غزوۂ بنو المصطلق
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ غزوۂ بنو المصطلق یا غزوۂ مریسیع ۶ھ میں ہوا، جب
کہ عروہ کی روایت کے مطابق اس کاسن وقوع شعبان ۵ھ (دسمبر ۶۲۶ء)ہے۔ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ بنو المصطلق کا سردار حارث بن ضراردوسرے
قبائل کو ساتھ ملا کر نوزائیدہ اسلامی مملکت پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا
رہا ہے۔ آپ نے تحقیق کے لیے حضرت بریدہ اسلمی کوبھیجا جنھوں نے ان اطلاعات
کی تصدیق کی تو آپ سات سوصحابہ کا لشکرلے کر خود روانہ ہوئے۔ مکہ کے قریبی
مقام قدید کے پاس واقع مریسیع نامی کنویں کے پاس دونوں فوجیں آمنے سامنے
ہوئیں۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے آپ کے حکم پر حضرت عمر نے اعلان کیا، لا الہٰ
الا اللہ کہہ کر اپنے جان و مال کو بچا لو۔ کافروں نے انکار کیا اور تیر
اندازی شروع کر دی۔ اسلامی فوج نے یک بارگی حملہ کر کے دس مشرکوں کو ہلاک
کیا اور سات سو کو قید کر لیا۔ اونٹوں اور بکریوں کو ہانک لیا گیا۔ ایک
صحابی حضرت ہشام بن صبابہ غلط فہمی سے ایک انصاری کا نشانہ بن گئے۔ حضرت
علی نے بنو المصطلق کے شخص مالک اور اس کے بیٹے کو قتل کیا۔
واقعۂ افک عائشہ
۶ھ:غزوۂ بنومصطلق میں سیدہ عائشہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم سفر
تھیں۔ واپسی کے سفر میں جیش اسلامینے مدینہ کے ایک قریبی مقام پر رات بسر
کی۔ علی الصبح کوچ کا اعلان ہوا تو حضرت عائشہ رفع حاجت کے لیے باہر نکلی
ہوئی تھیں۔ وہ اپنی سواری کے پاس پہنچیں تو گلے میں اپنی بہن سے مستعار لیا
ہار نہ پا کر پلٹیں اور ہار ڈھونڈ کرواپس آئیں تو قافلہ چل پڑا تھا۔ وہ اس
امید میں چادر اوڑھ کر اسی جگہ پڑ گئیں کہ قافلے والے انھیں موجودنہ پا کر
واپس آئیں گے۔ اسی اثنا میں حضرت صفوان بن معطل آئے جو کسی وجہ سے قافلے سے
پیچھے رہ گئے تھے۔ وہ اپنے اونٹ سے اترے ، سیدہ عائشہ کو بٹھایا اور اونٹ
کی مہار پکڑ کر چل پڑے۔ لشکر سے جا ملے تو سب متاسف ہوئے، لیکن منافقین کو
بہتان تراشی کا خوب موقع مل گیا۔ حضرت عائشہ مدینہ پہنچتے ہی شدید بیمار پڑ
گئیں اور ڈیڑھ ماہ اپنے والد کے گھر مقیم رہیں۔ انھیں اپنے خلاف چلائی گئی
منافقین کی مہم کا علم بعد میں ہوا۔ اسی اثنا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے حضرت اسامہ بن زید اورحضرت علی کو بلایا اورحضرت عائشہ کے بار ے میں ان
کی راے دریافت فرمائی۔ حضرت اسامہ نے کہا:وہ آپ کی اہلیہ ہیں ، ہم ان کے
بارے میں خیر ہی جانتے ہیں۔ حضرت علی نے کہا: یا رسول اللہ ، عورتیں بے
شمار ہیں (جن سے نکاح کیا جا سکتا ہے)، تاہم عائشہ کی باندی بریرہ سے پوچھ
لیں، وہ آپ کوصحیح بتائے گی۔ آپ کے بلانے پر آئی تو حضرت علی نے اسے ایک
