آپ اپنے کسی دوست یا عزیز کو اپنی گاڑی میں لفٹ دیتے ہیں
اور وہ اترتے وقت آپ سے کہتا ہے، یار تم اپنی گاڑی تبدیل کیوں نہیں کرلیتے
کب تک اس کٹھارا سی گاڑی کو لے کر گھومتے رہو گے میرا تو دم گھٹ کر رہ گیا۔
آپ سوچیں اس لمحہ آپ پر کیا بیتتی ہے، اکثر کا تو دل کرے گا کہ اس سے
دوبارہ کبھی ملاقات نہ ہو۔ اسی طرح آپ اپنے چند کولیگز کو اپنے گھر کھانے
پر مدعو کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک آپ کو مشورے دینے لگتا ہے کہ تم
یہ صوفہ سیٹ تبدیل کر لو یا پھر کہتا ہے کہ یہ پردے کتنے پرانے ڈیزائن کہ
ہیں اس سے بہتر اور نئے ڈیزائن کے پردے مارکیٹ میں موجود ہیں تمہیں وہ
خریدنے چاہیے۔ آپ کا دل چاہے گا کہ اسے گھر سے باہر نکال دیں۔ اس قسم کے
لوگ ناقدانہ رویوں کے مالک ہیں یہ اچھی صفت ہے لیکن یہ لوگ اس کا استعمال
غلط وقت اور نامناسب جگہوں پر کرتے ہیں۔
یہ تنقید نہیں بلکہ تنقیص کرتے ہیں کیونکہ جب آپ کسی چیز کا تنقیدی جائزہ
کرتے ہیں تو آپ اس چیز کی خوبیاں اور خامیاں دونوں کا عدل پر مبنی تجزیہ
پیش کرتے ہیں۔ میں آپ کو یہ نہیں بتانا چاہتا ہے کہ ایسے لوگوں کا علاج
کیسے کرنا چاہیے یا وہ کس طرح اپنی اصلاح کرسکتے ہیں۔ میرے لکھنے کا مقصد
یہ ہے اگر آپ کا ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے تو آپ کو کیا کرنا چاہیے اور
ان کے تنقیصی رویے سے آپ کیسے اپنے آپ کو بچائیں۔ ایسے لوگوں سے روابط ختم
کرنے کے بجائے ان سے نمٹنے کے لیے آپ کو حکمت اور دانائی کا سہارا لینا
چاہیے کیونکہ مشہور قول ہے کہ ’’دوست گنوانے اور دشمن بنانے میں جلد بازی
نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ پچھلے دنوں ایک دوست ندیم اعوان، جن کا تعلق شعبہ صحافت
سے ہے اور ایک جریدے کے ایڈیٹر بھی رہے لیکن سوشل میڈیا سے دور رہے، اب وی
لاگ بناتے ہیں اور ان کا یوٹیوب چینل بہت تیزی سے مقبول ہورہا ہے، ان کی
ویڈیوز پر کسی نے کمنٹس کیے کہ ’’آپ کی وڈیوز کی کوالٹی اچھی نہیں اور آواز
کا رزلٹ بھی خراب ہے‘‘۔ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ وہ موبائل سے وڈیو
بناتے ہیں اگر آپ کیمرہ اور مائیک گفٹ کر دیں تو یہ دونوں خامیاں دور ہو
سکتی ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کہ نبی کریمﷺ سے ایک شخص نے اندر آنے کی
اجازت چاہی تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اسے اندر بلا لو، یہ اپنی قوم کا بہت
ہی برا آدمی ہے، جب وہ شخص اندر آیا تو آنحضرتﷺ نے اس کے ساتھ نرمی کے ساتھ
گفتگو فرمائی۔ مں نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ! آپ نے ابھی اس کے متعلق کا
فرمایا تھا اور پھر اتنی نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا، عائشہ اﷲ کے نزدیک وہ شخص سب سے برا ہے جسے لوگ اس کے شر
کی وجہ سے چھوڑدیں۔ (صحیح بخاری:6131) اسی طرح اگر آپ کو علم ہے کہ ایسا
شخص آپ کی کسی چیز کی تنقیص کرنے والا ہے تو آپ گفتگو کا رخ پھیر دیں، یا
اس سے مشورہ کرنا شروع کردیں کہ آپ اپنا پرانا موبائل بدلنا چاہتے ہیں،
مارکیٹ میں کونساموبائل زیادہ مقبول ہے؟ اب وہ آپ کے موبائل کے نقص بتانے
کے بجائے آپ کو مارکیٹ میں موجود موبائلز کی خصوصیات گنوانا شروع کردے گا۔
احمد صاحب دسمبر کے مہینے میں ٹنڈ کروا بیٹھے، اب وہ جس سے بھی ملتے وہ
مضحکہ خیز جملے کستے ہوئے پوچھتا یہ کونسا موسم ہے گنج کروانے کا اور احمد
صاحب اپنے عذر پیش کرنا شروع کردیتے۔
وہ ان رویوں سے تنگ آگئے تھے، ہوٹل پر بیٹھے اپنے ایک دوست کو اپنی جانب
بڑھتے دیکھا تو خیال آیا کہ سب سے پہلے میری ٹنڈ کا تذکرہ ہوگا۔ دوست جیسے
ہی قریب ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی بات کرتا احمد صاحب نے سوال داغ
دیا، بھائی دسمبر شروع ہوگیا ہے تم نے ابھی تک ٹنڈ نہیں کروائی؟ اب وہ اپنا
دفاع کرتے ہوئے بولا، یار دسمبر میں کون ٹنڈ کرواتا ہے؟ ’’بہت لوگ کرواتے
ہیں، میں نے بھی کروائی ہے‘‘، احمد صاحب نے جواب دیا۔ احمد صاحب کی حکمت
کام آگئی وہ اپنے دوست پر سوال کستے رہے اور وہ اپنا دفاع کرتا رہا۔ انگریز
سے ٹیبل ٹرن پالیسی کا نام دیتا ہے کہ اگر آپ کسی کو اس کی جگہ سے نہیں ہٹا
سکتے تواسے اپنے میدان میں لے آئیں۔ آپ بھی اگر ایسے لوگوں کو تبدیل نہیں
کرسکتے تو تعلقات ختم کرنے کے بجائے ان سے نمٹنے کے لیے حکمت و دانائی سے
کام لیں اور ان سے روابط قائم رکھیں۔ |