پاکستان میں پینے کے پانی کی کمی سے زیادہ ترسیل کے نظام
میں رکاوٹوں کاسامنا ہے.چاہے شہر ہوں یا دیہات.غرض کہ ہر مقام پر پانی کے
ضروعت مندوں تک پہچنے میں رکاوٹیں ہیں جس کے باعث لوگ پانی جیسی بنیادی
سہولت سے محروم ہیں.اس کے علاوہ صاف پینے کا پانی انتہائی نایاب صورت
اختیار کر گیا ہے کیونکہ ملک کے زیادہ تر حصوں میں پینے کا صاف پانی میسر
نہیں ہے جس کی وجہ لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں.چاروں صوبوں کے
مختلف حصوں میں پینے کے پانی کی صورت حال خراب ہے کیونکہ پانی کی پاءپ
لاءنز بوسیدہ ہوکر ٹوٹ گئ ہیں جن کی وجہ سے پینے کا صاف پانی سڑکوں اور
سیوریج کے پانی میں مل جاتا ہےجس سے پانی کا زیاں ہوتا ہے.دیہات میں لوگوں
کو پینے کے پانی کے لیے میلوں کا سفر کرنا پڑتا ہے.خاص طورپر پانی کے حوالے
سے سندھ اور بلوچستان میں صورتحال انتہائ خراب ہے.پانی کے پہنچانے کے
نامناسب انتظامات ہونے کی وجہ سے پینے کا پانی گندے پانی کے ساتھ مل جاتا
ہے.ریگستانی علاقوں میں پانی کی قلت ایک بڑا مسلہ ہے.چاہے چولستان ہو یا
تھر کا ریگستان لوگ پینے کے پانی کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے گندا پانی پینے
پر مجبور ہیں. جن سے لوگ اپنے جانور تک کو نہیں نہلاتے وہ پانی پینے پر
ریگستان کی عوام مجبور ہے.جس کے باعث بچوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں بھی ہو
تی ہیں جن کا حکومت زیادہ نوٹس نہیں لیتی بس تھوڑی سی ہمدردی کے بول بول کر
خاموش تماشائ بن جاتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں.پینے کے صاف پانی کی فراہمی
حکومت کے لیے چیلنج بن چکی ہے.کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں بھی
قلت آب کا مسلہ شدت اختیار کر گیا ہےجس کی وجہ سے کروڑوں لوگ مشکلات کا
شکار ہیں.مضافات میں فراہمی آب ایک بڑا مسلہ بن کے سامنے آیا ہے.کراچی میں
واٹر بورڈ اس پانی کے نظام کو کنٹرول کرتا ہے.ان کی نا اہلی کے باعث کئ
علاقوں میں پانی کی لاءن پھٹ جاتی ہے اور صاف پینے کا پانی سڑکوں پر بکھر
جاتا ہے.ایک طرف لوگ صاف پانی کو ترس رہے ہیں تو دوسری طرف وہی صاف پانی
ضاءع ہورہا ہے.یہ سب انتظامی .معاملات میں خرابی اور بگاڑ کے سبب
ہورہاہے.ممکن ہے کہ پانی کی کمی ہو لیکن جتنا دستیاب ہے وہ بھی صارفین تک
بمشکل پہنچ پاتا ہے.پانی انسان اور ہر جاندار کے لیے ضروری
ہے.جانوراورچرندپرند کے لیے بھی پانی کی ضرورت ہوتی ہے جو لوگ مویشی پالتے
ہیں انہیں پانی کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اور اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے
کہ دیہات میں انسان اور جانور ایک ہی تالاب یا نہر سے پانی پی رہے ہوں یہ
ایک لحمہ فکریہ ہے.پورے ملک اور خاص طورپر کراچی شہر میں پانی کی چوری ایک
بڑا سنگین مسلہ بن چکا ہے.اس سلسلے میں جن کا نام آتا ہے وہ پانی مافیا یا
ٹینکر مافیا کہلاتے ہیں.یہ لوگ پانی ہزاروں روپے میں صارفین تک پہنچ پاتا
ہے جو کہ ان کی بنیادی ضرورت ہے.حکومت کی فراہم کردہ پانی کی لاءن میں پانی
کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے رہاءشی علاقے کے لوگوں کو شدید مشکلات ہو تی
ہیں. پانی کی کمی پورے ملک میں ایک گمبیر مسلہ ہے.خاص طورپر جب سے 2010ء
میں ایک بڑا سیلاب آیا.لیکن پانی کے ذخاءر کی کمی ہونے کی وجہ سے سارا پانی
تباہی اور بربادی پھیلا کر سمندر کے ناقابل استعمال پانیوں میں مل گیا. اسی
طرح حال ہی میں صوبہ بلوچستان میں ایک طویل خشک سالی کے بعد بارشوں کا
سلسلہ شروع ہوااور پھر سیلاب کی صورت اختیار کر گیاجس کے باعث بڑے پیمانے
پر تباہی ہوئ. اگر وہاں ڈیم موجود ہوتے تو وہ سارا پانی ذخیرہ کرتے اور خشک
سالی کے دنوں میں استعمال کرتے.ملک کے تمام حصوں میں پانی کے ذ خائر موجود
ہیں لیکن چونکہ وہ اتنے پرانے ہو چکےاور موجودہ دور کی ضروریات کو پورا
کرنے کے لیے ناکافی ہیں.اس لیے حکومت کو نءے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے.پانی کے
ذخائر جنہیں ڈیم, بیراج یاتالاب کا نام دیا جاتا ہے یہ ناصرف پانی سے ہونے
والی تباہی کو روکنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ سارا پانی کی ضروریات کو پورا
کرنے میں بھی نمایاں کردارادا کرتے ہیں.(فرواعلی,طلب علم: بی ایس آئ آر).
(وفاقی اردو یونیورسٹی,عبدالحق کیمپس کراچی). |