زور دار ضرب لگاکر کہا:سچ سچ کہنا۔ حضرت بریرہ نے کہا:میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم سے سچ ہی بولوں گی۔ اللہ کی قسم، میں عائشہ کے بارے میں
اچھا ہی جانتی ہوں۔ مجھے ان کا ایک ہی عیب معلوم ہے، میں آٹا گوندھ کر
انھیں کہتی کہ اس کا دھیان رکھیں، وہ بھول کر سو جاتیں اور گھرکی پالتو
بکری آ کر اسے کھا جاتی۔ اللہ کی طرف سے حضرت عائشہ کی پاک دامنی کی گواہی
دی گئی تو وہ اپنے گھر لوٹیں۔
حضرت علی کے جواب پر حضرت عائشہ کو گلہ رہا کہ انھوں نے حضرت اسامہ کی طرح
کھل کر ان کی عفت کی گواہی نہیں دی (بخاری، رقم ۴۱۴۲)۔
صلح حدیبیہ
۶ھ:صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش نے سہیل بن عمروکورسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے معاہدے کی تفصیلات طے کرنے کے لیے بھیجا۔ زبانی معاہدہ طے پا گیاتو
آپ نے حضرت علی کو بلاکراسے تحریر کرنے کو کہا۔ آپ نے'بسم اللہ الرحمٰن
الرحیم'لکھنے کو کہا تو سہیل بولا: ہم اس فقرے کو نہیں جانتے۔ لکھو،'باسمک
اللٰھم'۔ پھر آپ نے لکھوایا، یہ وہ شرائط ہیں جن پر محمد رسول اللہ نے سہیل
بن عمرو سے معاہدۂ صلحکیا ہے۔ حضرت علی لکھ چکے تو سہیل نے کہا : ہمیں
یقین ہوتا کہ آپ رسول اللہ ہیں تو جنگ و جدال ہر گز نہکرتے، اپنا اور اپنے
والد کا نام لکھوائیے۔ آپ نے اس کا اعتراض مان کرحضرت علی سے کہا:لفظ'رسول
اﷲ'مٹاکر'محمد بن عبداﷲ'لکھ دو۔ وہ جھجکے اورکہا : میں اسے ہر گز نہ مٹاؤں
گا تب نبی اکرم نے خود اپنے د ست مبارکسے یہ الفاظ صاف کیے اور محمد بن
عبداللہ تحریر کرایا (بخاری، رقم ۲۶۹۸۔ مسلم، رقم ۴۶۵۴)۔ساتھ ہی حضرت علی
سے فرمایا:ایسی آزمایش تم پر آنی تھی۔ معاہدہ تحریر ہو جانے کے بعد رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چندمسلمان اور کچھ مشرک افرادکی گواہی ڈلوائی۔
حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ، حضرت سعد بن
ابی وقاص ، حضرت محمود بن مسلمہ اور حضرت عبداللہ بن سہیل اہل ایمان کی طرف
سے، جب کہ حویطب بن عبدالعزیٰ اور مکرزبن محصن نے اہل شرک کی جانب سے گواہی
ثبت کی۔ مکرزاس وقت اسلام نہ لائے تھے۔ د س سال کی جنگ بندی کے اس معاہدے
میں طے ہوا کہ فریقین تیغ زنی کریں گے نہ ایک دوسرے سے خیانت کریں گے۔
مسلمان امسال مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس چلے جائیں گے۔ اگلے سال عمرہ
کرنے آئیں گے اور مکہ میں تین دن تک زیادہ نہ رکیں گے۔ اہل مکہ میں سے آپ
کے ساتھ جانے کا خواہش مند یہاں سے نہ جا سکے گا، اس کے برعکس آپ کے صحابہ
میں سے کوئی مکہ میں رہنا چاہے تو اسے روکا نہ جائے گا۔
سریۂحسمٰی
۶ ھ(یا ۷ھ) میں رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی حضرت دحیہ کلبی قیصر
روم کو آپ کا نامہ پہنچا کرشام سے واپس آئے۔ بنوجذام کی سرزمین حِسمی پہنچے
تو اس قبیلے کی شاخ بنو ضلیع سے تعلق رکھنے والے باپ بیٹے ہنید اور عوص نے
