’آج تم یاد بے حساب آئے‘

فیضؔ کے شعر کا یہ پہلا مصرعہ ہے، شعر یہ ہے ’’کررہا تھا غمِ جہاں کا حساب ۔ آج تم یاد بے حساب آئے‘‘۔ تو جناب میں غم جہاں کا حساب تو نہیں کررہا تھا البتہ 6 اپریل کی شب اپنے مرحوم دوست عبد الصمد انصاری کے بیٹے سعودانصاری کے ولیمہ کی تقریب میں شریک تھا ، شرکت تو اپنے تمام اہل خانہ کے ہمراہ کرنا تھی لیکن ایسی مجبوری عین وقت پر آن پڑی کے مجھے تنہا وہ بھی چند لمحوں کے لیے شرکت کرنا پڑی۔ شادی سے کافی دن قبل فرزانہ صمد انصاری نے فون پر دعوت دی، وہ خود آنا چاہتی تھیں میں نے کہا کہ آپ زحمت نہ کریں ایسا ہی ہے تو دعوت نامہ واٹس اپ کردیں کافی ہے۔ بیگم ، بیٹے اور بہو سے بھی بات ہوگئی کہ وہاجانا ہے، سب لوگوں نے خوشی سے شرکت کی باتیں کیں، کافی دیر صمدانصاری ہماری یادوں میں رہے۔ انہی دنوں ہماری خوش دامن صاحبہ جو ہماری حقیقی خالہ بھی تھیں اچانک گرپڑیں ، ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی، آپریشن ہوا، وہ تو کامیاب ہوگیا لیکن سانس کی تکلیف نے انہیں ایسا آن گھیرا کہ آخری وقت تک آکسیجن لگی رہیں، علالت بڑھتی گئی ، اسپتال اور پھر اسپتال سے گھر ، آخر وہ 5اپریل کو اللہ کو پیاری ہوگئیں، 6اپریل کو سوئم رکھا گیااور اسی دن سعود میاں کا ولیمہ تھا۔ بڑی مشکل میں تھا ، کہ کروں تو کیا کروں، بیگم سے کہا کہ میں جانا چاہتا ہوں چاہے کچھ دیر کے لیے ہی جاؤں۔ سوئم کی فاتح سے فارغ ہوکر ہم نے کپڑے تبدیل کیے جوہم صبح ہی اپنے ہمراہ لے گئے تھے، خیال کیا کہ کسی کو بتائے بغیر خاموشی سے نکل لیں گے لیکن پھر بھی بعض احباب نے ہمیں یک دم مختلف لباس میں دیکھا تو سوال تو اٹھنا ہی تھے جن کی وضاحت کرنا پڑی۔ اگر نہ گیا تو ایک ملال رہ جائے گا ،پھر وقت ملاقات اپنے دوست کو کیا جواب دوں گا۔ ہمارے بیٹے اور بہو اور پوتے صاحب نے ہمیں شادی ہال پر اتارا، شادی ہال تلا ش کرنے میں مشکل پیش نہیں آئی۔ اندر گئے حالانکہ گیارہ کے قریب قریب وقت ہوچکا تھا، لیکن ہال خالی ، احباب کی آمد میں کچھ تیزی محسوس ہوئی۔ شروع ہی میں بیٹھ گیا۔ سعود میاں اور دیگر اسٹیج کے ارد گرد تھے، ہونا بھی چاہیے تھا۔
شروع ہی میں بیٹھ گیا ، حال کا جائزہ لے رہا تھا ، ذہن میں فیض احمد فیضؔ کا یہ شعر گردش کرنے لگا ’ کررہا تھا غمِ جہاں کا حساب ۔ ۔ آج تم یاد بے حساب آئے‘۔بس پھر کیا تھا میرے اعصاب ، دل و دماغ پر میرا دوست چھاگیا، مجھے وہ ہر جانب نظر آنے لگا، میری نظر جس شخص پر پڑتی مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ صمدانصاری فلاں سے مل رہا ہے ابھی مجھ سے آکر ملاقات کرے گا، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس محفل میں صمد انصاری کے چہرے مہرے کی شباہت یا ہم صورتی کئی دکھائی دیے۔ یہ قاضی واجد سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے اور قاضی واجد مرحوم صمدا انصاری کے کزن تھے۔ مجھے ہر ایک صورت میں صمد انصاری نظر آرہا تھا۔جب بھی سعود پر نظر اٹھتی صمدانصاری نظروں کے سامنے ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ سامنے آجاتا ۔ فیضؔ کے بعد ناصر کاظمی کی غزل کے چند شعر ذہن میں آئے
انہیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہوگئے ہیں
جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر ؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں

میں مختصر وقت ہی ہال میں رہا،اس دوران صمد انصاری کا ایک دوست اندر داخل ہوا ، چہرہ بتا رہا تھا کہ کسی کرب میں ہے، میں نے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما، یہ تھا سید آفاق حیدر،عزیز آباد میں رہائش تھی اس کی اب نہیں معلوم کہاں ہوگا، سلام کیا، وعلیکم السلام تو کہا ساتھ کہنے لگا بھائی صمدانی ابھی آتے ہوئے موٹر سائیکل سے سلپ ہوگیا، پیر زخمی ہوگیا ہے۔ میں نے کہا کہ جاؤ پہلے اس تکلیف کا مداوا کرو پھر بات کرتے ہیں۔ دوست تو اور بھی ہوں گے لیکن میری کیفیت جگر جگر دگر دگر ہورہی تھی،اضطرابی کیفت میں میرا بیٹھنا مشکل ہورہا تھا۔کسی شاعر نے کہا ؂
کس عذاب میں چھوڑا ہے تو نے اس دل کو
سکو ںیاد میں تیری نہ بھولنے میں قرار

