سبز کتابچہ اور سیاہ خبریں
(Haseeb Ejaz Aashir, Lahore)
حسیب اعجاز عاشر یہ خبر آئینہ ہے نا کہ عددی جمع تفریق۔ جس میں ہم سب کو اپنا چہرہ صاف دکھائی دے رہا ہے ۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو ڈی جی ایف آئی اے کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ رواں برس اکاون ہزار پاکستانی مختلف ممالک سے آف لوڈ یا ڈی پورٹ کیے گئے۔ ان میں بڑی تعداد اُن افراد کی تھی جو بھیک مانگنے، دھوکہ دہی، یا غیر قانونی راستوں سے بیرونِ ملک جانے کی کوشش میں گرفتار ہوئے۔ یہ انتظامی ناکامی نہیں، قومی المیہ ہے؛ جو ہمارے اجتماعی ضمیر پر دستک دیتا ہے۔اور اگر پھر بھی آنکھ نہ کھلے تو یہ دستک چیخ میں بدل جاتی ہے۔ پاکستان کا گرین پاسپورٹ کاغذ کی ایک کاپی نہیں، یہ عزت کی ایک سند ہے۔ یہ ہماری تاریخ، ہماری تہذیب، ہماری امیدوں اور ہماری ذمہ داریوں کا مجموعہ ہے۔ اس پاسپورٹ کا وقار صرف صدر، وزیراعظم یا سیاست دانوں کی ذمہ داری نہیں؛ یہ ہر اس شخص پر فرض ہے جس کے ہاتھ میں یہ سبز کتابچہ ہے۔ دیارِ غیر میں مزدور ہو یا سفیر، طالب علم ہو یا تاجر, ہر پاکستانی پاکستان کا نمائندہ ہے۔ اس کی ایک مسکراہٹ، ایک بددیانتی، ایک ایمانداری یا ایک فریب سب کچھ وطن کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ وہ خبریں ,جن پر سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ جب بیرونِ ملک ایک پاکستانی ڈرائیور مسافر کی بھولی ہوئی نقدی اور سامان واپس کر دیتا ہے تو سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا ہے۔ کھیل کے میدانوں میں ہمارے کھلاڑی مخالفین کو چت کرتے ہیں تو خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ جب امریکہ یا یورپ کی کسی نمایاں یونیورسٹی میں پاکستانی طالب علم اعلیٰ پوزیشن حاصل کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں: دیکھو! پاکستان کا وقار بلند ہو رہا ہے۔ ہم اگر چاہیں تو دنیا میں اپنی پہچان شرافت، محنت اور دیانت سے قائم کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس! جب دھوکہ دہی، فریب، فراڈ، جھوٹ اور تخریب کاری کی خبریں پاکستان سے منسوب ہوتی ہیں، اور تحقیق اُنہیں سچ ثابت کر دیتی ہے، تو سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ اکاون ہزار پاکستانیوں کا ملک بدر ہونا وہ بھی اس الزام کے ساتھ کہ وہ پیشہ ور بھکاری تھے, ڈی پورٹ ہونے والوں کی فہرست ہمارے سماجی زوال کی داستان ہے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ عمرے کا نام لے کر یورپ جانے کی کوششیں، سیاحتی ویزوں کی آڑ میں گمشدگیاں، جعلی فٹبال کلب کے ذریعے ٹیموں کا بیرونِ ملک بھیجا جانایہ سب واقعات ایک ہی سوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ہم یہاں تک کیوں پہنچے؟ کیا یہ سب صرف قانون شکنی کا مسئلہ ہے؟ یا اس کے پیچھے وہ تلخ حقائق چھپے ہیں جن پر بات کرنا ہمیں گراں گزرتا ہے؟ یہاں ایک نکتہ نہایت اہم ہے: حکومت اگر چوروں کو سزا دینے پر ہی اکتفا کرے اور چوری کی وجوہات کا سدباب نہ کرے تو مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ سزا ضروری ہے، مگر ناکافی۔ سوال یہ ہے کہ عوام بھیک مانگنے پر مجبور کیوں ہوئی؟ وہ کون سی معاشی، سماجی اور انتظامی ناکامیاں ہیں جنہوں نے عزتِ نفس کو فاقوں کے ہاتھ گروی رکھ دیا؟ جب روزگار کے دروازے بند ہوں، تعلیم محض اسناد تک محدود ہو، ہنر کی قدر نہ ہو، اور محنت کا صلہ مہنگائی کی نذر ہو جائےتو کمزور انسان غلط راستے کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ جب دیہات میں صنعت نہ ہو، شہروں میں روزگار نہ ملے، اور سماجی تحفظ کا جال کمزور ہوتو غربت جرم کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ یہ کوئی جواز نہیں، مگر سبب ضرور ہے؛ اور سبب کو سمجھے بغیر علاج ممکن نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کے ساتھ ساتھ روزی روٹی کے حلال مواقع پیدا کرے۔ ہنر مندی کے مراکز کو محض فیتہ کاٹنے کی تقریبات تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ انہیں عالمی معیار کے مطابق فعال کیا جائے۔ بیرونِ ملک قانونی روزگار کے معاہدے شفاف طریقے سے کیے جائیں، تاکہ نوجوان غیر قانونی راستوں کے بجائے باعزت راستے اختیار کریں۔ مائیکرو فنانس، چھوٹے کاروباروں کی سرپرستی، اور دیہی صنعتوں کی بحالی یہ سب وہ اقدامات ہیں جو بھیک کے کلچر کو جڑ سے کمزور کر سکتے ہیں۔ تعلیم میں کردار سازی کو مرکزی حیثیت دی جائے۔ نصاب میں وقارِ محنت، دیانت اور شہری ذمہ داری کو محض اسباق نہیں، عملی تربیت بنایا جائے۔ میڈیا کو سنسنی کے بجائے اصلاح کا ذریعہ بنایا جائے، اور مذہبی و سماجی رہنماؤں کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی کہ عزت کی روٹی، ذلت کے مال سے بہتر ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی حد تک ایف آئی اے اور متعلقہ اداروں کی کوششوں سے پاکستان کی پاسپورٹ رینکنگ بہتر ہوئی، اور غیر قانونی جانے والوں کی تعداد میں کمی آئی۔ یہ خوش آئند ہے، مگر منزل ابھی دور ہے۔ اصل کامیابی تب ہوگی جب دنیا ہمیں آف لوڈ کرنے کے بجائے خوش آمدید کہے۔ عہد کریں کہ جہاں بھی ہوں، جو بھی ہوں ہم پاکستان کے سفیر بن کر رہیں گے۔ یہ سبز پاسپورٹ ہماری جیب میں نہیں، ہمارے ضمیر میں ہونا چاہیے۔ Haseeb Ejaz Aashsir | 03344076757 |