انھیں لوٹ لیا۔ ایک نو مسلم قبیلے بنو ضبیب کو خبر ہوئی تو انھوں نے لوٹا
ہوا مال واپس دلایا۔ حضرت دحیہ نے مدینہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے ہنید و عوص کی گوشمالی کی درخواست کی۔ آپ نے حضرت زید بن حارثہ کی
قیادت میں پانسو صحابہ کا لشکر روانہ کیا۔ حضرت زید نے فضافض پہنچ کر بنو
جذامہ پر علیالصبح حملہ کر دیا ، ہنید اور عوص کو قتل کیا اور قبیلہ کے مال
مویشی ، ایک ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں قبضہ میں لے لیں۔ بنو خصیب کا
ایک شخص اوربنو احنف (یا اجنف)کے دو آدمی بھی مارے گئے۔ ان کا مال اور کچھ
قیدی بھی حضرت زید کے ہاتھ لگے۔ یہ دونوں قبیلے صلح حدیبیہ کے بعدرسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دعوتی خط ملنے پر ایمان لاچکے تھے۔ حضرت زید کو
اس بات کا علم نہ تھا، جب انھوں نے ان سے سورۂ فاتحہ سن لی تو اعلان کر
دیا کہ ان کا مال ہم پر حرام ہے، لیکن حضرت زید کے ساتھیوں نے مال کی واپسی
پر اتفاق نہ کیا۔ زید بن رفاعہ جذامی کی قیادت میں یہ لوگ مدینہ گئے، آپ کا
خط دکھاکر قیدی چھوڑنے اور مال واپس کرنے کی درخواست کی۔ آپ نے مقتولوں کے
بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا: ہم ان کی دیت چھوڑتے ہیں۔ آپ نے معاملہ
سلجھانے کے لیے حضرت علی کی ذمہ داری لگائی۔ انھوں نے کہا: زید میری بات نہ
مانیں گے تب آپ نے اپنی تلوار بطور علامت ان کے حوالہ کی۔ حضرت علی نے
فحلتین پہنچ کرحضرت زید سے ملاقات کی اور بنوخصیب اور بنواحنف کا تمام مال
واپس دلایا۔
سریۂ علی بن ابوطالب
شعبان۶ھ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ بنوسعد بن بکر کے کچھ
لوگ خیبر کے یہودیوں کی مدد کرنے کے لیے فدک کے مقام پر جمع ہیں۔ آپ نے
حضرت علی کو ایک سو جوان دے کر بھیجا۔ حضرت علی رات کے وقت سفر کرتے اور دن
کو چھپ جاتے۔ خیبر اور فدک کے مابین واقع ہمج کے چشمے پرانھوں نے بنوسعد کا
ایک شخص پکڑا جس نے اقرار کیا کہ اسے مدد کی پیش کش کرنے کے لیے اہل خیبر
کے پا س بھیجا گیا ہے اور عوضانہ کے طورپر خیبر کے پھل طلب کیے گئے ہیں۔
اسے امان دی گئی تو اس نے اپنی قوم کا پتا بتا دیا۔ حضرت علی نے ان پر
دھاوا بولا اور پانسو اونٹ اور دو ہزار بکریاں حاصل کر لیں۔ بنو سعد مقابلہ
کرنے کے بجاے اپنی عورتیں لے کر فرار ہو گئے۔ حضرت علی نے آں حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے لیے دودھ دینے والی اونٹنیاں اور خمس الگ کیا اور باقی
جانوروں کو اپنے دستے میں بانٹ دیا۔
غزوۂ خیبر
مدینہ سے ڈیڑھ سو کلو میٹر دور شمال میں واقع نخلستان خیبر یہود عرب کی قوت
کا بڑا مرکز تھا۔ یہاں انھوں نے متعدد مضبوط قلعے تعمیر کر رکھے تھے۔ جلا
وطن ہونے کے بعد بنو نضیر اور پڑوسی قبیلہ بنو غطفان خیبر کے یہودیوں کے
ساتھ مل کرمسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کرنے لگے۔ اس لیے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ محرم ۷ھ(۶۲۸ء)کے
