فاسٹ باؤلر محمد عامر اور وکٹ کیپر بیٹسمین رضوان
پاکستانی سکواڈ میں جگہ بنانے میں ناکام رہے۔ ڈی ڈبلیو کے نمائندے طارق
سعید عالمی کپ کے لیے منتخب ہونے والے 15 پاکستانی کھلاڑیوں کا تعارف پیش
کیا ہے۔
|
|
سلیکٹرز نے محمد عامر اور آصف علی کو عالمی کرکٹ کپ سے پہلے انگلینڈ کے
خلاف پانچ ون ڈے میچوں کی سیریز کے لیے ایک لائف لائن دی ہے۔ چیف سلیکٹر
انضمام الحق نے آج جمعرات 18 اپریل کی شام قذافی اسٹیڈیم لاہور میں جس ٹیم
کا اعلان کیا اس میں دو برس پہلے انگلینڈ میں چمپیئنز ٹرافی جیتنے والے
گیارہ کھلاڑیوں کو جگہ دی گئی ہے۔
|
|
ورلڈ کپ 2019 کے لیے منتخب کیے گئے کھلاڑیوں کا مختصر تعارف
امام الحق:
23 سالہ اوپنر امام الحق کا یہ پہلا عالمی کپ ہے۔ امام کو آئی سی سی چمپیئز
ٹرافی کے بعد اظہر علی کے زخمی ہونے پر پاکستانی ون ڈے ٹیم میں جگہ ملی تھی۔
اس میگا ایونٹ میں انہیں نئی گیند کے سامنے ویسی ہی ذمہ دارانہ بیٹنگ کرنا
ہوگی جو ان کے پیش رو نے دو برس پہلے چمپیئنز ٹرافی میں کی تھی۔ اپنے
افتتاحی میچ میں سینچری بنانے کے بعد سے امام کی ون ڈے انٹرنیشنل اوسط 54
رنز ہے لیکن صف اول کے باؤلنگ اٹیکس کے خلاف ابھی انہیں اپنا لوہا منوانا
ہے۔ اور دائرے میں آسان کیچ گرانے کی عادت ترک کرنا ہوگی۔
فخر زمان:
پاکستان کی بیٹنگ لائن اپ میں یہ واحد کھلاڑی ہیں جنہیں ’میچ ونر‘ کہا جا
سکتا ہے۔گزشہ آٹھ ماہ میں 29 کی بیٹنگ اوسط اور 83 کا اسٹرائک ریٹ فخر کے
اعتماد کی گواہی دے رہے ہیں۔ لیکن اب بھی پاکستان کی بھارت، آسٹریلیا اور
انگلینڈ جیسی طاقتور ٹیموں کے خلاف عالمی کپ میں جیت ہار کا دار ومدار فخر
زمان پر ہی ہوگا۔ ان کے گھٹنے کا زخم بھر جانے کا ٹیم کو فیلڈ میں بھی بے
حد فائدہ ہوگا۔
بابراعظم:
عالمی کپ 2015ء کے بعد سے یہ واحد نئے بیٹسمین ہیں جنہوں نے پاکستانی مڈل
آرڈر میں اپنی مستقل جگہ بنائی ہے۔ 24 سالہ بابر آٹھ ون ڈے انٹرنیشنل
سینچریاں بنا چکے ہیں لیکن انہیں ابھی انگلینڈ کی سر زمین سر کرنا ہے جہاں
دس ون ڈے میچوں میں وہ ایک نصف سینچری تک نہیں بنا پائے۔ ورلڈ کپ میچوں میں
پاکستان کے پورے پچاس اوورز بیٹنگ کرنے کو 24 سالہ بابر اعظم ہی یقینی بنا
سکتے ہیں تاہم ان کی ڈیتھ اوورز بیٹنگ پر اب بھی سوالیہ نشان موجود ہے۔
کپتان سرفراز احمد فیلڈ پر سب سے زیادہ بابر کے ہی مشوروں کو اہمیت دیتے
ہیں۔
محمد حفیظ:
پی ایس ایل میں انگوٹھا تڑوانے کے بعد سے اب تک انہوں نے کرکٹ شروع نہیں کی
