تحریر: عبد اﷲ یوسفزئی
ایک ہندو اور مسلمان کی آپس میں گہری دوستی تھی۔ مسلمان روز اسے ایمان کی
دعوت دیتا تھا، ہندو ٹال مٹول سے کام لیتا تھا۔ ایک دن ہندو کلمے کا مطلب
پوچھنے لگاتو مسلمان دوست جواب دینے لگے کہ میں مولوی صاحب سے پوچھ کر آتا
ہوں۔ ہندو ہنس کر کہنے لگے تم کلمے کا مطلب نہیں سمجھتے اور خود کو مسلمان
مانتے ہو۔ اس سے تو بہترہے میں ہندو ہی رہوں، کم از کم کلمہ تو پڑھ سکتا
ہوں۔ ہمارے تعلیمی نظام کی بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ طلبہ کو ڈگری تو
ملتی ہے، خواندگی کا ٹھپہ ان کے ماتھے پر لگ جاتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ
بدو کے بدو ہی رہتے ہیں۔ پرائمری سطح پر طالب علم مشکل سے اپنا نام لکھنا
سیکھ جاتا ہے۔ جب کہ کچھ طلباء تو مڈل کی سطح تک پہنچ کر بھی اپنا نام
انگریزی میں نہیں لکھ سکتے۔ میٹرک تک چند طلباء ہی پڑھنے لکھنے کے قابل بن
جاتے ہیں۔ ہاں سمجھنے میں پھر بھی دشواری ہوتی ہے البتہ اپنی مادری زبان
سمجھ سکتے ہیں۔
پرانے زمانے میں جب کوئی میٹرک پاس کرتا، تو معاشرے کے سمجھدار لوگوں میں
شمار ہوتا تھا۔ محلے والے انہی سے خطوط لکھواتے تھے بلکہ آسانی سے اسے
سرکاری نوکری بھی مل جاتی تھی۔ کیوں کہ اس وقت تخلیقی صلاحیتوں کا اتنی بے
دردی سے قتل نہیں ہوتا تھا، جس طرح آج ہورہا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ دنیا ترقی
کی جانب گامزن ہوگئی۔ لوگوں کو سہولیات میسر آئیں، تعلیم کا حصول ہر کسی کے
لیے ممکن ہوگیا۔ لیکن بد قسمتی سے ہم پھر بھی تعلیم یافتہ قوم نہیں بن سکے۔
کتنے بچے اسکول جاتے ہیں کتنے نہیں جاتے وہ تو ایک الگ موضوع ہے، لیکن جو
پڑھتے ہیں، وہ نہ پڑھنے والوں کے برابر ہیں۔ بنیادی سطح پر اس مسئلے کی ایک
ہی وجہ ہے، تعلیمی اداروں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان، اس مسئلے کو جنم
دینے والی بیماریوں کو ہم نقل اور رٹہ سسٹم کے نام سے جانتے ہیں۔
پہلی بیماری عام طور پر معیوب سمجھی جاتی ہے اور بظاہر سب ہی لوگ اس سے
نفرت کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں تقریبا ہر کوئی اسے پھیلانے کی کوشش کررہاہے۔
بد قسمتی سے بعض تعلیمی ادارے پوزیشن حاصل کرنے کے چکر میں خود ہی اپنے
طلباء کو نقل کی ترغیب دیتے ہیں۔ جب کہ دوسری بیماری یعنی رٹہ سسٹم کے تو
سب ہی دلدادہ ہیں بلکہ قابلیت جانچنے کا بہترین آلہ سمجھا جاتا ہے اسکولوں
میں زیادہ تر بچوں کا ہوم ورک کچھ یوں ہوتا ہے کہ فلاں صفحہ یاد کرو یا
فلاں سوال یاد کرلینا۔ بچہ وہی چیز یاد کرکے سناتا ہے، آگے سے داد ملتی ہے۔
حالاں کہ وہ اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ جو کچھ میں یاد کرکے آیا ہوں کس
بلا کا نام ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ بھی نقل کی ایک قسم ہے۔ فرق صرف
اتنا ہے کہ نقل میں کوئی سوال کسی پرزے یا صفحے سے لکھا جاتا ہے جب کہ رٹے
میں وہی پرزے کھوپڑی میں پڑے رہتے ہیں اور ایک دو دن بعد اسی کاغذی پرزے کی
طرح ضائع ہو جائیں گے۔ یہ ہماری غلط فہمی ہے کہ جو رٹہ لگا سکتا ہے وہی