اواخر میں آپ حضرت سباع بن عرفطہ کو نائب حاکم مقرر کر کے مدینہ سے نکلے۔
چودہ سوصحابہ کا لشکر آپ کے ساتھ تھا۔ بیعت رضوان میں شامل اصحاب کو آپ نے
خاص طور پر شریک جہاد کیا۔ اس مہم میں آپ نے خیبر کا قلعۂ ناعم، جبل قموص
پر واقع قلعۂ ابو حُقیق اور قلعۂ صعب فتح کیے اور ربیع الاول ۷ھ میں
مدینہ منورہ واپس تشریف لائے۔
جنگ خیبر شروع ہوئی تھی کہ آپ کو درد شقیقہ نے آن لیا، آپ دو روز باہر نہ آ
سکے۔ حضرت ابوبکر نے آپ کا پرچم تھامااور زبردست قتال کیا، ان کے حملے کے
دوران میں حضرت محمد بن مسلمہ کے بھائی حضرت محمود بن مسلمہ شہید ہوئے۔ وہ
گرمی کی شدت سے قلعہ کی دیوار کے سایہ میں آئے تویہودیوں نے ان پر چکی کا
پاٹ لڑھکا دیا۔ پھر حضرت عمر نے علم ہاتھ میں لیا اورخوب جنگ کی، لیکن کوئی
فیصلہ نہ ہو سکا۔ آپ کو اطلاع ملی تو فرمایا: کل میں ایسے شخص کو علم دوں
گا جسے اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں اور وہ بھی ان سے محبت رکھتا ہے،
وہ اس قلعے کو زبردستی حاصل کرلے گااور اسی کے ہاتھوں اللہ فتح دے گا
(بخاری، رقم ۴۲۰۹۔ مسلم، رقم ۶۳۰۳)۔ اس وقت حضرت علی موجود نہ تھے۔ صحابہ
نے اسی اضطراب میں رات گزار ی کہ علم کسے ملتاہے؟ہرایک کی تمنا تھی ، پرچم
مجھے عطا ہو جائے۔ حضرت عمر فرماتے ہیں : میں نے اس روز کے علاوہ کبھی
امارت نہیں چاہی۔ صبح سویرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نمازپڑھائی ،
پرچم منگوایا، کھڑے ہو گئے اور پوچھا: علی کہاں ہیں؟ حضرت علی آنکھوں کی
تکلیف کی وجہ سے مدینہ رہ گئے تھے۔ آپ نے انھیں لانے کے لیے حضرت سلمہ بن
اکوع کو بھیجا۔ صبح سویرے وہ خیبر پہنچے اور خیمۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کے پاس اپنے اونٹ کو بٹھایا۔ ان کی آنکھوں پر قطری چادر کی پٹی بندھی ہوئی
تھی۔ آپ نے پوچھا: کیا ہواہے؟ کہا:آپ کے رخصت ہونے کے بعد میری آنکھیں آ
گئی تھیں۔ آپ نے انھیں قریب کر کے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگا
دیااور دعا فرمائی۔ کچھ ہی دیر میں وہ بھلے چنگے ہو گئے، گویا کوئی تکلیف
ہی نہ تھی۔ آپ نے پرچم عطا کیا توحضرت علی نے سرخ جوڑا پہن رکھا تھا۔ وہ
بولے : میں ان سے اتنی دیر تک جنگ کروں گا جب تک وہ ہمارے جیسے مسلمان نہ
ہو جائیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا:نرم روی سے چلتے رہو، ان کے گھروں تک پہنچ
جاؤ تو انھیں اسلام کی دعوت دو اور انھیں وہ فرائض بتاؤ جو اللہ کی طرف
سے ان پر لاگوہوتے ہیں۔ قسم اللہ کی، تمھارے ذریعے سے اللہ ایک شخص کو بھی
ہدایت دے دے ، یہ اس فخر سے کہیں بہتر ہے کہ تمھارے پاس اعلیٰ نسل کے سرخ
اونٹ ہوں (بخاری، رقم ۳۷۰۱۔ مسلم ، رقم ۶۳۰۲)۔ دوسری روایت میں ہے، جاؤ! ان
