ہم نے کیے گناہ تو دوزخ ملی ہمیں
دوزخ کا کیا گناہ کے دوزخ کو ہم ملیں
معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور اُنہیں اپنے حوس کا نشانہ بنانا دنیا
میں سب سی زیادہ گھناؤنا تصور کیے جانے والا جرم ہےجو کہ کسی قابل فہم
انسان کی سوچ میں بھی نہیں آسکتااس جرم کی سرذدگی انسان کو انسانیت کے
دائرے سے خارج کر دیتی ہے۔
یہ جرم دنیا بھر میں عام ہے پر پاکستان جیسے ملک جو کہ اسلامی طرزِعمل کی
بنیاد پروجود میں آیا۔پاکستان کے قیام سے قبل،غلامی،اغواکاری،عصمت دری اور
جنسی زیادتی سماج کے اُن بدترین مسائل میں سے تھےجس کی بناءپر قائداعظم
’’محمد علی جناحؒ‘‘ کو ایک جداگانظام کی ضرورت محسوس ہوئی جہاں مسلمان اپنے
عقائد کے مطابق زندگی بسر کرسکے اور اسلامی قانون نافذ کرسکےجوکہ ہر قسم کے
عیب سے پاک ہے۔ایسے مُلک میں جس کا حصُول کلمہ طیّبہ کے مفہوم پر ہوا
تھااِس مُلک کی اَرض پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا کوئی تصّور بھی نہیں
کیا جاسکتا تھا پر ۲۰۱۵ میں دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا بچوں سے جنسی
زیادتی کا سکینڈل پنجاب کے شہر قصور کے ضلع ’’حسین خان والا‘‘ میں پیش آیا
جس نے تمام پاکستانیوں کو شرمسَار کر دیا، ۲۰ سے ۲۵ حیوان صفت مردوں کے
گروہ نے ۲۷۰ سے زائد ۱۰ سال سے ۱۵ سال کے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ
بناکر اُن کی وڈیو ریکارڈ کرکے فحش کی دنیا میں میں صرف ۵۰ روپے کی حوض
فروخت کیےگئے۔
جب کسی معاشرے کے سرپرست اور حفاظت دار جرم داروں کے رفیق بن جاتے ہیں تو
اُس معاشرے میں بچوں کا حال ’’زینب انصاری‘‘ جیسا ہی ھوگا اُن کا پھول جیسا
بدن نوچ کر ہاتھ پاؤں بندہی نعش کچرے کے ڈھیر اور گندی نالُوں میں پھینکی
جائے گی اور اِن کے معصُوم ذندگیوں کے ضیاع کے زمہ دار حکومت اور قانون
نافذ کرنے والے ادارے ھوگے۔ان کی مجرمانہ غفْلت سے آج تک بہت سی ’’زینب‘‘
درندوں کی نزر ہوکر موت کے گھاٹ سُلائی جاچکی ہے۔
بچے ملک کے قیمتی آثاثہ ہوتے ہیں ملک کے روشن مستقبل کے ضامن ہوتے ہیں،
والدین کے لختِ جگر ہوتے ہیں، اللہﷻ کے باغ کے پھول ہوتے ہیں جنہیں خوشیوں
کے سوا کسی چیز سے سروکار نہیں ہوتا جنہیں یہ تک نہیں پتہ کے کون اِنکا
آشْنا کون ناآشْا ہے، جن گھر سے کھیلتے کھودتے سکول مدرسے آناجانا
روزمرہ کا معمول ہوتا ہے لیکن آچانک اِک روز کہیں سے انسانی روپ میں حیوان
نموادر ہوکر اِن پر کہر بن کر ٹوٹ پڑتا ہے انہیں اپنے حوس کے بھوک کا چارا
بنا کران کی ذندگیاں اُجاڑ دیتا ہے۔
پاکستان میں ہر ۶ میں سے ۱ بچہ ۴ سال سے ۱۶ سال کی عمر میں جنسی زیادتی کا
شکار ہوتا ہے۔۲۰۱۰ سے ۲۰۱۸ تک تقریباً ۳۰۰۰۰ [تیس ہزار] جنسی ذیادتیوں کے
شکایات درج کرائی گئی جن میں سے بیشتر تعداد ملازمت کرنے والے بچوں اور
دیہی علاقوں سے درج کرائی گئی، اور بہت سے واقعات اب تک آواز اور انصاف کے
مُنتظر ہے جو مُتاثرہ خاندان عزت کی خاطر یا مخالف فریق کے اثررسُوخ کے
دباؤ میں آکر شکایات درج کرانے سے عاجز رہے۔
ہمارا مُلک پاکستان چار بڑے صُوبوں کا اِشتراک ہے اس میں ان چار مُختلف
صُوبوں کے مُختلف روایتی اور ثقافتی تہذیب شامل ہے تاہم ۲۰۱۰ میں آہین
