برطانوی پورٹریٹ فوٹو گرافر جون ایناک نے حال ہی میں
ویتنام کے درالحکومت ہنوئی میں بار برداری کے لیے استعمال ہونے والے موپیڈز
کی تصاویر بنانے کا کام مکمل کیا ہے۔
|
|
وہ کہتے ہیں کہ ’موپیڈز جنوب مشرقی ایشیا میں زندگی کا خاصہ ہیں اور انھیں
شہر کا ورک ہارس بھی کہا جاتا ہے جن پر بڑی اور انواع و اقسام کی چیزیں لدی
ہوتی ہیں۔‘
|
|
|
|
’15 برس قبل جب میں نے پہلی مرتبہ جنوب مشرقی ایشیا کا سفر کیا تو موٹر
سائیکلوں اور موپیڈز کی تعداد نے مجھے بہت حیران کیا۔‘
’ابتدائی طور پر کبھی نہ رکنے والی ٹریفک کا رش حواس پر طاری ہو جاتا ہے۔
آپ سوچتے ہیں کہ آپ سڑک کو کیسے عبور کر پائیں گے۔‘
پھر ان ’ڈرائیورز اور ترسیل ہونے والے سامان نے مجھے مسحور کرنا شروع کر
دیا۔‘
ترسیل ہونے والے سامان کا غیر معمولی پن، جیسا کہ کثیر تعداد میں انڈے، برف
کے تھیلے یا پھولوں کا ڈھیر، آنکھوں کو اتنا حیرت انگیز لگتا کہ میں نے
لوگوں سے پوچھنا شروع کر دیا کہ کیا میں ان کی تصاویر لے سکتا ہوں۔‘
|
|
|
|
سنہ 2017 میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ شہر میں آلودگی اور ٹریفک جام پر
قابو پانے کے لیے سنہ 2030 تک تمام دو پہیوں والی سواریوں جیسا کہ موپیڈز،
سکوٹرز اور موٹر سائیکلوں پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
اگرچہ شہر کے چند باسیوں کا ماننا ہے سنہ 2030 تک ایسا ہونا ممکن نہیں، کم
از کم اس وقت تک نہیں جب تک ان کا نعم البدل نہیں آ جاتا۔
|
|
جون ایناک کہتے ہیں کہ ’میں کافی عرصے سے ان تصاویر کی منصوبہ بندی کر رہا
تھا۔ تاہم جب میں نے پڑھا کہ آئندہ دس برسوں میں موٹرسائیکلوں پر پابندی
عائد ہو جائے گی تو مجھے پتا تھا کہ مجھے ہنوئی جانا ہے اور اس منصوبے پر
جلد از جلد کام مکمل کرنا ہے۔‘
|
|
|
|