سے قتال کرو، یہاں تک کہ اللہ تمھیں فتح عطا کر دے ، مڑ کر نہ دیکھنا۔ حضرت
علی نے پوچھا: میں کس بنیاد پر لوگوں سے جنگ کروں؟فرمایا:ان سے لڑائی کرو،
حتی ٰ کہ وہ گواہی دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمحمد اللہ کے
بندے اور اس کے رسول ہیں۔ جب وہ یہ دونوں شہادتیں دے دیں تو ان کے جان و
اموال تم پر حرام ہو جائیں گے، البتہ ان کی نیت کا حساب اللہ کے ذمہ ہو گا
(مسلم، رقم ۶۳۰۱) ۔
بارگاہ رسالت میں باریابی کے بعد حضرت علی کھنکھارتے ہوئے نکلے ، تیز تیز
چلتے ہوئے خیبر پہنچے اوراپنا علم قلعے کے باہر چنے ہوئے پتھروں میں گاڑ
دیا۔ قلعے کی منڈیر سے ایک یہودی نے جھانک کر پوچھا: کون ہو تم؟ بتایا: علی
بن ابوطالب۔ وہ پکارا: موسیٰ علیہ السلام پراترنے والے کلام کی قسم! تم
مغلوب ہو گے۔ مرحب زرد رنگ کا یمنی خودجس پر ہیرے کی کلغی لگی ہوئی تھی ،
پہن کر دوبدو مقابلے (duel)کے لیے قلعہ سے نکلا اور یہ اشعار پڑھے:
قد علمت خیبر أني مرحب شاکي السلاح بطل مجرب
"سارا خیبرجانتا ہے میں ہوں مرحب ، اسلحہ سے لیس، جنگ آزمودہ سورما۔"
أطعن أحیانًا وحینًا أضرب إذاللیوث أقبلت تحرب
"بسا اوقات میں نیزہ زنی کرتا ہوں اور کبھی شمشیر آزماتا ہوں، جب شیرحملہ
کرنے کے لیے بڑھتے ہیں تو خوب غیظ و غضب دکھاتے ہیں ۔"
کان حماي للحمی لا یقرب
"میری چراگاہ سے متصل کسی اور کی چراگاہ نہیں ہو سکتی ۔"
مشہور روایت کے مطابق جو حضرت سلمہ بن اکوع، حضرت ابوہریرہ ، حضرت سہل بن
سعداور عبداللہ بن بریدہ سے مروی ہے ، حضرت علی نے مرحب کو انجام تک
پہنچایا اورفتح خیبر کا سہرا انھی کے سرر ہا۔ انھوں نے مرحب کی للکار کا
جواب دیا :
أنا الذي سمتني أمي حیدرہ أکیلکم بالسیف کیل السندرة
"میں ہوں جسے اس کی ماں نے حیدر(شیر) نام دیا، تلوار سے تمھاری خوب پیمایش
کروں گا جیسے سندرہ پیمانہ کرتا ہے۔"
لیث بغابات شدید قسورة
"جنگلوں کا شیر ہوں، قوی اور دلیر۔"
دونوں میں تلواروں کا مقابلہ ہوا۔ حضرت علی نے سبقت کرتے ہوئے ایسی کاری
ضرب لگائی کہ تلوار مرحب کی چمڑے سے بنی ہوئی ڈھال اورسر پر پہنے ہوئے خود
کو کاٹتی ہوئی کھوپڑی میں جا لگی اوردانتوں تک اتر آئی۔ اس ضرب کی آواز فوج
نے بھی سنی۔ وہ وہیں ڈھے کر جہنم رسید ہوا۔
حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت کے مطابق حضرت محمد بن مسلمہ نے مرحب کی
دعوت مبارزت پر عرض کیا: یہودیوں نے کل ہی میرے بھائی کوشہید کیا ہے، میں
جوش انتقام سے معمور ہوں، اس لیے انھوں نے مرحب کا سامنا کیا اوراسے موت کے
گھاٹ اتارا۔ واقدی کہتے ہیں: حضرت محمد بن مسلمہ نے مرحب کی ٹانگیں کاٹیں
اور تڑپتا ہوا چھوڑ دیا۔ جب اس نے واویلا کیا توحضرت علی نے اس کی گردن اڑا
دی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرحب کی تلوار ، نیزہ، ڈھال اور خودحضرت
محمد بن مسلمہ کو ان کی درخواست پر عطا کیے۔ واقدی کا خیال ہے کہ حضرت علی
