ہم تینوں دوست ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے روزانہ
شام کو کام سے آنا اور کچھ وقت گزارنے کے لیے کسی نا کسی پارک میں چلے
جانا،صبح سے لے کر شام تک کے تلخ وشریں معاملات کو دوستوں کے ساتھ شیئر
کرکے دل کو ہلکا کر لینا، زندگی بہت شاندار گزر رہی تھی ،اچانک کچھ عرصہ
قبل دو دوستوں میں معمولی چپقلش ہوئی اور ایک دوسرے سے بولنا چھوڑ دیا میں
نے کافی تگ ودو کی کہ یہ معاملہ کسی طرح حل ہوجائے لیکن کوئی صورت نہیں بن
رہی تھی۔ شب برات کی رات دوست کی کال آئی کہتا کہ آج رات کا کیا پروگرام ہے
کس مسجد میں جانا ہے وغیرہ ابھی اس کی گفتگو جاری تھی کہ میں نے کہا بھائی
سال بعد آج ڈیجیٹل معافی کا دن ہے۔ آپ نے بھی گروپس اور سٹیٹس پر معافی
مانگنے والے میسج فارورڈکرکے یا سٹیٹس پر معافی نامہ اپلوڈ کیا جس میں لکھا
ہے کہ:’’آج شب برا ت ہے ہمارا نامہ اعمال تبدیل ہونے والا ہے۔ہماری زندگی
کی ایک اور کتاب بند ہونیوالی ہے اور کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ اس کی کتاب
حقوق العباد و حقوق اﷲ معاف کرانے سے قبل ہی بند ہوجائے۔کیونکہ حقوق اﷲ تو
معاف ہوسکتے ہیں مگر حقوق العباد اس وقت تک معاف نہیں ہوں گے جب تک معافی
نہ مانگی جائے۔سو آج تک میری طرف سے جانے انجانے میں کوئی غلطی، گستاخی،
غیبت ہوئی، یا آپ کا دل دکھا ہو تو اﷲ کی رضا کے لیے مجھے معاف کر دیں۔میں
نے بھی اﷲ کی رضا کے لیے سب کو معاف کیا‘‘۔
مجھے بھی صبح سے سینکڑوں معافی نامے موصول ہورہے ہیں آپ کے جگری دوست(جس سے
چپقلش ہے) نے بھی مجھے معافی نامہ سینڈ کیا ہے، کیا آپ کو نہیں سینڈ کیا؟
وہ افسردگی کے لہجے میں کہنے لگایار مجھے تو سینڈ نہیں کیا اُس کی اس بات
نے مجھے تعجب میں ڈال دیا کہ میری تو اس سے کوئی ناراضگی نہیں تھی اس نے
پھر بھی مجھے معافی نامہ سینڈ کیا جس سے کتنے دنوں سے چپقلش چل رہی ہے اسے
کیوں سینڈ نہیں کیا ۔
اس کے اس جواب نے مجھے پریشان کردیا اور میں اس بارے کافی دیر سوچتا رہاکہ
اس جیسے کتنے لوگ ہوں گے جنہوں نے میسج فارورڈ کرکے معافیاں مانگی ۔
کتنے ایسے لوگ ہوں گے جن کی وجہ سے ساری زندگی پڑوسی تکلیف اٹھاتے رہے،بہن
، بھائی گالیاں برداشت کرتی رہے،ماں باپ نا مرنے کے طعنے سنتے رہے،بیوی
کھانے میں نمک کم یا زیادہ ہونے پر تھپڑ کھاتی رہی،عزیز رشتہ داروں کااور
دوستوں کا مال نا حق کھاتا رہا،اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی ماتھے پر
شرمندگی سے ایک شکن تک نہیں آئی ۔ میرا سوال یہ ہے کہ میسج فاروڈ کر کے
معافیاں مانگنے کا کیا فائدہ؟جن کو جانتے تک نہیں، جن کو کبھی ملے نہیں،جن
کو کبھی تنگ نہیں کیا،جو ناراض نہیں ان سے معافیاں مانگی جا رہی ہیں اور جن
سے ناراض ہیں ان سے معافی مانگنے کو تیار نہیں ۔ یہ’’ منافقانہ
معافیاں‘‘ہیں جو محض ایک رسمی کارروائی ہے۔
قارئین کرام!معافی مانگنا اچھی بات ہے اور معافی مانگنے کو ایک ایسی انسانی
صفت مانا گیا ہے جسے اپنے اندر پیدا کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ۔ اسی
لئے یہ صفت انسانی ہونے کے باوجود ماورائی سی لگتی ہے ۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا
