کسی بھی زبان اور ثقافت کے فروغ اور ترویج میں ذرائع
ابلاغ کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ دور جدید میں تو یہ حقیقت اور بھی واضح
ہوگئی ہے جہاں زندگی کے ہر شعبہ میں میڈیا کے گہرے اثرات ہیں۔ ٹیلی وڑن،
فلم، انٹرنیٹ اور میڈیا ،لوگوں کی زندگی کا رخ متعین کررہے ہیں اور انہی سے
وابستہ شخصیات لوگوں کے دلوں پر راج کرتی ہیں۔ سائنس دان، مفکر ، ادیب اور
علم و ادب کی دنیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات اس دور میں سیلبرٹی کی حیثیت
نہیں رکھتیں بلکہ شو بزنس سے تعلق والے ہی شہرت کی بلندیوں پر فائز ہوتے
ہیں۔ لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے، ان کے ساتھ ملنے اور تصاویر بنوانے کے لئے
بے تاب رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے سیاسی، مذہبی، سماجی، ثقافتی اور دیگر تقریبات
کی کامیابی کے لئے شو بزنس کے ستاروں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ خوش آئند امر
یہ ہے کہ پاکستان کے شو بزنس سے تعلق رکھنے والے اکثر ستارے انسانی خدمت
اور تعمیر وطن کا جذبہ رکھتے ہیں اور وہ ایسے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ
لیتے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو بلا معاوضہ کار خیر میں حصہ لیتے ہیں، جو
قابل تحسین رویہ ہے۔وہ اخوت فاونڈیشن، شوکت خانم، ایدھی اور دوسرے سماجی
بہبود کے اداروں کے ساتھ وابستہ ہیں اور مسلسل ان کے لئے رضاکارانہ طور پر
پر خلوص خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ حالیہ کچھ عرصہ میں پاکستان کے صف اول
کے ستاروں میں سے ریما خان، حمزہ علی عباسی، شازیہ منظور، مایہ علی اور
شہریار منور کی سویڈن میں میزبانی کا موقع ملا جو مختلف مواقع پر فلاحی
کاموں کے لئے امدادی رقوم جمع کرنے کے لیے اسکینڈے نیویا کے دورہ پر آئے
تھے۔ ان سب کا جذبہ، دکھی انسانیت کے لئے درد دل اور لگن دیکھ کر مسرت ہوئی
کہ پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے جس کے شو بزنس سے تعلق رکھنے والے یہ کردار
ادا کررہے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک کے سیلبرٹی شائد اس تعداد میں اس طرح سے
سماجی بہبود اور انسانی خدمت کے لئے سرگرم نہ ہوں۔ خدا یہ جذبے سلامت رکھے
اورانہیں استقامت عطا فرمائے کہ وہ اس کار خیر میں حصہ لیتے رہیں۔
پاکستانی ٹیلی وڑن کے ڈرامے پوری دنیا میں بہت مقبول ہیں۔ بھارت جہاں کی
فلم انڈسٹری بہت بڑی ہے وہاں بھی پاکستانی ڈراموں کا طوطی بولتا ہے۔ ان
ڈراموں کی بدولت اردو زبان اور مشرقی تہذیب کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ یورپ،
مشرق بعید، آسٹریلیا، اور امریکہ میں آباد اردو بولنے والے اپنے اگلی نسل
کی زبان کے حوالے سے بہت متفکر ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہاں پروان چڑھنے
والے بچے اردو زبان سیکھیں اور بول سکیں۔ ان ممالک میں اردو کی تدریس کا
کوئی خاطر خواہ انتظام اور سہولتیں نہیں ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی ٹیلی
وڑن کے ڈرامے ان کے لئے اردو سیکھانے کے لئے ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہیں۔
پاکستانی شوبزنس ستاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں اردو زبان کو فروغ حاصل