لیکن سلیکٹرز کا خیال ہے کہ وہ 23 مئی کی حتمی ڈیڈ لائن سے پہلے فٹ ہو
جائیں گے۔ محمد حفیظ موجودہ اسکواڈ میں دو عالمی کپ کھیلنے والے کھلاڑی ہیں۔
ورلڈ کپ میں پاکستان کے متوازن ٹیم اتارنے کا مکمل انحصار ان کی آف اسپن
اور فارم پر ہوگا۔ اسپیشلسٹ ہٹر سے محروم پاکستانی ٹیم میں ان کو چھٹے نمبر
پر مار دھاڑ کا کردار بھی سونپا جا سکتا ہے۔
شعیب ملک:
یہ ان کا دوسرا اور آخری عالمی کپ ہے۔ پہلی بار 2001ء میں پاکستانی ٹیم کے
ہمراہ انگلینڈ گئے تھے لیکن کرکٹ کی جنم بھومی میں پہنچ کر ان کی بیٹنگ
اوسط محض 13 رہ جاتی ہے۔ چیف سلیکٹر انضمام الحق کا کہنا ہے کہ شعیب ملک کو
سنیارٹی اور گزشتہ دو برس کی مجموعی کاکردگی کے باعث ٹیم میں شامل کیا گیا۔
سرفراز احمد(کپتان):
پاکستان نے پہلی بار کسی وکٹ کیپر کو ورلڈ کپ میں اپنا کپتان نامزد کیا ہے۔
چند ہفتے پہلے وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو پی ایس ایل ٹائٹل جتوا چکے ہیں۔
انگلینڈ میں بیٹنگ ریکارڈ اچھا ہے لیکن 25 جنوری کے بعد سے کوئی ایک بھی
پچاس اوورز کا میچ نہیں کھیل سکے۔ چوتھے نمبر پر بیٹنگ کر کے ٹیم کا توازن
بگڑنے سے بچا سکتے ہیں۔ موجودہ ٹیم میں واحد بیٹسمین ہیں جنہیں عالمی کپ
میں سینچری بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔
شاداب خان:
20 سالہ شاداب خان کا یہ پہلا عالمی کپ ہے۔ وہ گروئن کی تکلیف سے چھٹکارا
پاکر ٹیم میں واپس آئے ہیں۔ کیریئر میں کبھی کسی میچ میں پانچ وکٹ نہیں لے
پائے لیکن عالمی کپ میں پاکستان کے سرکردہ اسپنر ہوں گے۔ وہ مُلک کے’نمبر
ون‘ فیلڈر ہونے کے علاوہ ایک زیرک ’لیٹ آرڈر‘ بیٹسمین ہیں اور اسپنرز کو
ٹیم کے کئی چوٹی کے بیٹسمینوں سے زیادہ بہتر کھیلتے ہیں۔
حسن علی:
حسن علی نے اپنی زندگی میں آج تک صرف ایک ہی آئی سی سی ایونٹ یعنی چمپیئنز
ٹرافی2017ء میں حصہ لیا ہے جس میں وہ 13 وکٹ لے کر مین آف دی ٹورنامنٹ قرار
پائے تھے۔ اس وقت وہ پاکستانی باؤلنگ کے سرخاب اور ’مڈ اننگز‘ میں وکٹ ٹیکر
سمجھے جاتے ہیں لیکن اگر محمد عامر کہیں پلیئنگ الیون سے باہر ہوگئے تو ان
کے پاس نئی گیند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوگا۔ پی ایس ایل کے حالیہ
ٹورنامنٹ میں نئی گیند پر حسن سوئنگ کرتے اور وکٹیں لیتے دیکھے گئے تھے۔
شاہین شاہ:
لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے شاہین شاہ اس وقت نئی گیند پر پاکستان کا سب
