اس عمل کی اہمیت کا ندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن
حکیم کے آغاز میں ہی سورہ بقرہ کی تیسری آیت میں صلوۃ کے بعد جس کا ذکر کیا
گیاہے وہ خدا کے دئیے ہوئے رزق میں سے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ
کرنا ہے۔ دوسرے انسانوں کی مالی دشواریوں کو دور کرنے اور ان کی زندگیوں
میں آسودگی اور آسانیاں فراہم کرنے کے عمل کو راہ خدا میں مال خرچ کرنے کے
عمل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کا حکم زکوٰۃ کی صورت میں دیا ہے اور مزید
صدقات اور خیرات کے احکامات دئیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مزید ترغیب دیتے
ہوئے اسے اﷲ کو قرض حسنہ دینا بھی کہا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اسلامی ریاست
اپنے تمام شہریوں کی ذمہ دارہوتی ہے اور وہاں اس طرح کے سارے معاملات ایک
نظام کے تحت ہوتے ہیں لیکن جب تک ایسی فلاحی مملکت وجود نہیں آتی تب تک
ہمیں یہ ذمہ ادا کرنا ہے تاکہ لوگوں کی مالی مشکلات دور ہوں۔ قرآن حکیم کی
سورہ بقرہ کی آیت 219 میں ہے کہ اور کمائی میں ہر ضرورت مند اور محروم رہ
جانے والے کا حق ہے ۔ اس آیت کی روشنی میں اگر آپ ضرورت مندوں کی مدد کرتے
ہیں تو یہ کوئی احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہے۔ بلکہ آپ کا مال بھی تو آپ کا
اپنا نہیں کیونکہ آپ نے تو اس پہلے سے ہی سودا کرلیا ہوا ہے ۔ سورہ توبہ کی
آیت 111 کے تحت یہ معائدہ ہے جو ایک مسلمان کا خدا کے ساتھ کرتاہے ارشاد ہے
کہ ان اﷲ اشتری من المومنین انفسھم و اموالھم اس معائدہ کے تحت آپ نے جان
اور مال خدا کو فروخت کردی ہے اور اس عوض جنت خرید لی ہے اور جو لوگ اس
معائدہ سے پھرنے کی کوشش کریں اور مال جمع کرتے رہیں جن کا ذکر سورہ تکاثر
اور الھمزہ میں کیا ہے کہ مال جمع کرتے رہتے ہیں اور گنتے رہتے ہیں ۔ وہ
مال کو بند کرکے رکھتے ہیں اور ضرورت مندوں کو نہیں دیتے ان کاحشر سورہ
توبہ 34 اور 35 میں بتا دیا کہ اور جو لوگ سونا اور چاندی یعنی مال و دولت
جمع کرتے ہیں اور اسے اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی
خوشخبری سنا دیجیے۔ اور جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور
ان کی پیشانیوں ، پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گااور کہا جائے گا میں ہی
تمہارا مال ہوں جو تم نے جمع کیا تھا لہذا اب عذاب کا مزہ چکھو۔
ذرا غور کریں کہ یہ اس مال کا ذکر ہورہا ہے جو آپ کی اپنی کمائی ہے لیکن اس
مال کا تصور کریں جو کرپشن ، دوسروں کا حق غصب کرکے اور قومی دولت لوٹ کر
کمایا گیا ہو۔ ان کے حشر کا سوچ کر توروح کانپ جاتی ہے۔ سورہ ابراہیم میں
ہے شکر ادا کرو گے تو خدا اور دے گا ناشکری کرو گے تو عذاب کے لئے تیار رہو۔
شکر کا معنی محض زبان سے ’’یااﷲ تیرا شکر‘‘ نہیں ہے بلکہ عملی طور پر کچھ
کرنا ہے۔ خدا کی عطا کردہ چیزیں کودوسروں کے لئے کھلی رکھنا ،دل کھول کر
سخاوت کرنا اور خوب دوسروں کی مدد کرنا ہی حقیقت میں شکر ہے۔ایک روایت ہے
رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جو کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرتا
ہے خدا اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ آپﷺ نے یہ فرمایا کہ صدقہ سائل کے ہاتھ
میں پہنچنے سے پہلے خدا کی بارگاہ میں پہنچ جاتا ہے۔ اس لئے اﷲ کی راہ میں
ہاتھ نہ روکو ورنہ اﷲ تعالیٰ بھی تم سے اپنا ہاتھ روک لے گا۔ہمیں جو کچھ
بھی ملا ہے وہ خدا کا ہی تو دیا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود خدا اپنے دیئے
ہوئے مال میں سے آپ سے قرض مانگ رہا ہے۔خدا آپ سے سورہ بقرہ کی آیت 245 میں
پوچھ رہا کہ من ذالذی یقرض اﷲ قرضا حسنا کہ کون ہے جو اﷲ کو قرض حسنا
دے۔اگر آپ کا بہت اچھا دوست یا بہت محبت کرنے والا بہن بھائی آپ سے قرض
مانگے تو آپ کیا کریں گے ؟ اس کی ضرورت پوری کریں گے نا۔ یہاں تو خدا آپ سے
ایک بار نہیں بلکہ 6 مرتبہ اور قرآن حکیم میں آپ سے قرضہ حسنہ مانگا ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت 245، سورہ مائدہ کی آیت 12، سورہ حدید کی آیت 11 اور 18،
سورہ طلاق کی آیت 17 اور سورہ مزمل کی آیت 20 میں خدا آپ سے قرض حسنہ کا
سوال کررہا ہے۔ سورہ حدید میں جہاں خدا کو قرض دینے والے مردوں کا ذکر کیا
ہے وہاں قرض حسنہ دینے والی عورتوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ سورہ طلاق میں قرض
دینے کی صورت میں کئی گنا واپس کرنے کے ساتھ بخشش کا بھی وعدہ ہے۔خدا کا
وعدہ پورے ہونے میں کس کو شک ہوسکتا ہے لیکن اس کے باوجو د سورہ فرقان 16
کے مطابق خدا تمہیں یہ حق دیتا ہے کہ اگر وعدہ پورا نہ ہو تو تم پوچھ سکتے
ہو۔ اتنا پکا اور آسان سودا نہ چھوڑیں اور کیا پھر بھی آپ خدا کو قرض نہیں
دیں گے؟
آج ہم ہیں لیکن کل نہیں ہوں گے لیکن ہمارے اعمال زندہ رہیں گے ۔ دوسروں
مشکلات آسان کریں خدا آپ کی مشکلات آسان کرے گا۔ عموما رمضان سے قبل لوگ
اپنی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور پھر عید الفطر سے قبل فطرانہ ادا کرتے ہیں ان
سے گذارش ہے کہ وہ اس مقصد کے لئے اخوت فاؤنڈیشن کاا نتخاب کریں۔ آپ جانتے
ہیں کہ اخوت کے نے پاکستان میں 72ارب روپے کے قرض حسنہ دے کر تیس لاکھ سے
زائد خاندانوں کی مالی مشکلات دور کرکے انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا ہے۔
یہ دنیا بھر میں قرض حسنہ دینے والی سب سے بڑا ادارہ ہے ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب
کی قیادت میں مواخات مدینہ کے زریں اصولوں پر قائم یہ ادارہ انسانی خدمت کا
عظیم فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ پاکستان سے غربت ختم کرنے کے لئے بلاسود
قرضے اور جہالت ختم کرنے کے لئے اخوت یونیورسٹی کے تعمیر کررہا ہے۔میری
نگاہ میں آپ کے مالی تعاون اخوت سے بہتر کوئی اور مصرف نہیں ہوسکتا ۔
دوسروں کی زندگی سے مشکلات دور کرنے کی کوشش کریں تو آپ کا وہ بھی ملے گا
جو آپ نے سوچا بھی نہیں ہوگا، کم از کم میرا تجربہ تو یہی ہے۔ |