یہ کے پی کے ہے… تبدیلی بچوں کے ہاتھ لگ گئی ہے، اب کیا بنے گا؟
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
یہ کے پی کے ہے۔ یہاں اگر صبح دفتر دیر سے کھلے تو وجہ “سسٹم” ہوتا ہے، اگر فائل گم ہو جائے تو وجہ “پرانا ریکارڈ” ہوتا ہے، اور اگر چوکیدار انجینئر بن جائے تو وجہ “غلط فہمی” ہوتی ہے۔ پشاور میں ایک بار پھر تبدیلی نے آنکھ کھولی ہے۔ آنکھ کھولتے ہی اس نے سب سے پہلے ایک پریس ریلیز دیکھی، جس میں لکھا تھا کہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ٹانک میں قواعد کی خلاف ورزی پر صوبائی وزیر فضل شکور خان نے سخت نوٹس لے لیا ہے۔
سخت نوٹس۔ یہ وہ جملہ ہے جو کے پی کے میں افسران کو ڈراتا نہیں، بلکہ تسلی دیتا ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ سخت نوٹس کا انجام نرم فائل، اور نرم فائل کا انجام خاموشی ہوتا ہے۔ اعلان ہوا کہ چیف انجینئر کو فوری طور پر محکمہ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ چیف انجینئر اب سوچ رہا ہوگا کہ وہ رپورٹ کرے تو کیا لکھے؟ یہ کہ سسٹم بگڑا ہوا ہے؟ یا یہ کہ سسٹم نے ہی اسے یہاں تک پہنچایا ہے؟
پھر حکم آیا کہ متعلقہ حکام سے فوری تفصیلی رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ تفصیلی رپورٹ کے پی کے میں وہ چیز ہے جس میں سب کچھ لکھا جاتا ہے سوائے اصل بات کے۔ تفصیلی رپورٹ ہمیشہ تین حصوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ پہلا حصہ: ہم بہت ایماندار ہیں دوسرا حصہ: اگر کچھ ہوا ہے تو لاعلمی میں ہوا تیسرا حصہ: اصل ذمہ دار وہ افسر ہے جو اب دستیاب نہیں اسی دوران چیف انجینئر سنٹر پشاور ریجن سے وضاحت بھی طلب کر لی گئی۔ وضاحت طلب کرنا اب ایک رسمی عبادت بن چکی ہے۔ ہر محکمہ دن میں کم از کم ایک وضاحت مانگتا ہے، تاکہ فائل زندہ رہے۔
متعلقہ افسر کو تین دن میں جواب دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ تین دن میں کے پی کے میں جواب نہیں بنتا، تین دن میں جواب کا ڈھانچہ بنتا ہے۔ جواب بعد میں فائل کے ساتھ دفن ہو جاتا ہے۔ اب وزیر صاحب نے فرمایا کہ تسلی بخش وضاحت نہ ہونے پر سخت محکمانہ کارروائی ہوگی۔ یہ جملہ سن کر پورا محکمہ مطمئن ہو گیا۔ کیونکہ “سخت کارروائی” کا مطلب یہاں یا تو تبادلہ ‘ یا او ایس ڈی‘ یا پھر اگلے وزیر کے آنے تک انتظار۔
پھر بات ہوئی میرٹ اور شفافیت کی۔ کہ محکمے میں تعیناتیاں میرٹ اور شفافیت کے اصولوں کے مطابق ہوں گی۔ یہ جملہ سنتے ہی میرٹ نے شرمندگی سے منہ موڑ لیا، اور شفافیت پانی کی طرح نالی میں بہہ گئی۔ کیونکہ یہی وہ محکمہ ہے جہاں ایک چوکیدار، انجینئر بن گیا۔ یہ کوئی طنزیہ جملہ نہیں۔ یہ کوئی افواہ نہیں۔ یہ پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی اصل کہانی ہے۔ایک شخص چوکیدار بھرتی ہوا۔ اس کا کام گیٹ سنبھالنا تھا۔ وہ گیٹ پر بیٹھا، فائلیں دیکھتا رہا، دستخط پہچانتا رہا، اور سسٹم سیکھتا رہا۔ پھر ایک دن ‘ وہی چوکیدار فائلوں میں انجینئر بن گیا۔ نہ ڈگری مانگی گئی، نہ امتحان ہوا، نہ سلیکشن بورڈ کو زحمت دی گئی۔ کیونکہ کے پی کے میں اصل ڈگری تجربہ نہیں، اصل ڈگری تعلق ہوتی ہے۔
اب ذرا سوچیں۔ وہ شخص جو کل تک دفتر کا دروازہ کھولتا تھا، آج اسکیموں پر دستخط کر رہا ہے۔ وہ اسکیمیں جو عوام کے لیے پانی لانی تھیں، لیکن اکثر صرف بل لاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اختیارات کے ناجائز استعمال پر زیرو ٹالرنس کی بات ہوتی ہے تو اختیارات مسکرا کر کہتے ہیں: ہم یہاں جائز ہی کب تھے؟ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ عوامی صحت سے جڑا محکمہ ہے۔ لیکن یہاں سب سے زیادہ محفوظ چیز افسر کی نوکری ہوتی ہے۔ پانی آلودہ ہو جائے، سکیم ادھوری رہ جائے، فرق نہیں پڑتا۔ اہم یہ ہے کہ فائل مکمل ہو۔
عوامی مفاد کے خلاف فیصلوں پر زیرو ٹالرنس پالیسی کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ یہ اعلان ہر حکومت میں ہوتا ہے۔ اور ہر بار عوام یہ سوچتی ہے کہ شاید اس بار واقعی کچھ ہوگا۔ پھر عوام کو یاد آتا ہے کہ یہی وہ صوبہ ہے جہاں چوکیدار انجینئر بن سکتا ہے اور اصل انجینئر کسی کونے میں بیٹھ کر ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتا ہے۔ یہ کے پی کے ہے۔ یہاں تبدیلی ایک ایسا کھلونا ہے جو بچوں کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ بچے خوش ہیں، تصویریں ہیں، پریس ریلیز ہیں، لیکن کھلونا ٹوٹ چکا ہے۔ ہر سخت نوٹس کے بعد ایک نئی کہانی شروع ہوتی ہے، مگر انجام وہی رہتا ہے۔ فائل بند، معاملہ ختم، اور عوام پھر سوال کرتی ہے: اب کیا بنے گا؟
اصل سوال یہ نہیں کہ ٹانک میں کیا ہوا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا کبھی کسی چوکیدار سے پوچھا جائے گا کہ وہ انجینئر کیسے بنا؟ یا یہ سوال بھی کسی تفصیلی رپورٹ میں دفن ہو جائے گا؟ فی الحال تو یہی لگتا ہے کہ تبدیلی زندہ ہے، لیکن صرف کاغذ پر۔ اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اس کی نئی اسکیم تیار کر رہی ہے۔
#KPK #Tabdeeli #PublicHealth #GovernanceFailure #MeritSystem #PakistanPolitics #Accountability #Bureaucracy #SatiricalColumn
|