فیصلہ کیا کہ سعود اور دیگر سے ملاقات کرلوں اور پھر رخصت چاہوں، اسٹیج کی جانب بڑھا تو صمد انصاری کی بڑی بیٹی فائزہ اور اس کے شوہر قیصر بڑھ کر ملے ، فائزہ کی شادی لاہور میں ہوئی،ہم دونوں دوستوں میں یہ بات بھی قدر مشترک تھی کہ میری بیٹی کی شادی بھی کئی سال قبل لاہور میں ہی ہوئی تھی۔اب وہ لاہور سے اپنے شوہر کی ملازمت کے سلسلے میں جرمن سدھار چکی ہے۔ فائزہ سے فیس بک پر رابطہ رہتا ہے، جب بھی اسے فیس بک پر دیکھتا ہوں صمدانصاری کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ اس کا شوہر قیصر بھی محبت سے ملا ، مجھے سعودکے پاس لے گئے ،سعود سے بغل گیر ہوا، مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے اپنے دوست سے بغل گیر ہورہا ہوں ، کافی دیر اسے گلے لگائے رکھا، صمد انصا ری کی خوشبو سے میرا روآں روآں معطر ہورہا تھا۔ خوشی کا موقع تھا، بڑی مشکل سے صمد کی یاد کے آنسوؤں کو چھلکنے سے روکا جب محسوس ہوا کہ اب برداشت ختم ہورہی ہے، الگ ہوگیا، دعائیں دیں۔اسررا لحق مجاز کا شعر ؂
پھر میری آنکھ ہوگئی نمناک..............پھر کس نے مزاج پوچھا ہے

صمد انصاری کی بیگم فرزانہ بھی اسی جگہ موجود تھیں، انہیں مبارک باد دی، فرزانہ میری شاگرد بھی رہیں ، فائزہ بھی کلاس میں تھیں۔صمد سے تعلقات کی نوعیت پہلو در پہلو لیے ہوئے تھی، پیشہ ورانہ دوستی، ذاتی دوستی جسے ہم راز دوست کہا جاتا ہے، گھریلوں تعلقات، دکھ سکھ کے ساتھی، ہم اپنی یشانیوں کے ہی نہیں خوشیوں کے بھی ساتھی تھے۔ صمد انصاری کی زندگی میں فرزانہ اور بچوں کے آجانے سے بہت پہلے ہم ایک دوسرے کی نجی معاملات کے شریک تھے۔ صمد کی بہن حبیبہ خاتون کی شادی، فالج کا حملہ، دوسرا حملہ ، علاج معالجہ، بہنوئی سے معاملات، شادی کے لیے فرزانہ کا انتخاب،شادی سے قبل اسلام آباد فرزانہ کے گھر جانا،شادی، بچوں کے معاملات، مدیحہ کی شادی، بڑی بہن سے معاملات، الغرض مختصر وقت میں ذہن میں کیا کچھ نہیں آیا۔ فرزانہ سے اجازت چاہی ، وجہ بتائی ، واپس ہوا،جوں ہی گیٹ سے باہر پہنچا، پیچھے سے مدیحہ کے شوہر نے کاندھا تھام کر کہا انکل کہا جارہے ہیں، میں نے اسے نہیں پہچانا لیکن اس نے مجھے پہچان لیا تھا، مختصر ملاقات ہوئی، اس سے اجازت چاہی ، بیٹے کو فون کیا کہ فارغ ہوگیا ہوں ، میں ہال کے سامنے مین روڈ پر کھڑا ہوں ،میں جس جگہ بیٹے کا انتظار کررہا تھا وہاں کچھ اندھیرا تھا، ایک دم ایک شخص نے آکر کہا کہ صمدانی صاحب آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں۔ وہ سمجھا کہ شاید مجھے ہال نہیں مل رہا۔ یہ صمد انصاری کے برادر نسبتی ندیم تھے، انہوں نے ہال میں داخل ہوتے ہوئے مجھے دیکھ لیا فوراً چلے آئے ، وہ اس وقت تک کھڑے رہے جب تک بیٹا بہو نہیں آگئے۔ ندیم اور اس کے دیگر بھائیوں سے میری بہت عزت کیا کرتے ، صمد کی ایک خواہر نسبتی (سالی) نام ذہن میں نہیں بھی میری شاگرد رہی، اس کے شوہر سے بھی بہت ملاقاتیں رہیں،مختصر ی کہ میں صمدکی فیملی کا حصہ تھا اور صمد میرے تمام تر گھریلومعاملات میں شامل تھے۔ندیم کو اللہ حافظ کہا اور گھر واپسی ہوا۔عبد الحمید عدمؔ کا اس شعر پر اپنی بات کا اختتام کرتا ہوں ؂
وے صورتیں الہی کس ملک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
(17ااپریل2019ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280555 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More