کی تو بہو بغیر جہیز کے لائی اور ماشاء اللہ سب اپنے اپنے گھروں میں خوشحال ہیں "-

ہم نے جواب میں لکھا " آپ بہت خوش نصیب ہیں کہ جہیز نہ لیا نہ دیا اور عزت و خوشحالی کی زندگی پائی ۔ پاکستان میں ہونے والے چند کیس میرے علم میں ہیں کہ لڑکے نے جہیز لینے سے انکار کر دیا اور فرنیچر کے علاوہ دیگر ضروری سامان بھی خود لے آیا مگر اس بات کی خبر نہیں رکھی کہ اس جرم کے نتیجے میں اس کے گھر والے اس کی بیوی کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں کیسے اپنے لفظوں کے تیروں سے اس کی عزت نفس کو مجروح کر رہے ہیں ۔ لڑکی کا اس سامان پر کوئی اختیار تھا نہ کمرے پر ۔ سسرال والے اسے اپنے بیٹے کا مال سمجھ کر اپنا حق قائم رکھے ہوئے تھے اور جو لڑکے بیرون ملک سے آ کر شادی کے بعد واپس لوٹ گئے تھے تو پھر دلہن کا کمرہ کسی مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا وہ بےچاری مجبور اور شرمندہ کہ ماں باپ نے اسے بغیر جہیز کے رخصت کیا تھا اور لڑکے یا اس کے گھر والوں سے یہ معاملہ کلئیر نہیں کیا تھا کہ بعد میں اسے اس بات پر طنز و تشنیع کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا اور اسے اس کی پرائیویسی اور کمفرٹ سے محروم نہیں کیا جائے گا ۔ مڈل اور لوئر کلاس میں فرنیچر نہ لانے والی یا کم سامان لانے والی لڑکی کے کمرے میں کیسے سسرال والوں کے ڈیرے ڈلے رہتے ہیں اور وہ کیسے دو کوڑی کی ہوئی رہتی ہے یہ میں نے کئی گھروں میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے "-

اس وقت یہ سب اس لئے یاد آ گیا کہ جہیز ہی کے موضوع پر بنی ایک مووی " لوڈ ویڈنگ " دیکھنے کا اتفاق ہؤا اور اس میں بھی ایک جگہ یہی ڈائیلاگ بولا گیا " ویسے تو مرد بڑا غیرتمند بنتا ہے مگر سوتا بیوی کے جہیز کے بیڈ پر ہی ہے " ہم سمجھتے ہیں کہ مرد کی غیرت کا تعلق بیوی کے بیڈ سے وہاں جوڑا جائے جہاں اس نے جہیز مطالبہ کر کے لیا ہو تب تو واقعی شرم کی بات ہے لیکن اگر لڑکی کے ماں باپ نے خود اپنی خوشی سے اپنی بیٹی کو اپنی حیثیت کے مطابق فرنیچر وغیرہ دیا ہے تو اب اس کے شوہر کو کیا کرنا چاہیئے؟

کیا وہ بیوی کے ساتھ بستر پر نہ لیٹے؟ کمرے میں اپنی ایک الگ چارپائی ڈال لے؟ یا نیچے چٹائی بچھا لے؟ یا وہی بستر اٹھا کر اندر لے آئے جس پر وہ شادی سے پہلے سویا کرتا تھا؟ پھر یہ سب لڑکی کو اچھا لگے گا یا اس کے ماں باپ کو جب انہیں معلوم ہوگا کہ ان کی بیٹی اور داماد اپنے اپنے الگ بستروں پر سوتے ہیں ۔ پھر بھی تو کلیجے پر تیر چلیں گے ۔

اسی طرح کچھ عرصہ قبل اپر کلاس اور شوبز سے متعلق خواتین نے ایک مہم چلائی تھی جہیز خوری بند کرو ۔ شادی بیاہ بار بار بیاہ اور مختلف نوع کی تقاریب پر اندھا دھند اخراجات اور پیسے کو پانی کی طرح بہانے والوں کے منہ سے یہ بات بس ایک ڈرامہ ہی لگ رہی تھی پتہ نہیں وہ آخر مخاطب کس سے تھیں؟ اور کل ہی ایک دلخراش پوسٹ نظر سے گذری ایک باپ نے عین شادی والے روز اپنی بیٹی کی اس وجہ سے شادی ملتوی کر دی کہ بےغیرت لڑکے والوں نے منہ مانگے جہیز کے ساتھ ساتھ عالیشان پلنگ کا بھی مطالبہ کیا اور مسلسل بدکلامی کرتے رہے اور اس سے کہیں زیادہ اندوہناک واقعہ ، تین چار روز پہلے ایک باپ ایسے ہی جہیز کے لالچیوں کے عین وقت پر بائیک کے مطالبے کی وجہ سے پھانسی کے پھندے پر جھولتا ہؤا نظر آیا ۔ اب کیا کہیں ایسے ذلیل کمینے لوگوں پر لعنت بھیجنے کی بجائے ان کی وجہ سے اپنی اتنی قیمتی جان حرام موت کے حوالے کر دی ۔ بہت سارے کیس ہو چکے ہیں خود لڑکیوں کی بھی خودکشی کے ۔ شادی نہ ہونے سے دنیا ختم نہیں ہو جاتی مگر انہوں نے اس سماج کی ذلالتوں سے دلبراشتہ ہو کر خود کو ختم کر لیا ۔ کیا جہیز کے لالچی گھٹیا لوگ اس لائق ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے جان دے دی جائے؟ ان بھکاریوں کو یہ اعزاز مت بخشیں یہ تو زکوٰة خیرات اور صدقات کے مستحق ہوتے ہیں جیسے ہی یہ اپنی اوقات دکھائیں ان پر لعنت بھیج دیں اللہ ضرور کوئی اور سبب پیدا فرما دے گا ۔ ان نوجوانوں کو بلاشبہ ڈوب کے مر جانا چاہیئے جن کی وجہ سے کوئی لڑکی مایوں بیٹھی رہ گئی کوئی دنیا چھوڑ گئی اور کہیں کوئی باپ پھانسی کے پھندے پر جھول گیا ۔ کام تو دنیا میں ایسے بےغیرتوں کا بھی کوئی نہیں (رعنا تبسم پاشا)

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 226 Articles with 1695047 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.