نے مرحب کے بجاے اس کے بھائی عامر کوایسے ہی دوبدو مقابلے (duel)میں قتل
کیا۔
مرحب کا بھائی یاسر نکلا ، اسے حضرت زبیر بن عوام نے جہنم واصل کیا۔ نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزادکردہ حضرت ابورافع کی روایت ہے کہ ہم قلعۂ
خیبر کے پاس پہنچے تو ایک یہودی نے حضرت علی پروار کیا۔ ڈھال ان کے ہاتھ سے
چھوٹ گئی تو انھوں نے قلعے کا ایک دروازہ اکھاڑ کر ڈھال کے طور پرپکڑ لیا۔
اللہ نے فتح دے دی تو بھی دروازہ حضرت علی کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت ابورافع
کہتے ہیں کہ میں اور سات دوسرے آدمیوں نے مل کر دروازہ پلٹنے کی کوشش کی،
لیکن ہم سے ہلا بھی نہیں۔ شبلی نعمانی کہتے ہیں کہ یہ روایتیں ابن اسحاق
اور حاکم نے روایت کی ہیں، لیکن بازاری قصے ہیں۔ علامہ سخاوی نے' مقاصد
حسنہ' میں تصریح کی ہے کہ سب لغوروایتیں ہیں۔ علامہ ذہبی نے 'میزان
الاعتدال' میں علی بن احمدفروخ کے حال میں اس روایت کو نقل کرکے لکھا ہے کہ
یہ روایت منکر ہے (سیرۃ النبی :جلد اول، خیبر)۔
خیبر کوئی تر نوالہ تھا نہ ایسا مقام کہ چند ضربوں میں مفتوح ہو گیا۔ تمام
صحابہ نے اپنی اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے،جان و مال کے نذرانے پیش کیے اور
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اور دعائیں شامل ہوئیں تو یہ فتح اہل ایمان
کا مقدر بنی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی وادی کتیبہ کو اپنی ازواج اور
اقربا میں تقسیم فرمایا۔حضرت فاطمہ کے حصے میں دو سو وسق (ایک وسق:ساٹھ صاع
، ایک صاع:۴.۲ کلو )اور حضرت علی کے حصے میں ایک سو وسق اجناس (گندم یا
جو)آئیں۔
حضرت علی روایت کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع
پر نکاح متعہ، پالتو گدھوں کا گوشت اور لہسن کھانے سے منع فرما دیا (بخاری،
رقم ۴۲۱۵۔ مسلم ، رقم ۳۴۱۴)۔مسلم کی روایات میں لہسن کا ذکر نہیں۔ حضرت علی
ہی سے مروی ایک روایت میں ہے: لہسن کوصرف پکا کر کھانا ہی موزوں ہے (ترمذی،
رقم ۱۸۰۸)۔ابن کثیر نے غزوۂ خیبر کے موقع پر اس طرح کا حکم صادر ہونے کو
بعیداز امکان قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فتح مکہ کے موقع پر نکاح متعہ کی اجازت دی، پھر فوراً ہی اسے قیامت تک کے
لیے ممنوع قرار دیا (مسلم ، رقم ۳۴۰۶)۔امام شافعی کہتے ہیں: نکاح متعہ کی
دودفعہ اجازت دی گئی اور دو دفعہ اسے حرام قرار دیا گیا۔
تیسری صدی ہجری میں خیبر کے یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خط
منظر عام پر لائے جو ان کے دعویٰ کے مطابق حضرت علی نے تحریر کیااور حضرت
سعد بن معاذ اور حضرت معاویہ نے اس پر گواہی ثبت کی۔ اس پر یہود خیبر کا
جزیہ معاف کرنے کا حکم درج تھا۔ ابن کثیر کہتے ہیں : یہ خط گھڑا ہوا اور
جعلی تھا۔
حضرت علی گرمیوں ، سردیوں میں روئی بھرا موٹا چوغہ پہنتے اور انھیں گرمی کی