کہ ہم نے آج تک کسی سے معافی مانگی ہواور وہ بھی صدق دل سے ۔خدا کے لیے یہ
رسمی عادتیں چھوڑ دیں،کب تک ہم خود کو بیوقوف بناتے رہیں گے؟آخر کب تک یہ
ڈرامائی سلسلہ جاری رہے گا؟آئیے! آج عہد کریں اگر واقعی آپ معافی مانگنا
چاہتے ہیں،تو جائیے رشتے داروں کے گھر جن سے آپ برسوں سے ناراض ہیں، بہن
بھائیوں کے گھر جائیں،پڑوسیوں سے معافی مانگیں،ہر ایک سے معافی مانگیں جس
کا آپ نے دل دکھایا، یہاں پر ہمیں ایک اور بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے
کہ ڈرامائی معافی کے لیے تو ایک دن مخصوص ہوسکتا ہے جبکہ حقیقی معافی کے
لیے کوئی دن مخصوص نہیں آپ روزانہ جب چاہیں ، جس وقت چاہیں صدقِ دل سے
معافی مانگ سکتے ہیں، مگر دیر نا کریں۔
معافی تلافی کے بعد اگلا مرحلہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اس رات آتش بازی کرتے ہیں،
ہلہ گلہ، کرکٹ اور دیگر کھیل کود میں وقت برباد کرتے ہیں، آتش بازی سے جہاں
وقت کا ضیاع ہے وہیں پیسے کا خرچ بھی ،افسوس شب برات کے دن جب میں کام سے
واپس گھر لوٹا تو محلہ میں جم غفیر دیکھ کر حیران ہوگیا کہ پتا نہیں کیا
ہوا اتنے لوگ کیوں جمع ہیں موقع پر موجود ایک صاحب سے پوچھا خیریت تو ہے وہ
صاحب دکھی انداز میں بولے بھائی بچوں کو کتنی مرتبہ منع کیا ہے کہ پٹاخے نہ
چلائیں ،پٹاخے چلاتے ہوئے ایک بچے کا ہاتھ جل گیا ہے اور شدید چوٹیں آئی
ہیں، اب آپ ہی بتائیں کہ کونسا دین ہے جو کہتا ہے کہ پٹاخے چلاؤ ، لوگوں کو
پریشان کرو،چائنہ بم، پھلجھڑیاں، ڈبریاں اورفی زمانہ پٹاخوں کی بھی نت نئی
قسمیں بازاروں میں دستیاب ہیں جو نہایت خطرناک مواد سے تیار کی جاتی ہیں جن
سے فضائی آلودگی کے علاوہ ا ور بھی نقصانات سامنے آتے ہیں آتش بازی میں
جسمانی نقصان و ہلاکت کااندیشہ رہتا ہے،راہ گیروں کا سڑکوں سے گزرنا مشکل
ہو جاتا ہے، آتش بازی،خلق خدا کی ایذارسانی کاسبب ہے مثلاً پٹاخوں کی خوف
ناک آوازوں سے لوگ ڈرجاتے ہیں، بغیر کسی تکلیف کے اپنے کانوں کو پکڑ لیتے
ہیں،کوئی بیمار آرام کا متقاضی چین سے سو نہیں پاتا، اسلام میں کسی بھی
انسان کو ستانے ، ڈرانے اور خوف زدہ کرنے سے منع کیاگیا ۔
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے
وہ انہی میں سے ہے‘‘۔(سنن ابو داود)
اب بتائیے!کہ ڈھیروں سارے پٹاخے چلانے کا ہمارے نامہ اعمال میں کیا
اجروثواب لکھا جائے گا؟
اسلام ایک کامل ومکمل دین اور دائمی نظام العمل ہے، جس میں تغیر پذیر ز
ندگی کے تمام شعبوں اور گوشوں کے لیے بدرجۂ اتم رہبری موجود ہے،دین اسلام
فقط چند جزئیات کا نام نہیں بلکہ یہ ایک پورا دستور(پیکیج )ہے جو انسان کی
پیدائش سے لے کر موت تک، انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی معاملات تک،عائلی
اور معاشرتی مسائل سے لے کرمعیشت وتجارت تک،غرض انسانی تمدن کے ہر پہلو کے
بارے میں بھرپوررہنمائی فراہم کرتا ہے۔ دین فطرت ہونے کے لحاظ سے اسلام
انسان کی جسمانی، روحانی اور نفسیاتی ضروریات کے بارے میں ایک مفصل لائحہ
عمل پیش کرتا ہے؛ جس پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی زندگی کو پرسکون بنا سکتے
ہیں۔ |