طلاق کی بڑھتی شرح

معاشرے کا قیام خاندان یا کنبے سے ہوتا ہے جس کا آغازمیاں بیوی سے ہوتا ہے اور یہ سلسلہ نسلوں تک چلتا ہے۔ اسی طرح اسلامی معاشرہ وجود میں آیا۔ مرد اور عورت کے تعلقات کو پاکیزہ انداز اور خاص اسلوب کو اسلامی شریعت نے خاص انداز سے مربوط کیا جس کو اسلام میں نکاح کا نام دیا گیا ہے۔ اس رشتہ میں بیگانگی‘ یگانگت میں اور اجنبیت‘ اپنائیت میں بدل جاتی ہے۔

معاشرے کا قیام خاندان یا کنبے سے ہوتا ہے جس کا آغازمیاں بیوی سے ہوتا ہے اور یہ سلسلہ نسلوں تک چلتا ہے۔ اسی طرح اسلامی معاشرہ وجود میں آیا۔ مرد اور عورت کے تعلقات کو پاکیزہ انداز اور خاص اسلوب کو اسلامی شریعت نے خاص انداز سے مربوط کیا جس کو اسلام میں نکاح کا نام دیا گیا ہے۔ اس رشتہ میں بیگانگی‘ یگانگت میں اور اجنبیت‘ اپنائیت میں بدل جاتی ہے۔

جدت پسند ممالک جب مغربی اقدار کی طرف راغب ہوئے تو کئی بری عادات انہیں تحفتاََ وصول ہوئیں صبر و استحکام‘ احترام و عزت اور عزتِ نفس کا خاتمہ ہوا جس کا اثر خاندان پر پڑا اور خلع اور طلاق جیسے خوفناک برائی نے جنم لیا۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ شیطان کا محبوب مشغلہ ہے۔

اسلامی ممالک میں یہ وباء کی طرح پھوٹی ہے۔ سب سے زیادہ طلاق کی شرح اردن میں ہے جہاں سال ۲۰۱۷ء میں ۲۶.۰ فیصد طلاق سامنے آئی اور سب سے کم لیبیا میں ہے جہاں ۰۳.۰ فیصد طلاق کی شرہ سامنے آئی۔ روزانہ کی بنیاد پر خلع اور طلاق کے سو سے زائد کیسز سامنے آتے ہیں۔ معاشرے کا کوئی طبقہ اس برائی سے محفوظ نہیں‘ چاہے وہ اَپر کلاس ہو‘ مڈل کلاس ہو یا لوئر کلاس ہو۔ ایک محتاط اندازکے مطابق ۲۰۰۵ء سے ۲۰۰۸ء تک لاہور میں طلاق کی شرہ ۷۵ ہزار کیسز رجسٹر ہوئے ‘ سال ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۱ء میں ایک لاکھ چوبیس ہزار ‘ ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۵ء میں اس کی شرح ۳۰ فیصد اضافہ ہوا‘ سال ۲۰۱۶ء سے ۲۰۱۸ء میں ۷۰ ہزارطلاق وخلع کے کیسز سامنے آئے۔ ہر سال اس شرح میں ۵ سے ۳ فیصد اضافہ ہوتا ہے۔

اس کا اثر نہ صرف خاندانوں تک محدود ہے بلکہ ان کی اولاد پر بھی اسکا ذہنی اثر پڑتا ہے۔ یہ بچوں کو نفسیاتی بیماریوں اور عدم اعتمادی کی طرف راغب کرتی ہے اور والدین کی شفقت سے محروم یہ بچے منشیات اور جرائم کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔

طلاق و خلع میں اضافے کے اسباب میں قانون سے نا واقفیت ‘ آدابِ گفتکو سے نا واقفیت ‘ بے جا مداخلت ‘ سماجی رویے ‘ دین سے دوری ‘ انا پرستی ‘ جبری شادیاں ‘ غربت و بے روزگاری اور طلاق پر مبنی ڈرامے ہیں۔ اس بڑھتی شرح کو روکنے کا طریقہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ہے اور والدین کو اولاد کی باقاعدہ تربیت کرنے سے ہے جس سے ان واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ طلاق ایک ایسا سنگین معاملہ ہے جو دو زندگیوں کے ساتھ ساتھ دو خاندانوں کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔

حکومتِ وقت کو چاہیے کہ اس بڑھتی ہوئی شرح کی روک تھام کے لیے قانون سازی کرے اور ڈرامائی سکرپٹ میں طلاق کی جگہ خوشحال زندگی کو زیادہ زور دیا جائے تاکہ ملک میں اسکی شرح میں کمی آئے ۔ آخر کب تک یہ برائی معاشرے کو تباہ کرتی رہے گی اور کب تک یہ برائی معاشرے سے ختم ہوگی؟
 

Sadiah Saleem
About the Author: Sadiah Saleem Read More Articles by Sadiah Saleem: 4 Articles with 2499 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.