سے خطرناک ہتھیار ہیں۔ وہ مخالف ٹیم کے بڑے بیٹسمین آؤٹ کرنے کی پہچان
رکھتے ہیں۔ مکمل فٹ ہونے کی صورت میں کپتان کو ان سے شروع میں ہی لمبا
اسپیل کرانا ہوگا کیونکہ میچ میں گیند کی عمر کے ساتھ شاہین کی چمک دمک بھی
ماند پڑ جاتی ہے۔ ٹیم کے سب سے کمزور فیلڈر ہیں البتہ ان کی فٹنس پہلے سے
بہتر ہوئی ہے۔
جنید خان:
جنید خان کا یہ دوسرا عالمی کپ ہے۔ پہلی بار وہ 2011ء میں محمد عامر کے
اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے ورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ بنے تھے۔ اس
بار بھی ان کی ٹائی محمد عامر کے ساتھ تھی۔ جنید پاور پلے اور ڈیتھ اوورز
کے اسپیشلسٹ ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان کی باؤلنگ رفتار کم ہوئی ہے۔
انگلینڈ میں لنکا شائر کاؤنٹی کے ساتھ ان کے کھیلنے کا تجربہ پاکستان کے
کام آسکتا ہے۔
فہیم اشرف:
یہ پاکستان ٹیم میں موجود پیسرز میں سب سے اچھی بیٹنگ کرنے کی اہلیت رکھتے
ہیں۔ ان کی رفتار دوسروں سے کم ہے لیکن گیند کو آف دی وکٹ موو کرنے پر ملکہ
حاصل ہے۔ چیف سلیکٹر کہتے ہیں کہ انہیں ہم آل راؤنڈر نہیں کہہ سکتے ہیں وہ
اچھا فاسٹ باؤلر ہے لیکن وہ آگے چل کر آل راؤنڈر بن سکتا ہے۔
عماد وسیم:
اچھے ہارڈ ہٹنگ بیٹسمین اورغیر روایتی لیفٹ آرم فنگر اسپنر ہیں۔ ورلڈ کپ
میں انہیں مغربی ٹیموں کے خلاف ہی میدان میں اتارا جائے گا۔
عابد علی:
چودہ برس ڈومیسٹک کرکٹ کی خاک چھاننے کے بعد سلیکٹرز کی نظروں میں آئے ہیں۔
اچھی بیک فٹ تیکنیک کے مالک اوپننگ بیٹسمین اور ریزرو وکٹ کیپر ہیں۔ سلیکشن
میں فٹنس کو انکی مہارت نے مات دے دی۔ محمد رضوان اور شان مسعود پر انہیں
ترجیح ملی ہے۔
محمد حسنین:
اٹھارہ سالہ حسنین ٹیم کے سب سے کم عمر رکن ہیں۔ ملک کے سب سے تیز باؤلر
ہیں اور وہ ورلڈ کپ کھیلنے والے حیدرآباد سندھ کے پہلے کرکٹر بنیں گے۔ چیف
سلیکٹر کا خیال ہے 150 کی رفتار کے ساتھ حسنین کئی ٹیموں کے لیے سرپرائز
پیکج ہونگے۔
حارث سہیل:
حارث پاکستان ٹیم کے سب سے اچھے سلپ فیلڈر اور بائیں ہاتھ کے اسٹائلش
بیٹسمین ہیں جنہیں ضروت پڑنے پہ ایک سے چھ تک کسی بھی نمبر پربیٹنگ کرائی
جا سکتی ہے۔ محمد حفیظ اگر فٹ نہ ہوئے تو انہیں بیٹنگ آل راؤنڈر کا کردار
سونپا جائے گا۔ حارث کا یہ مسلسل دوسرا ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ ہوگا۔
|
Partner Content: DW
|