ذہین ہے۔تعلیمی اداروں نے بچوں کو گریڈز اور نمبرز کی دوڑ میں لگادیا ہے۔
کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیوں اور آنے والی زندگی میں اس
سے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ہمارا مقصد بچوں کی ذہن کی نشوونما ہے لیکن اس مقصد
کے لیے بچوں کو اس قابل بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذہانت سے دوسرے
بچوں کا مقابلہ کرسکیں۔ جس کے لیے شروع سے ہی بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو
زندہ رکھنا پڑتا ہے۔
بچپن میں بچوں کی تخلیقی صلاحیت عروج پر ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی چیز کی وضاحت
اپنے الفاظ میں کرتے ہیں۔ ہم عصر بچوں کے ساتھ اپنی تخلیق کردہ زبان میں
باتیں کرتے ہیں۔ کاغذ پر مختلف چیزوں کی الٹی سیدھی تصاویر بنالیتے ہیں۔
مشاہدہ کرنے پر ایسے کئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ یہ صلاحیتیں ماند پڑجاتی ہیں بلکہ ختم ہوجاتی ہیں۔ پھر وہ اپنی
مادری زبان میں بھی کسی چیز پر مضمون نہیں لکھ سکتے۔ کیوں کہ انہیں ڈر ہوتا
ہے کہ وہ جو لکھیں وہ غلط ہوگا۔وہ اپنی صلاحیتوں پر اعتبار نہیں کرپاتے اور
نقل اور رٹے جیسی چیزو ں کا سہارا لیتے ہیں۔ ڈر میں مزید اضافہ تب ہوتا ہے
جب وہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور آگے سے ڈانٹ پڑتی ہے۔ گویا ان کی تخلیقی
صلاحیتوں پر اعتماد کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان پر قفل
لگادیا جاتا ہے۔
برطانیہ کے مشہور لکھاری اور تعلیمی ایڈوائزر کین روبنسن کہتے ہیں کہ
’’اسکول میں بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا قتل کیا جاتا ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ
تعلیم اور تخلیق کا باہمی تعلق دنیا میں ختم ہوچکا ہے۔ بچوں کو عمل تخلیق
سے الگ رکھ کر تعلیم دیا جاتا ہے۔ کین روبنسن کے مطابق تخلیق اتنی ہی ضروری
ہی جتنی کہ خواندگی۔اکثر بچے تخلیقی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے ڈسلیکسیا کا
شکار ہوجاتے ہیں اور پھر وہ لکھنے پڑھنے کے قابل نہیں رہتے۔ معاشرے میں اسی
طرح کے بچوں کو کند ذہن اور نالائق تصور کیا جاتے ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا
حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اور وہ یہ بات قبول کرلیتے ہیں کہ وہ نالائق ہیں۔ نتیجہ
یہ نکلتا ہے کہ وہ زندگی میں کچھ نہیں کرپاتے، ان میں آگے بڑھنے اور کچھ کر
دکھانے کی جستجو تک ختم ہوجاتی ہے۔ اس موضوع پر چند سال قبل ایک فلم تارے
زمیں پر بنائی گئی ہے۔ جس میں اس بیماری کی مکمل وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح
بچوں کے معصوم اذہان کو ٹورچر کرکے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا گلہ گھونٹ دیا
جاتا ہے۔اگر تعلیمی ادارے یہ حقیقت تسلیم کرلیں کہ مار پیٹ کرکے یاد کروانے
سے بچے ذہین نہیں بن سکتے بلکہ تخلیقی صلاحیتوں کو زندہ رکھنے اور اسے
سپورٹ کرنے سے ہی وہ تعلیم کے حقیقی مقصد کو پاسکتے ہیں تو یقینا معاشرے
میں شرح خواندگی کے اضافے کے ساتھ ہنر مند افرا کابھی اضافہ ہوگا۔ |