میں اٹھارویں ترمیم کے بعد بچوں کی حفاظت کے قانون سازی اور اِنکے تحفظ
صوبائی حکومت کا موضوع بن چُکا ہے۔جسے قابُو کرنے کیلئے مختلف قوانین اور
بِل مختلف اسمبلیوں سے منظُور کیے گئے ہیں۔ لیکن تحقیق کے مطابق پاکستان
اپنے بچوں کی حفاظت اِک مُکمل جامع قانون سازی میں خاصاَ نَاکام رہا ہے،
اور بہت سے قانونی ماہرین نے اِن قوانِین اور بِلوں کی غیر جانب دار نوعیت
کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو بچوں کو جنسی زیادتی اور اِستحصال کے مختلف
شکلوں سے بچانے کیلئے منظور کیے گئےہیں، اس کے علاوہ بچوں کے مخصُوص
تقریبات اور سرگرمیوں کیلئے صوبائی اور وفاقی بجٹ دونوں میں اِک صغیر رقم
مختصص کی جاتی ہے اور اس صغیر رقم میں بھی عدم ادائیگیوں کی بناپر اُن
مخصُوص تقریبات اور سرگرمیوں کو صحیح کام میں نہیں لایا جارہا۔
موجودہ حکومت کے وزیراعظم’’عمران خان‘‘ نے اپنے عہدے پر فائز ہونے کے بعد
قوم سے پہلی تقریر میں اِن بڑھتےہوئے جنسی زیادتیوں کے واقعات کے خلاف لڑنے
کا وعدہ کیا تھا یہ دیکھنے میں تو بہت دِلْکش تھا کے ریاست کے وزیر اعظم نے
خود تشویش کے ساتھ اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کی بات کی، لیکن بات کافی
نہیں ہے۔موجودہ حکومت کے ۹ مہینے سے ذائد کے عرصے گُزر جانے کے باوجود بھی
اس وعدے کی تکمیل کی جانب اس حکومت کے طرف سے کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا ہے
اور آج کی تاریخ تک حکومت نے کوئی حفاظتی تدابیر کی پالیسی بھی مُتعارف
نہیں کروائی۔
پر اُمید ہے کہ اب ’’وزیراعظم عمران خان‘‘ اپنے کاروائیوں میں تبدیلیاں
لائے گے اگرچہ وزیراعظم اور اُنکے کابینہ کو بہت سے مسائل کاسامنا ہے پر
اُنہیں اُن مَسائل پر مُلک کے مُستقبل کے ضامنوں کے مُستقبل اور تحفُظ کو
ترجیح دینی چائیے۔حکومت کو وفاقی اور صوبائی طور پر مُشترکہ اور مظبوط
قانون سازی کرنی چائیے اور آرٹیکل ۱۱ [۳] کےتحت بچوں کو ملازمت پر رکھنے
والوں کے خلاف سخت ترین کاروائی کرنی چائیے، اور آرٹیکل ۲۵ [اے] کے تحت ۵
سال سے ۱۶ سال کے بچوں مُفت بُنیادی تعلیم دینی چاہیئے جو کہ ریاست کی زمہ
داری ہے،۔اور انہیں بچوں کے مخصُوص تقریبات اور سرگرمیوں کو تقویت دینی
چائیے، اور انہیں جنسی زیادتی کے واقعات کی سُنوائی فوجی عَدالت کے سُپرد
کرنا چاہیئے تاکے جلد از جلد مجرم کو کیفکردار تک پہنچایا جا سکے۔
بچوں کی تحفُظ میں میں خاندان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بچوں کو اُن کے جسم کے
حساس حصوں کی نشاندہی کرواکر اُنہیں جسم کے غیر اخلاقی حصوں کو چھونے پر ’’
نہ ‘‘ کہنے کی اور اُس جگہ سے بھاگ کر کسی سے مدد مانگنے کے طریقے بتانے
چائیے، اور والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے چائیے تاکہ
بچے کسی بھی قسم کے جھجک کے بغیر والدین کو اپنے مسائل کے بارے میں آگاہ
کر سکے، اور متاثرہ خاندان کو چائیے کے وہ قانون کو سب سے بالاتر سمجھ کر
ملزم کے خلاف اعلٰی سطح پر قانونی چارجوئی کا مطالبہ کرے تاکہ معاشرے سے اس
مُصیبت اور ایسے درندے صفت انسان نما حیوانوں سے صفایا کر کے اپنے بچوں پاک
اور محفوظ مُستقبل دےسکے۔
بلّا نے اپنے بچوں کو دعا دی
خدا محفُوظ رکھے ہر بشر سے |