ہورہا ہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت یہ سہولت موجود ہے جب فرصت ہو اور جی چاہیے
اپنی پسند کے ڈرامہ اور پروگرام کو دیکھ سکتے ہیں۔ ذاتی تجربہ میں یہ بات
آئی ہے کہ ان پاکستانی ڈراموں سے یورپ میں مقیم بچوں کے اردو سمجھنے اور
بولنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپ کی مصروف اور تھکا دینے والے شب و
روز میں ہمارے ڈرامے اچھی تفریح کے ساتھ زبان و ثقافت کے فروغ کے لئے گراں
قدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ ہمارے شو بزنس کے ستارے
علم دوست اور مطالعہ کا شغف رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اردو زبان میں
مزید نکھار پیدا ہوتا ہے۔ مایہ علی نے ایک صحافی کی حیثیت سے بھی کام کیا
ہے۔ ریما خان کی علم دوستی نے بہت متاثر کیا ۔ انہوں نے فیصل آباد جیل میں
قیدی بچوں اور عورتوں میں سبق آموز کہانیاں تقسیم کرکے خوشگوار مسرت کا
احساس دیا۔ شہریار منور نے بتایا کہ ان کے گھر میں کتابوں کے مطالعہ اور
پھر ان پر علمی بحث کا ماحول ہے۔ حمزہ علی عباسی کی فکر اقبال سے وابستگی
نے ہمیں موقع فراہم کیا کہ ان کے ذریعہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان تک یہ
عرغداشت پہنچائیں کہ وہ ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں چار سال سے خالی اقبال
چئیر کے لئے کسی موزوں شخص کی تعیناتی کردیں۔ حمزہ علی عباسی نے یہ درخواست
وزیراعظم کے گوش گذار کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
تحسین کے ان جذبات کے ساتھ کچھ گلہ اور شکوہ بھی ہے ۔ہمارے برقی ذرائع
ابلاغ میں جان بوجھ کر اور بے محل انگریزی کے الفاظ ٹھونسے جاتے ہیں
حالانکہ ان کے لئے اردو بہت موزوں اور عام سمجھے جانے والے الفاظ موجود
ہیں۔ تازہ ترین خبروں کی بجائے بریکنگ نیوز، شہ سرخیوں کی بجائے ہیڈ لائنز،
وقفہ کی بجائے بریک، براہ راست کی بجائے لائیو اور اس طرح کے بہت سے دیگر
بے تکے انگریزی الفاظ شامل ہیں۔ ایک بہت مقبول مزاحیہ پروگرام کے میزبان
مختلف ناموں سے کئی ایک نجی ٹیلی ویڑن پر پروگرام پیش کرتے آرہے ہیں۔ موصوف
زبان و ادب بھی سمجھاتے ہیں فرہنگ آصفیہ کا درس دے کر اپنے ناظرین کی ادبی
معلومات میں اضافہ بھی کرتے ہیں لیکن اپنے پروگرام کے آغاز میں کہتے ہیں
کہ’’ میں ہوں آپ کا ہوسٹ‘‘ اور وقفہ کے بعد کہتے ہیں’’ ویلکم بیک‘‘ حالانکہ
وہ ’’ میں ہوں آپ کا میزبان‘‘ اور ’’ دوبارہ خوش آمدید ‘‘ جیسے اردو کے عام
فہم الفاظ بھی اداکرسکتے ہیں۔ ڈارموں کے موضوعات میں بھی تنوع بہت ضروری ہے
کہ اور زندگی کے مختلف شعبوں اور مزید معاشرتی موضوعات کو سامنا لایا جانا
بہت ضروری ہے جیسے چیخ ڈرامہ میں گیا گیا ہے۔ محبت اور شادی کے موضوع پر اس
قدر ڈرامے اور فلمیں بن چکی ہیں کہ بقول فیض اور بھی دکھ ہیں زمانے میں
محبت کے سوا۔ ٹیلی وژن پر تعلیم، سانئس، صحت، معلوماتی عامہ اور فکری
پروگرام پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے زیادہ بچوں اورر نوجوانوں کو نظر اندا
کیا جارہا ہے۔ ٹیلی وژن چینلوں اور اخبارات کی بہتات ہے لیکن المیہ ہے کہ
بچے اور نوجوان جنہیں قوم کا مستقبل کہا جاتا ہے ، بالکل ہی نظر انداز کیا
رہاہے۔ اب دیکھتے ہیں یہ آواز صدا بحرا ثابت ہوتی ہے یا کوئی درد مند دل اس
پر کان دھرتا ہے۔ |