پروا نہ ہوتی۔ اس کے برعکس سردیوں میں پتلے کپڑے پہن لیتے اور ان کوٹھنڈ کی
فکر نہ ہوتی۔ حضرت ابولیلیٰ انصاری نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا: غزوۂ
خیبر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دعا دی تھی: اﷲ،اسے
گرمی و سردی سے محفوظ رکھنا۔ تب سے میں نے گرمی و سردی محسوس نہیں کی (سبل
الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، باب ۴۲، محمد بن یوسف صالحی)۔
حضرت ماریہ قبطیہ اور مابور
۷ھ:میں اسکندریہ کے حاکم مقوقس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی حضرت
حاطب بن ابوبلتعہ کے ہاتھ آپ کویہ تحائف بھیجے ، باندی ماریہ، ان کی بہن
سیرین ، خصی غلام مابور، ایک ہزار مثقال سونا، کپڑوں کے بیس جوڑے، یعفور
نامی گدھا اور دلدل نام کا خچر۔ آپ نے ماریہ کواپنے لیے منتخب کر لیا، اور
سیرین حضرت حسان بن ثابت کو ہدیہ کر دی۔ حضرت ماریہ اور ان کی بہن حضرت
سیرین نے اسلام قبول کر لیا،جب کہ مابور اس وقت اپنے دین پر قائم رہا اور
بعد میں مسلمان ہوا۔ حضرت ماریہ گوری چٹی اور خوب صورت تھیں، انھی سے آپ کے
بیٹے حضرت ابراہیم کی ولادت ہوئی۔ آپ نے انھیں عالیہ(قبا )میں بنو مضرکی
طرف سے حاصل ہونے والے اپنے ڈیرے میں جگہ دی تھی جو بعد میں مشربۂام
ابراہیم کے نام سے موسوم ہوا۔ مابور قبطی گھر کا بالن ، پانی اور اسباب
پہنچانے حضرت ماریہ کے پاسجاتا تھا۔ منافقین نے افواہ پھیلائی کہ اس کے
حضرت ماریہ سے تعلقات ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تفتیش کے لیے حضرت
علی کو بھیجا۔ مابورکھجور کے درخت پر چڑھا ہوا تھا، اس نے حضرت علی کو
تلوار سونت کر آتے دیکھا تو معاملہ فوراً سمجھ گیا، اپنا تہ بند اتار
پھینکا اور ننگا ہو گیا۔ حضرت علی نے دیکھا کہ اس کا آلۂتناسل(penis)کٹا
ہوا ہے تو لوٹ آئے۔ آپ کو خبر کی اور پوچھا: کیا مجھے پلٹ آنا چاہیے تھا؟آپ
نے فرمایا:ہاں۔ اس مکالمے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ محض تہمت کی بناپر کسی
پرتلوار اٹھانا جائز نہیں۔
مطالعۂ مزید: الجامع المسند الصحیح(بخاری ، شرکۃ دار الارقم )، الطبقات
الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم و الملوک (طبری)، دلائل النبوۃ(بیہقی)،
المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الکامل فی التاریخ (ابن
اثیر)، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)،
البدایۃ والنہایۃ(ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، بحار
الانوار(باقر مجلسی)، سیرۃ النبی (شبلی نعمانی)، محمدرسول اللہ (محمد رضا)،
تاریخ اسلام (اکبر شاہ خاں نجیب آبادی)، بیت الاحزان فی مصائب سیدۃ النسوان
(عباس قمی)، قصص النبیین (ابو الحسن علی ندوی)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ
(مقالہ:مرتضیٰ حسین فاضل)۔
[باقی]
|