کراچی میں سیوریج کے پانی کی زیادتی کی وجہ سے کراچی کے
شہریوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے.سیوریج کے پانی میں پاۓ جانے
والےکیمیکلز کی وجہ سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں.آبادی میں اضافہ کے ساتھ
ساتھ سیوریج کا نظام بد سے بدتر ہو گیااور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ
سے پرانا نظام بھی خراب ہوگیااور آج کل تو حالت یہ ہے کہ لوگ اپنی مدد آپ
کے تحت اپنے سیوریج کے مسال کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.مقامی حکومتوں کے
پاس بجٹ اور اختیارات کی کمی ہونے کی وجہ سے مسال حل نہیں ہوپاتے.بڑے شہروں
میں سیوریج کے مسال سر اٹھا چکے ہیں جس سے حکومت کی بنائ ہوئ سڑکیں بد حالی
کا شکار ہیں.سڑکوں میں بڑے بڑے شگاف پڑنےکی وجہ سے سیوریج کا پانی ان
شگافوں میں جمع رہتا ہے جس کے باعث شہر میں مختلف قسم کی بیماریاں پھیلنے
کا خدشہ ہے.سڑکوں میں پڑنے والے شگافوں کی وجہ سے آۓ روزمختلف قسم کے
حادثات درپیش آتے رہتے ہیں جس کے باعث کتنے ہی لوگ زخمی ہوجاتے ہیں مگر
غریب عوام کے زخمی ہونے یا مرنے سے ہمارے اعلی حکام کو کیا فرق پڑتا ہے!شہر
کی بسوں کا حال بھی خراب ہے اور سیوریج کے پانی کی وجہ سے پڑنے والے شگاف
میں بسوں کے الٹ جانے کا بھی اندیشہ رہتا ہے.سیوریج کا نظام خراب ہونے کی
وجہ سے راہ گیروں کو پیدل چلنے میں کا سامنا ہے.ہم نے اپنے بڑوں سے سننا ہے
کہ صدر ایوب کے دور میں سڑکیں دھولا کرتی تھیں اور اب تو حالت یہ ہے کہ
ہمارے شہر کراچی میں سڑکیں دھلنا تو دور کی بات وب تو سڑکیں اس قابل بھی
نہیں کہ ان پر جھاڑو ہی باآسانی لگ جاۓ.کیا کوئ بھی حکومت صرف عوام سے ووٹ
لینے کے لیے جھوٹے وعدے کرتی !آج کے بلدیاتی ادارے یہ کہتے نظر آتے ہیں کی
ہمیں بجٹ نہیں ملا اس لیے ہم فلاں کام نہیں کرسکتے,ہم فلاں کام نہیں کر
سکتے,ہم شہر کے نظام کو بہتر نہیں کرسکتے.کیوں حکومت بلدیاتی اداروں کو بجٹ
فراہم نہیں کرتی?.سیوریج کے پانی کی بدبو سے جہاں شہریوں کو سانس لینے میں
مشکل کا سامنا ہے اور شہری سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں وہی دوسری
طرف سیوریج کے پانی میں پیدا ہونے والے مچھر اور دوسرے کیڑے مکوڑے بھی
انسانی صحت کے لیے مضر صحت ہیں.ماضی میں بھی ہمارا ملک ڈینگی مچھر کی وجہ
سے ہونے والی بیماریوں کا شکار رہا ہے ڈینگی مچھر جو سیوریج کے پانی کی ہی
پیداوار ہے.آج کل سیوریج کے پانی میں پولیو کا واءرس بتایا جارہا ہے پولیو
کا مرض پہلے بھی ہمارے ملک کا اہم مسلہ رہا ہےاب پھر سے پولیو کے واءرس کا
سیوریج کے پانی میں ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر پولیو کے مرض میں اضافے کا
خطرہ ہے.بعض پینے کے پانی کی لاءنز میں بھی سیوریج کا پانی شامل ہوجاتا ہے
جس کو پینے کے بعدلوگ مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتےہیں.میرا اعلی
حکام سے سوال ہے کہ آخر کب تک ہم ایک بدبودار ماحول میں سانس لیتے رہیے گے
آخر کب تک?کیا کراچی کے شہریوں کا کوئ پرسانے حال نہیں?.کراچی میں سیوریج
کے پانی نے بڑےبڑے کھیل کے میدانوں کو اجھاڑ کر رکھ دیا ہے اور میدانوں میں
سیوریج کا پانی جمع ہوجاتا ہے جس سے بچوں کی تفرحی ختم ہو کر رہ گئ ہےپہلے
جہاں بچے کھیل کھیلتے تھے اب وہاں صرف کتے بھوکتے نظر آتے ہیں.میری وزیر
بلدیات سے مدبانہ گزارش ہےکہ خدارا سیوریج کے نظام کو بہتر بناۓ.حکومت کو
چایۓ کہ سڑکیں بنانے سے پہلے سیوریج کے نظام کو بہتر بناۓ تاکہ سڑکیں ٹوٹ
پھوٹ سے بچ سکے کیونکہ سیوریج کے پانی میں موجود کیمیکز سڑکوں کو توڑ دیتے
ہیں جس سے حکومت کو بار بار سڑکیں بنانا پڑتی ہیں اور اس طرح حکومت کا پیسہ
ضاءع ہوتا ہے.حکومت کو سیوریج کے پانی کی نکاسی کے نظام کو اچھا بنانے کی
ضرورت ہے تاکہ شہریوں کو اور ہماری آنے والی نسلوں کو صاف ستھرا. ماحول
میسر آسکے اور ہم ایک جراثم سے پاک ماحول میںسانس لے سکے.کراچی میں موجود
کھیل کے میدانوں کو بھی اچھا بنانے کی ضرورت ہے تاکی بچوں کی تفرحی بحال ہو
سکے.(فرواعلی,طلب علم بی ایس آئ آر). (وفاقی اردو یونیورسٹی عبدالحق کیمپس
کراچی).
|